عالمی یومِ خواندگی اور خواندہ پنجاب

جمعرات 9 ستمبر 2021

Mansoor Akhtar Ghouri

منصور اختر غوری

یومِ خواندگی کے خیال کی ابتداء 1965ء میں تہران میں منعقدہ وزرائے تعلیم کی عالمی کانفرنس سے ہوئی۔ 26اکتوبر 1967ء کو یونیسکو نے عالمی یومِ خواندگی منانے کا اعلان کیا۔ اب ہم پہلے تو یہ دیکھیں کہ خواندگی ہے کیا؟ دنیا کے مختلف ممالک میں اس کو مختلف معیارات پر جانچا جاتا ہے لیکن بنیادی طور پر خواندگی پڑھنے لکھنے کی صلاحیت ہے۔

آپ یہ کالم پڑھ رہے ہیں کیونکہ آپ یہ صلاحیت رکھتے ہیں جبکہ آپ کے اردگرد بہت سے ایسے لوگ ہیں جو نہ صرف کہ یہ کالم نہیں پڑھ سکتے بلکہ وہ بس کا نمبر، دوائی کی ایکسپائری کی تاریخ، ووٹ ڈالنے کے لیے بیلٹ پیپر یا ہدایت نامہ بھی نہیں پڑھ سکتے۔ خواندگی وہ سنہری ہتھیار ہے جو افرادِ معاشرہ کو بااختیار بناتا اور آزادانہ سوچ مہیا کرتا ہے۔

(جاری ہے)

خواندگی ہمیں کامیابی کے لیے اپنا راستہ بنانے میں مدد کرتی ہے بلکہ خواندگی خود ترقی کو فروغ دیتی ہے۔

اس کے علاوہ خواندگی ایک پائیدار معاشرے کے قیام میں مدد کرتی ہے اور ساتھ ساتھ ایک اچھی معیشت قائم کرنے میں بھی معاون ثابت ہوتی ہے۔ عالمی یومِ خواندگی کو عوام میں تعلیم کی اہمیت کے بارے میں شعوروآگاہی پیدا کرنے کے لیے استعمال کیا جاتا ہے تاکہ افرادِ معاشرہ خواندگی کی صلاحیت حاصل کرکے ناصرف اپنی زندگیوں کو بہتر بنائیں بلکہ مجموعی طور پر بھی معاشرے میں بہتری کا باعث بنیں۔


اس سال عالمی یومِ خواندگی کا موضوع انسانی مرکزیت کی بحالی کے لیے خواندگی اور ڈیجیٹل تقسیم کم کرنا ہے۔ کورڈ-19 کے بحران نے غیرمعمولی پیمانے پر بچوں، نوجوانوں اود بالغان کی تعلیم کو متاثر کیا ہے اور خواندگی کے پہلے سے موجود مواقعوں کو مزید کم کردیا ہے۔ اگرچہ اس عالمی بحران کے دوران کوشش کی گئی ہے کہ تعلیم وتدریس کے تسلسل کو یقینی بنانے کے لیے آن لائن تعلیم جیسے متبادل طریقے تلاش کیے جائیں تاکہ براہ راست تعلیم کے ساتھ انھیں بھی استعمال کیا جاسکے لیکن آن لائن تعلیم نے کچھ مسائل کو بھی اجاگر کیا ہے کہ دنیا میں آبادی کے ایک بہت بڑے حصے کو انٹرنیٹ اور بجلی جیسی سہولیات ابھی تک دستیاب نہیں ہیں جو کہ ڈیجیٹل تقسیم کی نشاندہی کرتی ہے لہذا اس تقسیم کو کم یا ختم کرنے کی بھی ضرورت ہے۔

اور خواندگی پائیدار ترقی میں ایک ڈرائیور کی حیثیت رکھتی ہے اور یہ تعلیم کا ایک لازمی جزو ہے جیسا کہ SDG-4 میں بیان کیا گیا ہے۔ اس لیے خواندگی کورڈ-19سے بحالی کا اہم ذریعہ ہے کیونکہ لوگوں کو اس وباء کے حوالے سے آگاہی دے کر اور خواندہ بناکر ہی ہم اس عالمی وباء سے نجات حاصل کرسکتے ہیں۔
پاکستان میں خواندگی کی صورتحال کا اندازہ ہم حال ہی میں مردم شماری 2017ء کے جاری کردہ اعدادوشمار سے بھی لگاسکتے ہیں۔

جس کے مطابق 7,96,096 مربع کلومیٹر رقبہ رکھنے والے اور دین اسلام جس کا آغاز ہی ''اقراء'' سے ہوا کہ نام پر بننے والے اس ملک کی آبادی 20کروڑ 76لاکھ سے زائد ہوگئی ہے لیکن مردم شماری رپورٹ کے مطابق اس میں شرح خواندگی ابھی 58.92 فیصد ہوئی ہے۔ جس کا مطلب ہے ساڑھے آٹھ کروڑ سے زائد پاکستانی آبادی جن کی عمر 10سال یا اس سے زائد ہے وہ ناخواندہ ہیں۔ جب کہ صوبوں کی سطح پر اگر اس شرحِ خواندگی کا جائزہ لیا جائے تو پنجاب 64% کے ساتھ سرفہرست ہے۔

جبکہ 43% کے ساتھ بلوچستان سب سے پیچھے ہے۔ اور یہ اعدادوشمار بحثیت قوم ہمیں بہت کچھ سوچنے کی دعوت دیتے ہیں کہ ہمارا ملک جس کی آبادی میں اضافے کی شرح 2.4 فیصد سالانہ ہے جبکہ شرح خواندگی میں اضافہ تقریباً ایک فیصد سالانہ کے حساب سے ہورہا ہے یعنی ہر گزرتے دن کے ساتھ ناخواندہ افراد میں اضافہ ہورہا ہے۔
صوبہ پنجاب درج بالا اعدادوشمار کے مطابق دیگر صوبوں کی نسبت شرح خواندگی میں آگے ہے لیکن پنجاب تقریباً گیارہ کروڑ آبادی کے ساتھ ملک کی سب سے زیادہ ناخواندہ آبادی بھی رکھتا ہے۔

ناخواندہ افراد کی اتنی بڑی تعداد نہ صرف صوبہ بلکہ ملک کی ترقی کے راستے میں ایک رکاوٹ کی حیثیت رکھتی ہے۔ اور اس ناخواندگی کے عفریت سے نبٹنے کے لیے 2002ء میں صوبہ پنجاب میں محکمہ خواندگی وغیررسمی تعلیم کا قیام عمل میں لایاگیا تھا لیکن اتنا عرصہ گزرنے کے باوجود اتنے اہم مسئلے سے نبردآزما ہونے کے لیے بنایا گیا یہ محکمہ ایڈہاک ازم اور پراجیکٹ کی بنیاد پر چلایا جارہا تھا۔

موجودہ حکومت میں صوبائی وزیر برائے خواندگی وغیررسمی تعلیم جناب راجہ راشد حفیظ کی زیرسریرستی اور سیکرٹری لٹریسی ڈیپارٹمنٹ محترمہ سمیراصمد کی سربراہی میں بشیراحمد گورائیہ جیسے ماہرِ تعلیم اود نان فارمل کے شعبہ میں وسیع تجربہ رکھنے والے آفیسرز کی ٹیم نے اس محکمہ کو نئے سرے سے پروان چڑھایا ہے۔ محکمہ کی پہلی باقاعدہ پالیسی کا اجراء، پراجیکٹ سے ریگولر کی طرف لے جاتے ہوئے ایک ھزار سے زائد پوسٹوں کی منظوری، یونیسیف، جائیکا، الائٹ پاکستان جیسے عالمی اداروں کے تعاون سے نئے آئیڈیاز پر کام کا آغاز، غیررسمی تعلیمی اداروں کی تعداد میں اضافہ، ہم نصابی سرگرمیوں کا آغاز، فرینڈز آف لٹریسی پروگرام کے ذریعے صاحبِ ثروت افراد کے تعاون سے غیررسمی سکولوں میں بنیادی ضرورت کے سامان کی فراہمی، جیلوں میں قید افراد، بھٹوں پر کام کرنے والے مزدوروں، خانہ بدوشوں اور دیگر مقامات پر تعلیمی سہولت کی فراہمی جیسے اقدامات کے ذریعے صوبہ میں شرحِ خواندگی میں اضافے کی بھرپور کوشش کی جارہی ہے۔

مظفرگڑھ میں تونسہ بیراج پر ماہی گیروں کے لیے کشتی میں خواندگی مرکزکا قیام جیسے منفرد اقدام نے یہ واضح کیا ہے کہ محکمہ خواندگی کے آفیسرز کی نظروں سے کچھ بھی اوجھل نہیں ہے اور محکمہ ہمہ وقت خواندگی کے فروغ کے لیے کوشاں ہے۔
لیکن شرحِ خواندگی کی موجودہ شرح سے سوفیصد شرح خواندگی تک کا سفر تنہا محکمہ خواندگی و غیررسمی تعلیم کے لیے مشکل ہے اس کے لیے ضروری ہے کہ معاشرے کاہر پڑھالکھا فرد شرحِ خواندگی کے فروغ میں اپنا حصہ ڈالے۔

ناصرف اپنے اردگرد سکولوں سے باہہر بچوں کو سکولوں میں داخل کروائے بلکہ اپنے علاقے کے سکولوں کو بنیادی سہولیات کی فراہمی اور ماحول کو بہتر بنانے میں اینا کردار ادا کرے۔ آئیے! عالمی یومِ خواندگی پر آج ہم سب عہد کریں کہ معاشرے سے ناخواندگی کے خاتمے کے لیے بھرپور طریقے سے اپنا کردار ادا کریں گے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :