بچوں کے حقوق

بدھ 1 جولائی 2020

Mehmood Ur Rehman

محمود الرحمن

بچے کسی بھی قوم کا مستقبل اور سرمایہ ہوتے ہیں جو بڑے ہوکرملک کی باگ ڈورسنبھالتے ہیں یہی وجہ ہے کہ بچوں کے حقوق اور ان کی تعلیم و تربیت پر خصوصی توجہ دی جاتی ہے تاکہ وہ بڑے ہو کر اچھا شہری بننے کے ساتھ ساتھ عائلی زندگی سے لے کر ملک و قوم کی قیادت تک بہترین منتظم ثابت ہوں اور زندگی کے ہر شعبہ میں کارہائے نمایاں سرانجام دے کر دنیا و آخرت میں کامیابی حاصل کرسکیں اسی لیے اسلام نے بھی آج سے ساڑھے چودہ سو سال پہلے نہ صرف بچے کی پیدائش بلکہ ماں کے پیٹ میں جنین کے لیے بھی حقوق کا تعین کیا اور انہی حقوق کے تحت اسے سب سے بڑھ کر زندگی اور پھر وراثت و نفقہ کا حق دیا اسی طرح آج کی دنیا بھی بچوں کے حقوق کی بات کررہی ہے اقوام عالم میں بین الاقوامی سطح پر اور مختلف ممالک میں اپنے اپنے طور پر بچوں کے حقوق کے لیے قانون سازی کی جارہی ہے اقوام متحدہ سمیت بڑے بڑے عالمی سماجی ادارے اس پر اربوں روپے خرچ کررہے ہیں لیکن اس کے باوجود مطلوبہ نتائج حاصل نہیں ہورہے اگر ہم وطن عزیز پاکستان کی بات کریں تو پاکستان ایک اسلامی ملک ہے بحیثیت مسلمان اسلام ہمارے لیے مکمل ضابطہ حیات ہے اور اسلام نے ماں کے پیٹ سے لے کر بعد از موت تک ہر مرد و عورت کے لیے حقوق کا تعین کر دیا ہے اسی طرح آئین پاکستان اور پھر وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ بھی اس حوالے سے قانون سازی ہوتی رہی ہے اور ہو رہی ہے لیکن انتہائی افسوس کے ساتھ کہنا پڑ رہاہے کہ اس سب کے باوجود ہر سطح پر بچوں کا بری طرح استحصال ہو رہاہے اقوام متحدہ کے بچوں کے حقوق پر کنونشن 1989 میں بچہ کی عمر کا تعین اٹھارہ سال کیا گیا ہے لیکن ہمارے معاشرہ میں بچہ  ابھی ماں کے پیٹ میں ہوتاہے تو اس کی حق تلفی شروع ہوجاتی ہے کبھی اسے مناسب اور ضرورت کے مطابق غذا نہ دے کر اس کا حق سلب کیا جارہاہوتاہے تو کبھی ماں کو بھوکا پیاسا رکھ اور ذہنی وجسمانی تشدد کرکے اور اس وجہ سے اس پر پڑنے والے اثرات کی صور ت میں اس پر ظلم کیاجارہاہوتاہے جو کسی کو نظر بھی نہیں آتا اسی وجہ سے بیشتر بچے یا تو بہت کمزور اور لاغر یا معذور و اپاہج پیدا ہوتے ہیں یا پھر پیدائش سے قبل یا فورا بعد مر جاتے ہیں ایسی صورتوں میں زچہ و بچہ دونوں کی زندگی کو خطرات لاحق ہوتے ہیں پیدائش کے بعد ایک نئی زندگی کا آغاز ہوتاہے لیکن اس میں بھی بچے کی صحت،خوبصورتی بدصورتی اور باالخصوص بچہ یا بچی کی پیدائش پر صنفی امتیاز کے باعث ظلم و زیادتی کا ایک نیا سلسلہ شروع ہوتاہے معذور بچوں کی مناسب پرورش اور تعلیم و تربیت نہ کرنے اور بچیوں کے ساتھ ہر سطح پر امتیازی برتاؤ تو ہمارے معاشرے میں عام ہے آئے روز اس حوالے سے خبریں سننے کو ملتی ہیں اور جو لوگ اپنے بچوں کی اچھی پرورش اور تعلیم و تربیت کررہے ہوتے ہیں وہ بھی کسی نہ کسی سطح پر بچوں کے حقوق کی خلاف ورزی کے مرتکب ہورہے ہوتے ہیں اس کی سب سے بڑی مثال تو ہمارا نظام تعلیم ہے بچہ تین سال کا ہوتاہے تو اسے کتابوں کا بھاری بھر کم بستہ تھما کر سکول بھیج دیتے ہیں حالانکہ یہ اس کی بہترین ذہنی و جسمانی پرورش کا وقت ہوتا ہے اسلام نے سات سال تک اس کے لیے نماز تک کی چھوٹ دے رکھی ہے خالق کائنات سے بڑھ کر کوئی مدبر اور اس کے آخری رسول سے بڑھ کر کوئی معلم نہیں ہو سکتا اس لیے انسانیت کے لیے ضابطہ حیات بھی وہی ہے جو اللہ نے اپنے آخری رسول کے ذریعے دیا ہے اس لیے چاہے کوئی کتنا ہی بڑا مفکر کیوں نہ ہو اسلام کے ضابطہ حیات کو جھٹلا کر ہر گز کامیابی حاصل نہیں کر سکتا اور یہی وجہ ہے کہ آج ہم اسلام کے آفاقی پیغام کو بھلا کر مزید مسائل کا شکار ہو رہے ہیں اور آج حالات اس نہج پر پہنچ چکے ہیں کہ جنھیں دیکھ کر انسانیت بھی شرما جاتی ہے تعلیم وصحت کی سہولیات اور دو وقت کی روٹی تو دور کی بات چھوٹے چھوٹے معصوم بچے بھیک مانگ اور محنت مزدوری اور مشقت کر کے پیٹ پالنے پر مجبور نظر آتے ہیں اور اب تو ظلم کی انتہا یہ ہے کہ اکیسویں صدی میں داخل ہونے کے باوجود بچوں پر تشدد جنسی زیادتی اور انھیں انتہائی بے رحمی وسفاکی سے قتل کرنے کی وارداتوں میں آئے روز اضافہ ہو رہا ہے جس کی بنیادی وجوہات میں اسلام سے دوری حقوق سے عدم اگاہی اور شرعی و ملکی قوانین پر عمل درآمد نہ ہونا شامل ہے اس لیے ضرورت اس امر کی ہے کہ ہمیں اللہ کے بتائے ہوئے ضابطہ پر عمل درآمد کے ساتھ ساتھ بچوں کے حوالے سے ان کے حقوق اور موجود قوانین اور اپنی ذمہ داریوں سے آگاہی بہت ضروری ہے جب ہمیں پتا ہو گا کہ بچوں کو مفت تعلیم و صحت کی سہولیات فراہم کرنا اور ان پر کسی بھی طرع کے ظلم و زیادتی یاان کے حقوق کی خلاف ورزی پر قانونی گرفت ریاست کی ذمہ داری ہے تو پھر عوام حکومت سے اس کی ڈیمانڈ بھی کریں گے اور جب حکومت پر ریاستی زمہ داری پوری کرنے کے لیے دبائو پڑھے گا تب قانون پر عمل درآمد ہو گا اور ادارےبھی اپنا کام کریں گے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :