کالم نگار

پیر 11 اکتوبر 2021

Kishwar Habib

کشور حبیب

انسان نے ہر دور میں کسی نہ کسی طرح اپنے لئے مصروفیات ڈھونڈی ہیں اور جیسے جیسے ترقی یافتہ ہوتا گیا اپنے اختتام کو پہنچتا گیا لیکن اس کے زندگی کو باقی آنے والے لوگوں نے بجائے ایک سبق لینے کے اپنا آئیڈیل بنایا اسی طرز پہ جیا اور آخر کار نیست ہو کر رہا.....

(جاری ہے)


*ہم سے پہلے جو دور گزرا اس میں زندگی کی کلکاریاں تھیں اپنے بزرگوں سے جن بھوتوں کی کہانیاں سن کے نیند کی آغوش میں جب جاتے تو ہم بھی کسی راجہ رانی کی طرح خود کو شاہی لباس میں دیکھتے یا پھر کسی آسیب کو ساری رات اپنے پیچھے لگا دیکھ صبح کی پہلی کرن کے ساتھ اٹھ کھڑے ہوتے اور نئی امید، رات کا انتظار ایک اور کہانی کے ساتھ ایک اور خواب اور پھر ایک نئی تاریخ کا انتظار بس اسی پہ ہماری زندگی کے ماہ و سال گزرے اور آج جس دور میں ہم جی رہے ہیں نہ زندگی نظر آتی ہے، نہ.

کوئی بزرگ نہ ہی جینے کا کوئ مقصد، بس جیسے ہی آنکھ کھلی موبائل-فون ہاتھ میں اور اب اس وقت تک نہیں رکھنا جب تک اسکی چارجنگ ختم نہیں ہو جاتی اور یہ خود بخود بند نہیں ہوجاتا......
ہم جس دور میں زندگی بسر کر رہے ہیں اس میں سوشل میڈیا کو بہت اہمیت حاصل ہے انسان زیادہ وقت سوشل میڈیا پر گزارنے کو ترجیح دیتا ہے
یہ اس دور میں رابطے کا بڑا اور بہترین ذریعہ ہے لیکن آج کل کے نوجوان اس کا غلط استعمال کرتے ہیں اس کے ذریعے نوجوان لڑکے اور لڑکیوں میں منفی سوچیں جو انکے لئے غلط رجحانات بن جائیں جنم لے رہے ہیں کیونکہ نوجوانی کی عمر میں جذباتی پہلو زیادہ غالب رہتا ہے ضرورت اس چیز کی ہے کہ نوجوان نسل کے لئے اخلاقی اور روحانی تربیت کا سامان مہیا کیا جائے چھوٹی عمر میں بچوں کو موبائل نہ دیا جائے سوشل میڈیا اک ایسا طاقت ور شیطان ہے کہ دنیا کے کسی کونے میں بیٹھے شخص سے آپ کی ملاقات کروا سکتا ہے ہمارے اور آپ کے ہاتھ کے نیچے معلومات کا سمندر ہے اکثر ہم پرشان ہو جاتے ہیں کہاں کلک کریں اور واپس اپنی دنیا میں آتے ہیں تو اندازہ ہوتا ہے ہم تو کئی گھنٹے بتا چکے ہیں آج کے دور میں سوشل میڈیا اک ایسی لت ہے جس میں بچوں سے لے کر بوڑھے تک گرفتار ہیں اکثر سوشل میڈیا پر دیکھی جانے والی چیزیں ہماری بےچینی، حسد اور زہنی بے کراری کا سبب بن سکتا ہے جس طرح ماحول کا اثر انسان پر ہوتا ہے اسی طرح میڈیا کا اثر دماغ پر ہوتا ہے سوشل میڈیا اور سمارٹ فونز کی وجہ سے نوجوان تنہائی پسند ہوتے جا رہے ہیں سوشل میڈیا کو مشغلہ بنانے کے بجائے عادت بناتے جا رہے ہیں جو کہ خطرناک ثابت ہو سکتا ہے اک تحقیق کے مطابق سوشل میڈیا کا مسلسل استعمال کرنے سے دماغ پر منفی اثرات مرتب ہو سکتے ہیں موبائل اور سوشل میڈیا ہمارے لیے اتنا ضروری ہو گیا ہے کہ ہم روٹی کے بنا تو رہ سکتے ہیں مگر موبائل اور نیٹ پیکج کے بنا نہیں رہ سکتے میری بات کا قطعاً یہ مطلب نہیں کہ سوشل میڈیا کا اور موبائل کا کوئی فائدہ نہیں مگر کہنے کا مطلب یہ ہے کہ ہم اس سے کچھ اچھا بھی سیکھ سکتے ہیں* *چاہے وہ ہنر ہو علم ہو معلومات ہو  ہم نوجوانوں کو یہ علم نہیں کہ ہم کیا کچھ سیکھ سکتے ہیں مگر ہم کچھ نہیں سیکھ رہے اور منفی طرف جا رہے ہیں ہم اپنی زندگی کے خوبصورت اور قیمتی لمحات اپنوں کے ساتھ گزارنے کے بجائے سوشل میڈیا پر ضائع کر رہے ہیں سوشل میڈیا جہاں اک سہولت فراہم کرنے کا زریعہ ہے وہ اس کے برعکس اس سے زیادہ برائیاں جنم لے رہی ہیں جہاں یہ خلوت کے گناہوں کی سب سے بڑی وجہ ہے وہیں آنکھوں کو بے حیائی دیکھنے پر مجبور کرنے کا زریعہ بھی یہ ہی ہے اگر یہ کہا جائے کہ سوشل میڈیا اک ایسا وائرس جو پوری دنیا کو اپنی لپیٹ میں لے چکا ہے جس کا کوئی علاج نہیں جو اس وائرس کی لپیٹ میں آ گیا ہے وہ نکل نہیں سکتا یہ وائرس ہر مرد اور عورت بچے، بوڑھے، نوجوان، امیر، غریب، مزدور، اعلیٰ تعلیم یافتہ، سے لے کر کم پڑھے لکھے غرض ہر طرح کے مریض شامل ہیں.
سوشل میڈیا کے اثرات سے متاثر ہوئے بغیر کوئی بھی نہیں رہ سکتا اس نے نوجوانوں کو اس قدر زنجیروں میں جکڑ لیا ہے جس کی گرفت سے نکلنا ناممکن ہے یہ بات تو ہر کوئی جانتا ہے کہ کوئی بھی غذا ہماری صحت کے لیے کتنی بھی مفید ہو اگر ضرورت سے زیادہ استعمال کی جائے تو اس کے سائڈ ایفیکٹ تو لازمی طور پر ہوتے ہیں کچھ یہ ہی حال اس کا بھی ہے اس رنگا رنگ دنیا میں جہاں اس کے مثبت پہلو نے معاشرے کی تعمیر و تشکیل میں زبردست کردار ادا کیا ہے وہاں اس کے منفی پہلو نے شرفاء زمانے کی اخلاقی اقدار پر سوالیہ نشان لگانے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی بھٹکنے کے عمل سے بچیں بہت زیادہ سوشل میڈیا کا استعمال بلکل غلط ہے زندگی اہم بنائیں اس سے قبل کہ سوشل میڈیا اہم بن جائے.........؟

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :