ہم اپنی بولی کیوں نہ لگائیں!!!

پیر 6 جولائی 2020

Malik Umair Wahid

ملک عمیر واحد

جیسا کہ آپ سب جانتے ہیں ہم سب اس وقت جس حالت جنگ میں ہیں۔ کرونا وائرس اس قدر مضبوط اور طاقتور ہے کہ پوری دنیا اس کے آگے کمزور اور بے بس دکھائی دیتی ہے لیکن سب نے ہمت نہیں ہاری اور اس ڈٹ کر مقابلہ کررہی ہے۔
جہاں ایک طرف ہمارے حکمران اور قوم اس جنگ سے لڑنے کیلئے ہر ممکن کوشش کر رہے ہیں وہی کچھ مافیا ابھی بھی اس مشکل وقت میں اپنی جیبیں گرم کرنے میں مصروف ہیں۔

یہ تو ایک بہت بڑا المیہ ہے ہمارے ملک کا کہ جب بھی کسی چیز کی ضرورت اور اہمیت بڑھ جاتی ہے تو اس کا فقدان ہو جاتا ہے تو پھر وہی نایاب ہو جاتی ہے۔
کرونا وائرس پھیلنے کے ابتدائی دنوں میں اس کی کوئی دوا کوئی ویکسینیشن کچھ بھی تشخیص نہیں ہوا تھا اور صرف اور صرف ماسک، گلوز اور سینیٹائیزر کے استعمال پر زور دیا جاتا رہا، یہ وہی چیزیں ہیں جو کوویڈ-19 سے پہلے بہت عام اور سستے داموں پر فروخت ہوا کرتی تھیں۔

(جاری ہے)

لیکن جیسے ہی اس کا استعمال بڑھا اس کی قیمتیں آسمانوں سے باتیں کرنے لگ گئیں اور یہ مارکیٹ میں نایاب ہوگئے۔ پہلے ایک ماسک جو شاید 10 روپے یا اس بھی کم قیمت پر فروخت ہوتا تھا اس ایک ماسک کی قیمت 500 سے 1000 تک کردی گئی۔ گزرتے وقت کے ساتھ دیگر تحقیقات اور تجربات کے بعد جب ڈاکٹروں نے کچھ ادویات تجویز کیں تو وہ تمام ادویات بھی مارکیٹ سے راتوں رات غائب ہوگئیں۔


جیسا کہ
Actemra injection, Remdebvisir injection, Dexamethasone or Azomex جیسی دیگر ادویات Oximeter اورCylinder Kits مارکیٹ میں نایاب ہو گئیں۔
ہم اپنے حکمران سے شکایات کرتے ہیں کہ انہوں نے مہنگائی کے پہاڑ توڑ دیے، کرونا وائرس سے نمٹنے کیلئے کوئی درست حکومت عملی اختیار نہیں کی، ضروریاتِ زندگی کی اشیاء مہنگی کردیں، لاک ڈاوٴن لگا کر معاشی نقصان کر دیا۔ لیکن ان سب میں ہم نے کیا کیا؟ ہم نے اپنے فرائض کہاں ادا کیے؟ ہم نے بحیثیت قوم اپنا کیا کردار ادا کیا؟ کیا حکمران نے ان سے کہا تھا کہ ذخیرہ اندوزی کریں؟ کیا حکمران نے انہیں کوئی سرکاری حکم نامہ جاری کیا تھا کہ ان کی قیمتوں میں اضافہ کریں؟ کیا حکمران نے کہا تھا کہ مرگِ بستر پر پڑے اپنے ہی مسلمان بہن، بھائی، بیٹوں، بیٹیوں اور بزرگ حضرات کی زندگیوں کا سودا کریں؟
 اب آپ خود بتائیں کہ کون لوگ ہیں؟ کیا یہ مسلمان کہلانے کے بھی لائق ہیں؟ باتیں کرنا دوسروں ہر انگلیاں اٹھانا تو بہت آسان ہے لیکن اپنے گریبان میں جھانک کر اپنا احتساب کوئی نہیں کرتا۔

ان تمام ادویات کے بعد ڈاکٹروں کے کامیاب تجربے سے جب ایک کووڈ سے صحت یاب شخص کے پلازما سے کووڈ کے مریض کا علاج کیا گیا تو وہاں بھی لوگوں نے موقع کا فائدہ اٹھاتے ہوئے ہوئے اپنی اپنی بولیاں لگانا شروع کر دیں۔ بہت سے لوگوں نے اس پر بھی بہت تنقید کی لیکن ذاتی طور پر میرا یہ ماننا ہے کہ جس غریب نے اپنا آپ سب کچھ بیچ کر اپنا علاج کروایا تو اب پھر اس کا بھی حق بنتا ہے کہ وہ ان مافیا جیسے لوگوں سے اس کی وصولی کرے۔ جو لوگ صاحب استطاعت ہیں ان سے اس کی قیمت ضرور وصول کرے۔ لیکن اپنے جیسے غریب کی مدد بھی ضرور کرے اس سے اس تکلیف اور مشکل سے نا گزارے۔ اپنا حق ضرور لو لیکن اپنے حق کے چکر میں کسی غریب کا حق مت مارو۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :