
امداد کی تقسیم اور کورونا کا پھیلاؤ
پیر 13 اپریل 2020

مظہر اقبال کھوکھر
اس وقت دنیا بھر کی طرح وطن عزیز بھی کورونا وائرس کی زد میں ہے اور پاکستانی قوم اس وباء کے ساتھ بھر پور طریقے سے جنگ لڑ رہی ہے پورے ملک میں گزشتہ تین ہفتوں سے لاک ڈاون ہے کھانے پینے اور اشیاء ضروریہ کے علاوہ تمام مارکیٹیں بند اور کاروبار زندگی معطل ہے یہاں تک کہ تمام مذہبی مقامات زیارت گاہیں بند اور عبادت گاہیں چند مخصوص لوگوں تک محدود کر دی گئی ہیں گزشتہ جمعہ کو بھی حکومت کی طرف سے جاری کردہ طریقہ کار کے مطابق 5 سے 7 افراد کو جمعہ کے اجتماع میں آنے کی اجازت دی گئی جبکہ باقی لوگوں نے اپنے اپنے گھروں میں نماز ظہر ادا کی۔
(جاری ہے)
یقیناً جس طرح دنیا بھر کے مختلف ممالک میں کورونا وائرس کے پھیلاؤ کی خبریں سامنے آرہی ہیں اور جس شدت کے ساتھ اس وباء میں اضافہ ہو رہا ہے اس سنگین صورتحال کے تناظر میں نہ صرف حکومت بلکہ ہم سب کی ذمہ داری ہے کہ زیادہ سے زیادہ احتیاط کریں اس کا بہترین حل یہی ہے کہ ہم گھروں میں رہیں پوری دنیا کے طبی ماہرین اس بات پر متفق ہیں بار بار ہاتھ دھونے کے علاوہ سماجی فاصلہ برقرار رکھ کر اس وائرس کی چین کو توڑا جاسکتا ہے۔
اسی بنیاد پر حکومت بھی یہی کوشش کر رہی ہے کہ لوگوں کے درمیان سماجی فاصلے کو یقینی بنانے کے لیے لوگوں کو زیادہ سے زیادہ گھروں تک محدود رکھا جاۓ یہی وجہ ہے ڈبل سواری پر پابندی ہے اور انتہائی ضرورت کے لیے کھولی جانے والی دکانوں ، دفاتر اور سرکاری و غیر سرکاری اداروں میں اس مخصوص فاصلے کو برقرار رکھنے کے لیے ہر ممکن اقدامات کیے جا رہے ہیں۔ مگر تشویشناک پہلو یہ ہے گزشتہ جمرات سے لے کر اب تک ملک بھر میں قائم کیے گئے احساس مراکز پر امدادی رقوم کی تقسیم کے غیر محفوظ طریقہ کار کی وجہ سے ایک نیا خطرہ سر اٹھا رہا ہے ملتان اور راجن پور کے واقعات اس امر کی نشاندہی کرتے ہیں کہ لوگوں کے درمیان مخصوص فاصلہ برقرار رکھنے کا فارمولا ناکام ہوتا نظر آ رہا ہے۔
اس پہلو کو نظر انداز نہیں کیا جاسکتا کہ پاکستان کے غریب عوام کو دو طرفہ لڑائی کا سامنا ہے ایک طرف انہیں کورونا سے بچنا ہے اور دوسری طرف بھوک سے بھی لڑنا ہے کیونکہ وطن عزیز کی زیادہ تر آبادی انتہائی غربت کا شکار ہے جو غربت کے عالمی معیار سے بھی نیچے زندگی بسر کر رہی ہے جن کا گزر بسر روزانہ کی آمدنی پر منحصر ہوتا ہے یہی وجہ ہے لاک ڈاون کے بعد پورے ملک سے یہ آواز اٹھی کہ مشکل کی اس گھڑی میں غریب سفید پوش اور عام لوگوں کے لیے فوری طور پر امداد جاری کی جاۓ۔ گوکہ حکومت فوری طور پر اس کام کا آغاز کرنے میں ناکام رہی مگر دیر آئد درست آئد اب اس کام کا آغاز ہو گیا ہے اس حوالے سے ملک بھر میں ایک کروڑ بیس لاکھ خاندانوں میں 144 ارب روپے تقسیم کیے جائیں گے اور فی خاندان 12 ہزار روپے دیے جائیں گے گوکہ رجسٹریشن کے مراحل میں بہت سی ٹیکنیکل خامیاں سامنے آرہی ہیں مگر پھر بھی یہ بات باعث اطمینان ہے کچھ نہ ہونے سے کچھ ہونا بہتر ہے جس کے تحت پہلے مرحلے میں بینظیر انکم سپورٹ کے لیے رجسٹرڈ خاندانوں کو امدادی رقوم کی فراہمی شروع کر دی گئی ہے دوسرے مرحلے میں احساس کفالت پروگرام کے لیے رجسٹرڈ ہونے والوں کو امداد جاری کی جاۓ گی۔ اب صورتحال یہ ہے کہ ملک بھر میں قائم کردہ 17 ہزار احساس مراکز پر مستحق لوگوں کو بائیو میٹرک تصدیق کے بعد نقد رقوم دی جارہی ہیں۔ مگر تشویشناک پہلو یہ ہے لاک ڈاون ، بازاروں ، مارکیٹوں ، دفاتر کی تالا بندی اور مساجد کی بندش کے باوجود ملک بھر میں لاکھوں لوگوں کو امداد کے حصول کے لیے باہر نکال دیا گیا ہے اور پھر غیر محفوظ طریقہ کار کے زریعے احساس مراکز پر لوگوں کو کورونا کے رحم و کرم پر چھوڑ دیا گیا ہے آنے والی خبروں کے مطابق بہت سے مراکز ایسے ہیں جہاں محدود فاصلے اور دیگر حفاظتی اقدامات کو نظر انداز کیا جارہا ہے ملتان اور راجن پور کے واقعات اس کی واضح مثال ہیں۔ احساس سہولت مراکز پر آنے والی اکثر خواتین ہوتی ہیں اور پھر ان کے ساتھ کوئی ایک مرد ضرور ہوتا ہے ایسی صورتحال میں مرکز کے اندر پہنچ جانے والی خواتین کے لیے تو باہمی فاصلہ برقرار رکھنے کی کوشش کی جارہی ہے مگر مراکز کے باہر خواتین کا جو رش ہوتا ہے اور پھر ان کے لواحقین کا جو رش ہوتا ہے اسے دیکھ کر ان خدشات کو نظر انداز نہیں کیا جاسکتا کہ یہ صورتحال امداد تقسیم کرتے کرتے کہیں کورونا کے پھیلاؤ کا سبب نہ بن جاۓ۔
ایک ایسے وقت میں جب ہم نے کورونا سے بھی بچنا ہے اور بھوک سے بھی لڑنا ہے حکومت کو امدادی رقوم کی تقسیم کے لیے کوئی محفوظ طریقہ کار اپنانا چاہئے کیونکہ حکومت کے پاس بینظیر انکم سپورٹ اور احساس پروگرام کے تحت رجسٹرڈ ہونے والوں کا مکمل ڈیٹا موجود ہے جس میں ان کے موبائل نمبر سے لیکر رہائش تک سب معلومات شامل ہیں اگر لوگوں کو موبائل اکاؤنٹ یا منی آرڈر کے زریعے گھروں سے نکلے بغیر امدادی رقوم ان تک پہنچانے کا کوئی طریقہ کا طے کرے تو اتنی بڑی تعداد میں لوگوں کو گھروں سے نہیں نکلنا پڑے گا یا پھر بائیو میٹرک تصدیق اتنی ہی لازم ہے تو دیہی علاقوں میں چک اور موضع اور شہری علاقوں میں محلہ جاتی بنیاد وہاں جا کر یہ امداد تقسیم کی جاسکتی ہے اس سے لوگوں کو گھروں اور علاقوں تک محدود رکھا جاسکتا ہے کیونکہ موجودہ صورتحال معلومات کی کمی کی وجہ سے ہر مرد و خاتون شناختی کارڈ لے کر احساس مراکز پر پہنچ جاتے ہیں لیکن اگر ہر ضلع کی انتظامیہ کی طرف سے ہر محلے علاقے کے لیے باقاعدہ اعلان کر دیا جاۓ کہ آپ سب کو اپنے گھروں کے قریب امدادی رقوم دی جائیں گی تو اس بھی رش کو کنٹرول کیا جاسکتا ہے حکومت کو اس مسئلے پر سنجیدگی سے غور کرنا چاہئے کیونکہ ہماری تھوڑی سی غفلت کسی بڑے المیے کو جنم دے سکتی ہے جس کورونا سے بچنے کے لیے لوگ گھروں میں بیٹھے تھے کہیں ایسا نہ ہو کہ امداد لیتے لیتے اس کورونا کو بھی ساتھ گھروں میں لے جائیں۔
ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
تازہ ترین کالمز :
مظہر اقبال کھوکھر کے کالمز
-
ڈی سی لیہ اور تبدیلی
جمعرات 3 فروری 2022
-
صوبے کے نام پر سیاست
بدھ 26 جنوری 2022
-
بات تو سچ ہے۔۔۔
جمعرات 20 جنوری 2022
-
اجتماعی بے حسی کا نوحہ
بدھ 12 جنوری 2022
-
خاموش انقلاب نہیں دھاڑتا طوفان
بدھ 5 جنوری 2022
-
ایک اور سال
جمعہ 31 دسمبر 2021
-
تبدیلی آنے سے پہلے جانے لگی
جمعہ 24 دسمبر 2021
-
ایک اور بحران۔۔۔۔
منگل 14 دسمبر 2021
مظہر اقبال کھوکھر کے مزید کالمز
کالم نگار
مزید عنوان
UrduPoint Network is the largest independent digital media house from Pakistan, catering the needs of its users since year 1997. We provide breaking news, Pakistani news, International news, Business news, Sports news, Urdu news and Live Urdu News
© 1997-2025, UrduPoint Network
All rights of the publication are reserved by UrduPoint.com. Reproduction without proper consent is not allowed.