معصوم دعا

ہفتہ 22 مئی 2021

Kishwar Habib

کشور حبیب

 حکومت کی جب بھی کوئی بات کرتا ہے تو ذہن میں فورا ملک کے حالات گھوم کے آ جاتے ہیں اور میں آج کل کے حالات کے بارے میں جب بھی کچھ لکھنے کی کوشش کرتی ہوں تو یقین کریں دل خون کے آنسو روتا ہے نوجوان نسل تو نئی حکومت کو لے کر بہت پرجوش تھی ان کی سوچ تھی کہ تبدیلی آئے گی تو سب کچھ اچھا ہوگا غریبوں کو نئے خواب دیکھا کر حکمران بدل دیا گیا لیکن اس مہنگائی نے سب کو ہلا کر رکھ دیا ہر ہر چیز کی قیمت دگنی سے چار گنا زیادہ ہوگی غریب مک گئے غربت مکاؤ پروگرام شروع ہوگیا کیونکہ خود سوزی کی کوشش ہر آئے دن کوئی نہ کوئی غریب کر رہا ہوتا ہے ایک عام آدمی یہاں سانس لینے کو ترس رہا ہے آٹا اتنا مہنگا ہو گیا ہے کہ انسان مرنا تو پسند کرے گا لیکن آٹا خریدنے نہیں جائے گا ایک مزدور کیسے اپنے بچوں کو کھلائیں کیسے پڑھائے مہنگائی ہو رہی ہے غریب کو ہی فرق پڑ رہا ہے تعلیم کا اثر بھی غریب پر ہو رہا ہے ایک مزدور دن کا 1000 روپیہ کما رہا ہے اب وہ آٹا لے کہ ٹماٹر کیونکہ مہنگائی اس قدر بڑھ رہی ہے کہ آٹا لے یا کوئی اور چیز کھائے کیا کھائیں کیوں کہ ایک چیز خریدے گا تو دوسری کسی چیز کے لیے پیسے نہیں مزدور بندہ کدھر جائے وہ کس سے شکایت کریں کیونکہ عام بندے کی کوئی نہیں سنتا غریب سب سے زیادہ خوش تھا کہ ایک نیا بندہ آئے گا کچھ کرے گا نہیں حکومت ہمارے لئے اچھی ہوگی مگر اب یہ سب دیکھ کر آئے دن نیوز میں دیکھتے ہیں خودکشی کے قتل کے کیس کبھی کسی نیوز میں یہ نہیں سنا کہ ایک صاحب حیثیت نے خودکشی کی کسی سیاستدان نے خود کو گولی مار لی کسی نیوز میں ایسا نہیں ہوتا ہمیشہ ایک غریب بندہ ہی مرتا ہے کیوں ایسا کیوں۔

(جاری ہے)

۔۔۔۔؟
 کیوں کہ مہنگائی سے تنگ آکر ایک غریب بندہ خودکشی کرتا ہے اپنے بچوں کو گلا گھونٹ کر مار دیتا ہے کسی ویرانے میں جاکر رسی سے لٹک جاتا ہے کیونکہ وہ غریب ہے
 اور اپنے بچوں کی خواہشات پوری نہیں کر پا رہا تو اسے مرنا آسان لگتا ہے موت کو گلے لگا لیتے ہیں وہ کیا کریں زندگی خدا کی نعمت ہے لیکن اب یہ زندگی ایک عذاب بنی ہوئی ہے جینے سے زیادہ موت سا لگ رہی ہے اب زندگی رحمت نہیں زحمت لگ رہی ہے کیوں کہ جس میں بھوک ہو کھانے کے لالے ہیں تعلیم مہنگی ہو وہاں زندگی کیسی ہوگی کچھ تو ایسا ہے جو کہ اس حکومت میں ہو رہا ہے یہی حالات رہے تو جلد ہی غربت ختم ہو جائے گی کیونکہ غریب ہی ختم ہو جائے گا اب تو بیمار ہونے سے بھی ڈر لگ رہا ہے دوائیاں اتنی مہنگی ہوگئی ہیں کہ وہاں تک رسائی مشکل ہے بیمار ہونے سے مرنا آسان ہے۔

بیماری مشکل تعلیم مشکل کا نام مشکل جینا مشکل کر اٹھنا مشکل چلنا مشکل آسان کیا ہےصرف خود سوزی۔
غریب بندا سانس لینے کا بھی محتاج ہے کہ کہیں اس پر بھی حکومت ٹیکس نہ لگا دے غریب بھوک سے مر رہا ہے اور حکمران اپنی حکومت چمکانے میں لگے ہوئے ہیں کیونکہ حکومت کسی کی بھی ہو ہمیشہ برا وقت اسی کا آتا ہے جس کا جیب خالی ہوتا ہے نئی حکومت کے نئے خواب دکھا کر سب سے زیادہ جس مخلوق کو خوش کیا گیا وہ غریب طبقہ تھا اور اب یہی مخلوق مہنگائی کی شکایت لے کر در در کی ٹھوکریں کھانے پر مجبور ہے لیکن اس کی سنتا کون ہے؟
 ہم نے سوچا تھا نئی حکومت میں نیا حکمران آئے گا تو سب کچھ نئے طریقے سے سامنے آئے گا لیکن اس نے نئے کے چکر میں پرانی انسانیت بھی کہیں چھپ گئی ہے اب جینا زحمت لگ رہا ہے کیوں کہ ایسی زندگی جس میں بھوک ہو پریشانی ہو وہاں زندگی کیسی ہوگی
 پھر آدمی یہی سوچتا ہے کہ اس جینے سے اچھا ہے مر جائے ہر بندہ تبدیلی چاہتا ہے لیکن خود تبدیل نہیں ہونا چاہتا میں تو کہتی ہوں انسان کو اپنے اندر تبدیلی لانے کی دیر ہے سب کچھ خود ہی بدل جائے گا حکومت تو چلتی ہی رہتی ہے ہر دور میں ہر حکمران کے ساتھ لیکن عوام کے بارے میں آج تک کسی نے نہیں سوچا ایک وہ کوفہ کی گلیوں میں بھیس بدل کر حاکم وقت حضرت عمر فاروق لوگوں کی تکالیف کا پتہ لگانے کے لئے آواز دیتے تھے کہ ہے کوئی جس کو اللہ کی مدد چاہیے
 اور آج کے حکمران کو اپنی بلکتی ٹھٹھرتی عوام نظر نہیں آتی یا اللہ ہمارے ملک پر رحم فرما اور حاکم وقت کی طرح آج کے حکمران کو بھی عوام کی مشکلات کا پتہ کرنے کا طریقہ عنایت فرما تاکہ غریب عوام خود سوزی کے بجائے خود جینے کے طریقے ڈھونڈے امید پر دنیا قائم ہے چلو ہم بھی لگا کے دیکھتے ہیں۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :