عیاش ریاست اور گوڈ گورننس

بدھ 18 جولائی 2018

Khursheed Uz Zaman Abbasi

خورشیدالزمان عباسی

ہندو اور انگریز سے علیحدگی اختیار کرنے کے بعد حاصل ہونے والی اسلامی فلاحی ریاست پاکستان نے اپنی جدگانہ حیثیت سے ترقی کی کئی منزل طے کیں مگر ایک عام ریاستی شہری کو فراہمی انصاف کا کوئی نظام آج تلک وضع نہ کر سکا گویا جابر ہندو اور مکار انگریز نے اس قدر سخت گیر نظام چھوڑا کہ نئی ریاست کہ آزادوخودمختار حکمرانوں نے اپنی ریاست کا نظام چلانے کے لیے آج تک جابر ہندو اور مکار انگریز ہی کہ وضع کردہ قوانین کو تھوڑی بہت ترمیم کہ ساتھ برقرار رکھا ہوا ہے سخت گیر نظام عدل نہ ہونے کی وجہ سے اس ریاست کا غریب اور متوسط طبقہ آج بھی حصول انصاف کے لیے دربدر مارا پھرتا ہے اسی ریاست کے ساتھ آزادی حاصل کرنے والا ایک خطہ آزادکشمیر کے نام سے منسوب ہے جو دراصل دنیا بھر میں عیاشی اور اوباشی والی ریاست کہلاتا ہے یہاں روز اول سے آج تک جابر ہندو اور مکار انگریز کا قانون رائج ہے یہاں سرکاری اور نیم سرکاری اداروں کا ایک ادنیٰ ساکارکن بھی اپنے آپکو بادشاہ گردانتا ہے عدل وانصاف کا نام اس مفلوج ریاست میں صرف سنسنے کو ملتا ہے تاکہ ریاست کی بیررونی امداد بند نہ ہو جائے احتجاج کا حق اس خطہ میں بطور شمشیر چھن لیا جاتا ہے کیونکہ ریاست کا نظام عبوری آئین کہ تابع ہے جسمیں کوئی بھی تبدیلی اپنے آقاء کی مرضی کہ بغیر ممکن نہیں یہاں ریاست کا پشتنی باشندہ ہونے کا سرٹیفکیٹ حاصل کرنے کہ لیے ایک عام آدمی کو کئی ہزار دن پٹواری اور ڈسڑکٹ مجسٹریٹ کہ دفاتر کا چکر کاٹنا پڑتا ہے پشتنی سرٹیفکیٹ کہ اجراء کا اختیار ڈسڑکٹ مجسٹریٹ کہ سپر د ہے جو ہفتہ میں شاید دو دن دفتر میں بیٹھتا ہے گویا ایک عام آدمی کی دسترس میں ڈسڑکٹ مجسٹریٹ کی عدالت میں پیش ہونا ناممکن ہی نہیں ایک انتہائی مشکل کام ہے اس ریاست کے عیاش حکمرانوں کو پروٹوکول کا فریضہ بھی ڈسڑکٹ مجسٹریٹ کہ سپرد ہے ہندواور انگریز نے ڈسڑکٹ مجسٹریٹ کی اسامی اُس وقت اپنے پروٹوکول کے لیے نہیں بلکہ عوامی مسائل کے حل کے لیے تخلیق کی تھی ستم باراستم یہ ہے کہ ڈسڑکٹ مجسٹریٹ کی عدم موجودگی میں کوئی دوسرا آفیسر ضلعی مجسٹریٹ کا کام نہیں کر سکتا بے شمار ضلعی انتظامیہ کے آفیسران کی اسامیاں صرف مراعات کے حصول کے لیے قائم ہیں اورایک عام آدمی کو فراہمی انصاف کے لیے کام نہیں کرتیں چھوٹی عدالتوں میں دائر مقدمات سال ہا سال سے التواء میں صرف اس وجہ سے پڑے رہتے ہیں کہ متعلقہ آفیسران اپنے دفاتر میں نہیں بیٹھتے چھوٹی سطح کہ عوامی مسائل کے حل لیے پٹواری وہ واحد بااثر سرکاری اہلکار گنا جاتا ہے جس کے دفتر کا چکر ایک عام آدمی کئی ماہ لگانے کے بعد اور بھاری بھر رشوت دیکر صرف ایک نقل حاصل کر تا ہے اسی طرح گرداور نائب تحصیلدار تحصیلدار افسر مال ایسے عہدے ہیں جن کو اگر کم کر دیا جائے تو شاید فراہمی انصاف کا نظام نچلی سطح پر بہتر ہوسکے مذکورہ بالا عہدوں سے وابسطہ نظام اس ریاست کے عام شہری کی پہنچ سے انتہائی دور ہے جسکی وجہ سے ریاست کے غریب اور متوسط شہری انتہائی مشکل میں زندگی گزارنے پر مجبور ہے آزادکشمیر میں قائم عدالتی نظام کی دیکھ بحال کے لیے عوامی سطح پر شکایت کا کوئی ادارہ نہیں جہاں ایک عام آدمی سے نچلی سطح کی عدالتوں میں ہونے والی ناانصافیوں کے خلاف اپیل کی جاسکے اسی طرح ریاست بھر میں پولیس کانظام بھی من مرضی سے چل رہا ہے کیونکہ پولیس اورعوام کے درمیان انصاف کی بنیادوں پر کوئی رابطہ نہیں یہاں بھی اثر ورسوخ سے انصاف حاصل کیا جاتا ہے جو کہ غریب ریاستی شہری اور متوسط طبقہ کی پہنچ سے بے پناہ دور دکھائی دیتا ہے۔

(جاری ہے)

سرکاری اداروں میں مالیاتی کرپشن کی دیکھ بحال کے لیے احتساب بیوروکہ نام سے ایک ادارہ قائم ہے جسکی کارکردگی رپورٹ کے متعلق میرے پاس کوئی قابل ذکر معلومات نہیں ہیں جنکا برائے راست کوئی تذکراہ کیا جاسکے یہ ادارہ بھی از خود مختلف حکومتی اداروں میں ہونے والی کرپشن کو چیک نہیں کرتاجب تک کہ اس ادارہ کے پاس کوئی مقدمہ درج نہ کیا جائے آزادکشمیر کا عدالتی نظام نچلی سطح سے لیکر اوپر ی سطح تک انتہائی سست روی سے چلتا ہے یہی وجہ ہے کہ یہاں بے شمار لوگ نسل در نسل مقدمات کی غرض سے عدالتوں کے چکر کاٹتے کاٹتے اس دار فانی سے رخصت ہوجاتے ہیں حکومتی نظام روزازل سے جذالوقتی کی بنیاد پر چلا آرہا ہے نااہل لوگ برادری ازم اور پیسے کے بل پر عنان حکومت میں آجاتے ہیں آزادکشمیر کی کُلی اور جذوی سیاست کا دارمدار پاکستان کی مرکزی سیاست کا مرہون منت چلا آرہا ہے ۔

آزادکشمیر میں چلنے والے سارے ایسے ادارے جو ریونیو حاصل کرتے ہیں اُسکی فاضل آمدنی پاکستان حاصل کرلیتا ہے یا وہ آزادکشمیر کے حکمرانوں کی عیاشیوں اور پروٹوکول پر خرچ کردیا جاتا ہے ترقیاتی منصوبے پاکستان کی من مرضی سے شروع ہوتے ہیں اور اسی کی نگرانی میں اپنے انجام کو پہنچ جاتے ہیں گزشتہ دس برسوں میں آزادکشمیر میں بجلی کے منصوبہ جات غیر ملکی اداروں کے تعاون سے شروع ہوئے جن میں بے پنا مالیاتی خردبرد کیا گیا جس میں مقامی حکومتیں بھی شامل ہیں ۔

2005کے زلزلہ متاثرین آج تک دربدر کی ٹھوکریں کھارہے ہیں ایک ساز ش کے تحت اس خطہ کو پسماندہ رکھ کر حکمران اپنی عیاشیوں میں لگے ہیں بجلی کے منصوبہ جات کا آزادکشمیر کو کوئی خاطر خواہ فائدہ نہیں آزادکشمیر میں بجلی کی لوڈشیڈنگ انتہائی تکلیف دہ امر ہے۔حفظان صحت سے متعلق کوئی نظام عملی طور پر کام نہیں کررہا ،ہسپتالوں کی حالت انتہائی ناگفتہ بے ہے جسکا کوئی پُرسان حال نہیں عیاش ریاستی حکومت اور اسکے سرکاری اداروں سے وابسطہ بیوروکریٹ اپنے علاج معالجہ کے لیے زکوٰة سے خاطر خواہ پیسہ حاصل کرکے علاج بیرون ملک یاپاکستان سے کروا لیتے ہیں ایک اسلامی ریاست میں حرام اشیاء سرے عام فروخت کی جارہی ہیں جنکی تحقیق کا کوئی طریقہ رائج نہیں گویا اس ریاست میں ایک کلو گوشت حاصل کرنے کے لیے بھی قصاب سے اچھے تعلقات یا سفارش انتہائی ضروری ہے آزادکشمیر کو پے جارو لینڈ بھی کہا جاتا ہے کیونکہ سرکاری اداروں کے سربراہان کی سفری اور سرکاری ضروریات کے لیے کروڑدوکروڑ سے کم مالیت کی گاڑی پر سفر کرنا شاید ریاستی پروٹوکول کے خلاف خیال کیا جاتا ہے ہندو اور انگریز کی وارث اس ریاست کے سربرہان انڈیااور انگریز ممالک کا دورہ بھی اکثر وبیشتر کرتے ہیں مگر انہوں نے شاید آج تک یہ نوٹ نہیں کر سکا کہ مذکورہ ممالک میں حکمرانوں اور سرکاری افسران کے لیے پروٹوکول نام کی کوئی چیز نہیں ہوتی واہ رے ہندو ،واہ رے انگریز تو آج بھی پاکستان اور آزادکشمیر میں عملی طور پر حکمران ہے اور یہاں اسلام کو بھی داد دینی پڑے گی کہ توُاسلام آباد اور آزادکشمیر میں آج تک آباد نہیں ہوسکا آزادکشمیر کو ایک منفرد مقام اوورسیز کشمیریوں کی صورت میں بھی حاصل ہے اس خطہ کی 1.8ملین آبادی برطانیہ میں مقیم ہے جبکہ دنیا کے دیگر ممالک میں کشمیریوں کی کیثر تعداد آباد ہے مگر آزادکشمیر میں اوورسیز کشمیریوں کے ساتھ حکومتی سطح پر کوئی تعاون نہیں کیا جاتا تاکہ وہ یہاں سرمایہ کاری کر سکیں ،ریاست اوورسیز کشمیریوں کی آزادکشمیر میں موجود املاک کے تحفظ کا کوئی مربوط نظام نہیں رکھتی جسکی وجہ سے اوورسیز کشمیری حکومت آزادکشمیر سے انتہائی دلبرداشتہ ہیں یہ ہے آزادکشمیر میں گڈگورننس کا حکومتی دعویٰ ایسے میں کیا یہ تحریک آزادی کشمیر کا بیس کیمپ کہلانے کا حقدار ہوسکتا ہے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :