انسانی اقدار اور ہماری ذمہ داریاں

جمعہ 13 نومبر 2020

Malik Umair Wahid

ملک عمیر واحد

موٹروے زیادتی کیس کا مرکزی ملزم تو گرفتار ہوگیا، کیا باقی سب مجرم بھی قانون کی گرفت میں ہونگے؟ کیا سب کو ان کے کیے کی سزا مل جائے گی؟ کیا اس متاثرہ خاتون کا وقار اور عزت اسے واپس مل جائے گی؟ کیا یہ معاشرہ اسے قبول کرلے گا؟ کیا اب اس ملک میں عورت کی عزت کو تحفظ ملے گا؟ کیا اب ہماری ماں، بہن، بیٹیاں اور بچے اس ملک میں بلا خوف و خطر کھل کر سانس لے سکیں گے؟
تینتیس روز بعد سانحہ موٹر وے کا مرکزی ملزم گرفتارکر لیا گیا لیکن اب تک سانحہ موٹر وے کے بعد بھی اس سے ملتے جلتے جرائم میں روز بہ روز اضافہ جاری ہے۔

آخر پاکستان میں ایسے جرائم کی مستقل روک تھام کے لیے کیا کیا جا رہا ہے؟
پاکستان میں ایسے جرائم کی روک تھام کے لیے قانون تو موجود ہیں، لیکن عمل درآمد کی صورت حال بہت خراب ہے۔

(جاری ہے)

اعداد و شمار کا جائزہ لیں، تو پتا چلتا ہے کہ پاکستان میں ایسے مقدمات میں ملزموں کو سزا ملنے کی شرح بہت ہی کم ہے۔ پولیس کے نظام میں اصلاحات نہ ہونے کی وجہ سے تفتیشی نظام بہت ہی ناقص ہے جبکہ دوسری طرف ملک میں نظام انصاف بھی برباد ہو کر رہ گیا ہے۔


اس واقعہ کے مرکزی ملزم تک پہنچنے کیلئے پولیس کی پھرتیوں کی اصل وجہ میڈیا میں اٹھنے والا شور تھا۔ آئے روز ہونے والے زیادتی کے ایسے تمام جرائم جن کو میڈیا میں جگہ نہیں ملتی، ان تمام واقعات میں غریب عوام کا کوئی پرسان حال ہے ہی نہیں۔
ہماری بد قسمتی ہے کہ ہمارے ہاں انسانی حقوق کے ادارے، سول سوسائٹی کے بعض حصے اور میڈیا سب کمرشل سے ہو گئے ہیں۔

وہ واقعات کو اپنے مفادات کی نظر سے دیکھتے ہیں۔ پاکستانی معاشرے میں پائی جانے والی گھٹن اور بے چینی بھی ایسے جرائم کو فروغ دینے کا باعث بنتی ہیں، ایسا پاکستانی معاشرہ جو پابندیوں میں جکڑا ہوا ہو، جہاں جبر کے ماحول میں انسانی حقوق کی پاسداری مشکل ہو، جہاں نہ تفریح کے مواقع ہوں اور نہ ہی آرٹس اور کلچر کو سرپرستی مل رہی ہو، جس معاشرے میں مقامی حکومتوں کا نظام اہل اقتدار کو خوش دلی سے قبول نہ ہو، وہاں ایسے جرائم پر ہمیں حیران نہیں ہونا چاہیے۔


ہمارے ہاں ذہنی کشیدگیوں کو نظر انداز کیا جاتا ہے،اس سے بڑھنے والے واقعات بھی اسے طرح نظرانداز کیے جاتے ہیں۔ اگر ہم ان واقعات کی وجوہات کی اصل جڑ کو جان لیں تو ہی شاید ایسے واقعات میں کمی ہو سکتی ہے۔ کیونکہ جس طرح ان جرائم کی شرح میں اضافہ ہو رہا ہے اس پر قابو پانا مشکل ہی نہیں ناممکن سا دکھائی دیتا ہے۔
ہمیں ان جرائم کی اصل وجوہات کو جڑ سے ختم کرنا ہوگا،لوگوں کی ذہنی کشیدگیوں کو ختم کرنے کی ضرورت ہے، ان کی ذہنی حالت کو سمجھنے کی ضرورت ہے کہ آیا یہ واقعات کیوں رونما ہو رہے ہیں۔

کیونکہ بدقسمتی سے ان تمام جرائم کے پیشے صرف کوئی پیشہ ور مجرم ہی شامل نہیں ہوتا جبکہ آپ کے اپنے گھروالے باپ بھائی، چچا اور ایسی بہت سے قریبی رشتے اس جرم میں ملوث ہوتے ہیں۔
اس کا کیا مطلب ہے کہ جرم کرنے والا چاہے وہ کوئی بھی ہو جس ذہنی بیماری کا شکار ہے، اس حوس میں وہ تمام رشتے، چھوٹے بڑے کی تمیز، ذات برادی یہاں تک کے مذہبی عقائد کو بھی بھول جاتا ہے پھر وہ انسان نہیں درندہ بن جاتا ہے۔

جہاں اسے دنیا تو کیا اس کے خالق کا بھی خوف نہیں رہتا۔
حکومت اس امر میں اپنا قلیدی کردار ادا کررہی ہے، جیسا کہ وفاقی وزیر برائے انسانی حقوق شیریں مزاری کے مطابق وزارت انسانی حقوق اور پی ایم ڈی یو کے اشتراک سے زینب الرٹ ایپ لانچ کر دی گئی ہے جس کی مدد سے بچوں کے ساتھ پیش آنے والے واقعات کو فوری رپورٹ کیا جا سکے گا اور گمشدہ بچوں کی بازیابی میں بھی مدد ملے گی۔


پاکستان کے صوبہ پنجاب کے ضلع قصور میں 2018 میں زینب نامی بچی کی ساتھ پیش آنے والے واقعے کے بعد حکومت کی جانب سے 2019 میں ’زینب الرٹ بل‘ کے نام سے ایک بل پیش کیا گیا اور اس کے مسودے میں کہا گیا تھا کہ کسی بھی بچے کے اغوا یا اس کے ساتھ جنسی زیادتی کے واقعے کا مقدمہ درج ہونے کے تین ماہ کے اندر اندر اس مقدمے کو مکمل کرنا ہوگا۔
یہی نہیں بلکہ یہ بل بچوں کی گمشدگی کے واقعات کو رپورٹ کرنے اور ان کی بازیابی کے لیے ایک نئے ادارے ’زینب الرٹ، رسپانس اینڈ ریکوری ایجنسی' کے قیام کی راہ ہموار کرے گا۔

اس بل کی ایک شق کے مطابق حکومت ایسا سسٹم متعارف کروائے گی جس کے ذریعے گم شدہ بچوں کو ڈھونڈنے میں مدد ملے گی۔ یہ تو تھی حکومت کی ذمہ داری جو اسے احسن طریقہ سے سرانجام دے رہی ہے، اب ایک شہری اور سب سے بڑھ کر اشرف المخلوقات ہونے کا جو قرض ہم پر ہے اسے پورا کرنا ہماری اولین ترجیحات کا حصہ ہونا چائیے۔
لہذا ضرورت اس امر کی ہے کہ اس کے انسان سے درندے تک کے سفر کو سمجھا جانا چاہیے اور ان تمام وجوہات کو جڑ سے ختم کیا جائے تاکہ انسان اپنے رشتوں کی عزت اور وقار پامال نا کرے اور اپنے مذہب کی تعلیمات کو بھی یاد رکھے اور اس میں اپنے رب کا خوف اور جلال رہے تاکہ وہ جرم کرنے کا کبھی سوچے بھی نا۔


ہر جرم کی سزا موت یا قید نہیں ہوتی اکثر ایسے واقعات میں انسان کو اصلاحات کی بھی ضرورت ہوتی ہے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :