باپردہ میڈیا ۔۔ اور تلخ حقیقت

پیر 25 جنوری 2021

Mehtab Ahmed

مہتاب احمد

پاکستان میں اس وقت کم و بیش نوے کے قریب الیکٹرانک  میڈیا چینلز عوام کو جھوٹ سچ دکھانے میں دن رات ایک کئے ہوئے ہیں اور پاکستان کے اندر اگر کتا بھی پیشاب کر جائے تو اس کو بھی خصوصی ( ایکسکلوزیو) دکھانے کی کوشش کرتے ہیں اور حکومت وقت کو اس مسلئے کے حل کی طرف توجہ دلانے کی کوشش کرتے ہیں   چند ایک چینل کے علا وہ سب چینلز ہمیشہ منفی بات کو طول دیتے  ہیں اور مثبت بات کی طرف  کوئی توجہ نہیں دیتے لیکن  افسوس کہ آج تک کسی بھی میڈیا ہاؤس نے اپنے گریبان میں جھانک کر نہیں دیکھا کہ ہمارے اندر کیا (خصوصی خبر)ہے؟
آج میں ایک میڈیا ورکر ہوتے ہوئے  اپنے ہی  چند الیکٹرانک میڈیا ہاؤسز کی کچھ  ایسی ناپاک حرکتیں سامنے لانا چاہا رہا ہوں  جو کے ہمارے آنے والی نسلوں  خصوصا ہماری نوجوان لڑکیاں جن کو میڈیا میں آنے کا بہت شوق ہے اور انھوں نے اپنی تعلیم بھی ماس کمیونیکیشن میں حاصل کی ہے ۔

(جاری ہے)


میں انتہائی دکھ کے ساتھ یہ لکھ رہا ہوں کہ ہمارا میڈیا جس طرح  اپنی ریٹنگ   بڑھانے کے لیے عام عوام کے حقوق،اور خصوصا عورتوں کے حقوق پر لمبے چوڑے پروگرام کرتا ہے وہاں پر میڈیا کے اند ر جو  ان کے اپنے ورکرز کے ساتھ ہو رہا ہوتا ہے اس کی ذمہ داری حکومت وقت پر ڈال دی جاتی ہے اور لوگوں کی مجبوریوں کا فائدہ اٹھایا جاتا ہے۔
ریاست پاکستا ن ایک اسلام کے نام پہ بننے والی ریاست ہےاور  جس کا مقصد یہاں پہ رہنے والے تمام مسلمان مرد عورتیں  اسلامی طور طریقے سے زندگی گزار سکیں لیکن آج ہم نے مغرب کے کلچر کو اتنا اپنے اندر سما  لیا  ہے کہ ہم اسلام سے بہت دور ہوتے جا رہے ہیں اور لوگوں کو اسلا م سے دور ہونے پر مجبور کیا جا رہا ہےریاست پاکستا ن میں زیادہ تر  بڑی ایڈوٹائیزنگ کمپنیاں بلخصوص میڈیا ہاؤس نوجوان لڑکیوں کی مجبوری  کا فائدہ اٹھاتے ہیں  اور انھیں  بے پردہ لباس پہنا کر  لوگوں کے سامنے یا  ٹی وی سکرین پر لایا جاتا ہے ۔

پاکستان میں زیادہ تربے حیائی کی طرف مبذول کروانے میں الیکٹرانک میڈیا کا سب سے بڑا کردار ہے  بڑے افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ ہمارے ہاں زیادہ تر میڈیا چینلز نوجوان لڑکیوں سے  نہ چاہتے ہوئے بھی مجبور کر کے  ان سے  ان کاپردہ چھین لیتے ہیں اور اپنی ریٹنگ بڑھانے لے لیے ایک مسلمان لیڈی رپورٹر کو حجاب کرنے کی اجازت تک نہیں دیتے  ،کچھ لڑکیاں حجاب اتارنا بلکل پسند نہیں  کرتیں ،میک اپ کرنا بھی شاید مناسب نہ سمجھتی ہوں لیکن ان کی مجبوری یہ ہوتی ہے کہ انھوں نے اپنی تعلیم اسی فیلڈ میں حاصل کی ہوئی ہوتی ہے  اور ان کے لیے اور کوئی نوکری کرنا مشکل ہو جاتا ہے  یہ سب سوچ کر ایک شریف  اور مسلم طور طریقے پر چلنے والی لڑکی بھی حالات کے ہاتھوں مجبور ہو جاتی ہے اس وقت اس کے سامنے صرف  دو  راستے ہوتے ہیں  یا تو اسے اپنی عزت نیلام کرنی پڑے گی یا نوکری سے ہاتھ دھونے پڑیں گے  اس بے چاری کی قابلیت   یا اس کی خوبصورتی کو نہیں دیکھا جاتا  اور جو لڑکی جتنا کم  اور تنگ لباس پہنتی ہو گی  جسم سے جتنا زیادہ پردہ ہٹائے گی اس کو فورا نوکری مل جاتی ہے وہاں پہ اس کی قابلیت نہیں بلکے یہ دیکھا جاتا ہے کہ اس کی شکل کیسی ہے، یہ کپڑے کیسے پہنتی ہے ، اس کا میک اپ کیسا ہے۔


قرآن میں اللہ تعالی کا ارشاد ہے ۔
اے نبیﷺ اپنی بیویوں ،بیٹیوں اورمسلمان عورتوں سے کہہ دو کے اپنے اوپر اپنی چادروں کے گھونگھٹ ڈال لیا کریں یہ مناسب طریقہ ہے تا کہ وہ پہچان لی جائیں اور یہ مناسب طریقہ ہے۔(القران)۔
آج ہمیں اس بات سوچنا ہو گا کہ ہم دنیاوی ریٹنگ کے لیے ایک مسلمان عورت کا پردہ ختم کرنے  پر اسے حالات کے ہاتھوں مجبور کر رہے ہیں لیکن یاد رکھنا کہ ہو سکتا اللہ تعالی اس عورت کو معاف کر دے کیوں کہ وہ حالات کے آگے مجبور کی جا رہی ہے اور آپ جو اس کی مجبوری کا فائدہ اٹھا رہے ہو اس کا احساب بروز قیامت آپ سے لیا جائے ۔


میری تمام میڈیا مالکان سے گزارش ہے کی اس بے پردگی والے ٹرینڈ کو ختم کریں اور لوگوں کی عزت  کے ساتھ نہ کھیلیں جو لڑکیاں موجودہ  مغربی کلچر کو فالو نہیں کرنا چاہتیں ان کے لے نوکری کے دروازے بند نہ کیے جائیں اور انھیں بھی اس نام نہاد اسلامی معاشرے میں  عزت کے ساتھ رہنے اور کام کرنے دیا جائے ۔اللہ تعالی ہمیں دین کی سمجھ اور اس پر عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے آمین۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :

متعلقہ عنوان :