آخر کب تک

جمعرات 6 مئی 2021

Kishwar Habib

کشور حبیب

بنی نوع انسان کی تخلیق کے ساتھ ہی کچھ ایسی ضروریاتِ زندگی بھی اس کے ساتھ پروان چڑھتے ہیں جنکے بغیر جینا مشکل و ناممکن ہوتا ہے.
جیسے ہم نے پڑھا زندہ رہنے کے لئے ہوا، پانی، اور آکسیجن کی ضرورت ہوتی ہے اسی طرح انسانی تقاضوں میں بھوک لگنا، پیاس محسوس ہونا، سونا، جاگنا، اٹھنا، بیٹھنا.
غرض انسان جیسے جیسے زندگی میں اگے بڑھتا ہے اسکی ضرورتیں بھی بڑھتی جاتی ہیں.
اور انھیں میں ایک ضرورت ہے جسکا نام *بھوک*  ہے
 ذہن میں آتے ہی سمجھ آتی ہے کہ بھوک کا کیا مطلب ہے یہ تو ہم جانتے ہیں کہ یہ صرف کھانا کھانے سے جاتی ہے
 کبھی سوچا ہے کہ بھوک کی کتنی اقسام ہیں یہ صرف کھانے کے لئے ہی نہیں کبھی کبھی رشتوں کی بھی ہوتی ہے جو کہ وقت کے ساتھ ساتھ کم نہیں ہوتی بڑھتی جاتی ہے
 اور یہی وہ بھوک ہے جو سب سے زیادہ تکلیف دیتی ہے ہر رشتے میں اکثر بن ماں کے بچوں کو دیکھتے ہیں وہ کسی اور کی ماں کو اپنے بچوں سے پیار کرتی ہے تو بن ماں کے  بچے کیسی نظر سے دیکھتے ہیں وہ ماں کو ترستی نظروں سے دیکھتے ہیں ماں کی کمی کی بھوک ہوتی ہے
 اکثر بڑے بڑوں کو دیکھ لیں وہ باتوں کے بھوکے ہوتے ہیں وہ چاہتے ہیں کہ کوئی ہو جو ان کی باتیں سنیں کچھ دیر ان کے پاس بیٹھے ان کو وقت دے  آج کل کے نوجوان آج کل کی اولاد اپنے ماں باپ کو نہ اپنے بزرگوں کو گھر میں وقت دیتی ہے  کیونکہ موبائل نے ان سب لوگوں کو  مصروف کر دیے نہ بچے والدین کو وقت دے رہے نہ والدین بچوں کو وقت دے رہے ہیں تو یہ سب بھوکے یہ کس چیز کے بھوکے ہیں کبھی سوچا کسی نے۔

(جاری ہے)

  کچھ ایسے بچے بھی ہیں جو اپنے والدین کے لئے ترس جاتے ہیں ان کے والدین باہر کے بچوں کو اپنا بچہ سمجھتے اور اپنے بچوں کو باہر کا بچہ سمجھتے ہیں وہ بچے بھوکے رہ جاتے ہیں اور یہ بھوک ان کو خراب کر دیتی ہے  جیسے میں پیٹ بھر کھانا مل جاتا ہے تب بھی بدہضمی ہو جاتی ہے پھر کھانا نہیں ملتا تو ہم کس چیز کا شکار ہو جاتے ہیں آپ ہی مجھے بتانے کی ضرورت نہیں ہے  پھر یہی وہ بچے ہوتے ہیں جن کو والدین کی توجہ نہیں ملتی یہ بچے پھر اپنے والدین کی کمی پوری کرنے کے لیے ایسے لوگوں میں بیٹھے ہیں وہ نہیں جانتے ہیں لوگ اچھے ہیں برے بچوں کو کوئی فرق نہیں پڑتا کیونکہ وقت کی بھوک کے لئے تو پھر وہ ایسی کمپنی میں بیٹھ جاتے ہیں جو کہ ان کے لئے اچھی نہیں ہوتی  ظاہر ہے جب ان کو اچھا وقت نہیں ملے گا ماں باپ کا وقت نہیں ملے گا تو وہ باہر جائیں گے اس میں بچوں کی غلطی نہیں مانی جاتی ہے والدین ان کو اپنے ٹائم دے ان کے پاس بیٹھے ان کی ہر مسئلے مسائل کو سنے حل کرے تاکہ وہ بچے بدنظمی کا شکار نہ ہوجائے احساس کمتری کا شکار نہ ہوجائے یا تو پھر وہ نشہ کرنے لگ جاتے ہیں یا  جا کسی اور غلط ایکٹیویٹی میں پڑ جاتے ہیں  اور یہاں سے وہ بھوک شروع ہوتی ہے جو میرے خیال میں جب ختم ہوتی ہے تو اس کا کوئی اختتام لیا تھا اس کا انجام انتہائی برا اور اذیت ناک اور دردناک ہوتا ہے۔


  اور یہی وہ بھوک ہے جو آج ہمارے معاشرے میں جنم لے چکی ہے جو کہ دن بدن بڑھ رہی ہے لوگوں کی ہوس بڑھ رہی ہے لوگوں کی بھوک بڑھ رہی ہے
 آئے دن ننھی کلیوں کو مسل کے مرد اپنی بھوک مٹا رہے ہیں ایسے ہوس کے بھوکے مرد یہ بھی نہیں دیکھتے ہم جس سے اپنی بھوک مٹا رہے ہیں وہ بچی ہے یا بچہ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔؟
اور اپنا رتبہ اور عہدہ تک یہ مرد بھول جاتا ہے اپنی نسلوں تک کو بدنام کر جاتا ہے اور احساس تک نہیں کرتا
 ان ہوس کے پجاریوں کی مثال اس  بھیڑیے کی مانند ہوتی ہے جو بھوک سے اتنا پاگل ہو جاتا ہے کہ یہ بھی نہیں دیکھتا کہ وہ مردار ہے یہ زندہ گوشت  اسے بھوک لگی ہے اس نے کچھ نہ کچھ کھانا ہے  وہ اتنا پاگل ہو جاتا ہے
  ایسے ہی کچھ درندے جو ہمارے معاشرے میں ہیں یہ بھی نہیں دیکھتے کہ چھوٹی سی بچی کی زندگی کو خراب کر کے ان کی پل بھر کی بھوک تو مٹ جاتی ہے لیکن اس بچی کی ساری زندگی خراب ہو جاتی ہے تباہ ہوجاتی ہے  دل خون کے آنسو رو دیتا ہے جب کسی بھی نیوز میں سنتے ہیں بارہ سال کی بچی 13 سال کی بچی 11 سال کی بچی اور  اور پھر یاد آجاتا ہے کہ اس زمانے سے پہلے بھی دور گزرا تھا جس دور میں بچے گلیوں میں کھیلتے تھے، اچھلتے کودتے گلیوں میں گھومتے ہوئے دن گزارتے تھے  اور اب یہ دور ہے کہ والدین اپنے بچوں کو گلیوں میں نہیں چھوڑتے  ان کی زندگیوں سے ہنسی مٹ کر رہ گئی، ٹی وی کی حد تک موبائل کی حد تک، نوجوان نسل خراب ہو رہی ہیں وہ  وہ بھی بھوک کا شکار ہو رہے ہیں توجہ کی بھوک، کھیل کی بھوک، مسکراہٹ کی بھوک،
 آج کل آئے دن ایسے کیس سامنے آ رہے ہیں کہ فلاں بچی کا ریپ ہوگیا بچی کی عزت لوٹ لی گئی کیوں ہوس کے پجاری یہ بھی نہیں دیکھتے کہ ہم جس سے اپنی بھوک مٹا رہے ہیں وہ اس کی بچی کی عمر کی ہے  اور وہ اسی اپنی بچی جیسی بچی کی زندگی تباہ و برباد کر دیتے ہیں  ایک زمانہ تھا کہ چھوٹی چھوٹی بچیاں اپنی گڑیا لے کر گلی میں کھیلنے جاتی تھی لیکن اب سب خواب لگتا ہے  پہلے پارک میں شام کو بچے بچیوں کی وجہ سے رونق تھی اب پارک ویران ہیں  کیونکہ اب بھوکے درندے کھلے عام گھوم رہے ہیں پھول جیسی بچیوں کی زندگیاں تباہ کرنے کے لئے  ان  ان لوگوں کو پوچھنے والا کوئی نہیں ہے کتنے کیس ہوئے جس میں چھوٹی چھوٹی بچیوں کے ریپ ہمارے سامنے آئے عوام بولتی ہے بس احتجاج کیا ہائے ہائے واۓ واۓ بس گھروں میں بیٹھ  گے قانون نے کچھ کیا حکومت نے کچھ کیا ۔

۔۔۔۔۔۔
آخر کب تک
 جب قتل کی سزا پھانسی ہے
 تو کسی کی زندگی لوٹ لینا تو انسانیت کا قتل ہے پھر اس کی سزا پھانسی کیوں نہیں
 کیوں ایک ریپ کیس کا مجرم کھلے عام پھرتا رہتا ہے کیوں اس کو کوئی سزا نہیں ہوتی کیوں کوئی اس طرف دھیان نہیں دیتا حکومت کیوں چپ رہتی ہے
 ہم لوگوں سے کھلے عام پھرنے دیتے ہیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔کیوں؟ کیوں؟ کیوں؟

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :