پاکستان میں نیا تعلیمی نصاب اور کچھ لیبرلز کی ڈھٹائی

ہفتہ 11 ستمبر 2021

Mehtab Ahmed

مہتاب احمد

اسلام و علیکم ،
الحمد و اللہ آج پاکستان کی تاریخ میں بہت بڑی تبدیل آ رہی ہے اور  یہ تبدیلی تعلیمی نصاب کی صورت میں آئی ہے اور میرے خیال میں یہ سب سے بڑی تبدیلی ہے جوکہ  چند ایک خاص قسم کے  نام نہاد لیبرلز طبقے   کے علاوہ ہر پاکستانی کے لیے خوشی کی انتہا ہے اس  خوشی کی کچھ اہم وجوہات آپ کے سامنے رکھتا ہوں اس کے بعد اصل نقطے پہ آتا ہوں ۔

اس نئے تعلیمی نصاب  میں سب سے پہلے ہمارے غریب بچوں کے اندر سے احساس کمتری کا خاتمہ ہو گا اور وہ کامیابی  کا راز صرف محنت کو سمجھیں گے اس سے پہلے پاکستان  میں ایک کامیاب طالب علم وہ کہلاتا تھا جو کسی اچھے اور مہنگے سکول سے پڑھا ہو جس کا تعلیمی نظام چھوٹے  لوگوں کے تعلیمی نظام سے بلکل برعکس  ہو ۔اس کے علاوہ اس نئے تعلیمی نصاب سے بچوں میں ایک بھائی چارہ پیدا ہو گا کیوں کہ اب کوئی بھی بچہ تعلیمی نظام میں احساس کمتری کا شکار ہو کر نہیں رہے گا بلکہ ہر بچہ اپنی محنت و لگن سے آگے بڑے گا ۔

(جاری ہے)

نوکریاں میرٹ پہ ملیں گی ،کیوں کہ پہلے پاکستان میں میرٹ ان بڑے لوگوں کے نصاب کی آڑ میں چھپ کر غریبوں  کاحق مارتا تھا لیکن اب ایسا نہیں ہو گا جو غریب کا بچہ پڑے گا وہی امیر کا بچہ بھی پڑے گا  ۔لیکن ہاں ! اب آپ  نام نہاد لیبرلز کا میرٹ صرف آپ کی لائف سٹائل تک ہی محدود ہو کر رہ جائے گا ۔
اب میں اصل نقطے پر آتا ہوں ،گزشتہ دو  دن  سے پاکستان میں چند نام نہاد  لیبرلز لوگ اس نئے نصاب کا مزاق اڑا رہے اور اس میں سے ایک دو تصویریں اٹھا کر عورتوں کے حقوق پر باتیں کر رہے ہیں اور کچھ نام نہاد صحافی  تو  بی بی سی  پر کالم چھپوا  دیتے ہیں کہ دیکھیں جی اس تصویر میں باپ اور بیٹا ایک مرد ہونے کی حثییت سے صوفے پر بیٹھے پڑھ رہے ہیں اور ماں اور بیٹی عورت ہونے کی حثییت سے نیچے فرش پر بیٹھ کر پڑھ رہی ہیں  اس سے تاثر یہ جائے گا کہ عورتوں کو مردوں کے مقابلے میں نیچا دیکھایا گیا ہے اور کے علاوہ احجاب پہ فضول سی بکواسات کی گئی ہیں کہ ایک چار یا پانچ سالہ بچی کو حجاب میں دیکھایا گیا ہے اس کو کیا ضرورت؟ اس کے علاوہ یہ بھی کہا گیا ہے کہ عوتوں کی صرف ٹیچر اور نرس بننے کا ہی دیکھایا گیا ہے اور مرد ہر قسم کی نوکری یا پیشے میں جا سکتا ہے ۔

اس کے اعلاوہ عورت کو ایک جگہ دیکھایاگیا کہ مرد آرام سے بیٹھا ہے  اور عورت کپڑے دھو رہی ہے ۔
لیکن دوستو حقیقت اس کے بلکل برعکس ہے  یہ صرف ایک نام نہاد  لیبرلز   لوگوں کا انتشار پھیلانے کے علاوہ اور کچھ بھی نہیں ہے  میری تمام کالم نگار، اینکر پرسن اور سوشل میڈیا صارفین سے گزارش ہے کہ ایک بار ان کتابوں کا مطالعہ کر لیں اس کے بعد اس بحث میں پڑھیں انشاء اللہ افاقہ ہو گا ۔


سب سے پہلے جو کہا گیا ہے کہ اس کتاب میں مرد کو صوفے پہ  اور عورت کو نیچے بیٹھا کر یہ تاثر دیا گیا کہ عورت کی حثییت مرد سے کم ہے ،لیکن ایسا بلکل بھی نہیں ہے اسی کتاب میں یہ بھی دیکھایا گیا ہے کہ ایک ماں اور بیٹی صوفے پہ بیٹھی ہیں اور بچہ نیچے بیٹھا پڑھ رہا ہے ۔
اس کے اعلاوہ یہ کہا گیا ہے کہ ایک چار یا پانچ سال کی بچی کو حجاب میں دیکھایا گیا ہے حالانکہ اس کو حجاب کی کیا ضرورت ؟ لیکن یہاں پہ بھی اس قوم کو تصویرکا ایک ہی رخ دیکھایا گیا ہے اسی کتاب میں کئی اسی تصاویر ہیں جن میں بچیاں بغیر احجاب کے بھی نظر آئیں گی۔

اور اس کے علاوہ ضرورت کی جو  بات کی گئی ہے اس میں یہ ہے کہ ہماری چھوٹی بچیا ں زیادہ تر خوشی سے احجاب کرتی ہیں اور کچھ نہیں بھی کرتیں ۔
اس کے علاوہ یہ کہا گیا ہے کہ  عورتوں کو صرف ٹیچر اور نرس کی جاب کی طرف متوجہ کروایا گیا ہے اور بچیوں کے زہن میں یہ چیز ڈالی گئی ہے کہ وہ صر یہ کام کر سکتی ہیں اور  اس کے علاوہ معاشرے میں ان کے لیے اور کوئی جگہ نہیں ،لیکن حقیقت تو یہ ہے کہ اسی نصاب و کتاب میں عورت کو فاطمہ جناکی صورت میں بھی دیکھایا گیا ہے ،عورت کو ایک کرکٹ میچ کھیلتے بھی دیکھایا گیا ہے ،عورت کو پائیلٹ کے روپ میں بھی دیکھایا گیا ہے ،عورت  کو ایک عیسائی خاتون ڈاکٹر رتھ فاو کے روپ میں بھی دیکھایا گیا ہے ، انہی کتابوں میں عورت کو ایک آفس میں جاب کرتے اور ایک مرد کو دھوبھی کی صورت میں دیکھایا گیا ہے۔


ان سب چیزوں کے علاوہ انسانی حقوق اور عورت کے حقوق پر پورے پورے  سبق چھاپے گئے ہیں  مہربانی  فرما کر یہ چیزیں  بھی اس قوم کے آگے رکھی جائیں ،اس کےعلاوہ ان کتابوں میں سب سے اہم چیز یہ دکھائی گئی ہے کہ ہمارے بچوں نے  ایسے غلیظ عناصر سے کیسے بچنا ہے جو بچوں کو ورغلا کر ساتھ لے جاتے ہیں اور انھیں ذیادتی کا نشانہ بناتے ہیں  ان کتابوں میں تصویر کے زریعے دیکھایا جا رہا ہے کہ ایک مشکوک شخص گاڑی میں آتا ہے اور کوئی کھانے کی چیز دکھا کر بچوں کو اپنی طرف  بلانے کی کوشش کرتا ہے لیکن پیچھے سے ایک اور شخص انھیں روکتا ہے اور یہ تاثر دیتا ہے کہ کسی اجنبی سے نہ کوئی چیز لی جائے ا ور نہ  ہی اس کے قریب جایا جائے ،اسی کتاب میں  یہی بات دوبارہ دیکھائی گئی ہے کہ ایک اجنبی شخص بچوں کو  کوئی چیز کھانے کے لیے دیتا ہے لیکن اس بار بچے اسے منع کر دیتے ہیں اور یہ کہتے  ہیں کہ ہمارے والدین ہمیں سب کچھ دیتے ہیں  آپ کا بہت شکریہ کہہ کر اس سے دور چلے جاتے ہیں ۔


ان کتابوں میں تمام مہذاہب کے تہوار کی عزت کرنا  دیکھایا اور سمجھایا گیا ہے   تا کہ ہمارے بچوں کہ زہن میں اقلیتوں کے حقوق اور بحثییت معاشرہ ایک دوسرے میں فرق نہ ڈالا جائے ۔
اس کے علاوہ ان کتابوں میں معاشرے کی ایک ایک چیز کو سمایا گیا ہے تاکہ ہمارے بچے بڑے ہو کر اس معاشرے کے ایک ذمہ دار شہری بنیں نہ کہ موجودہ دور کے کچھ غلیظ لیبرلز عناصر کے ساتھ مل کر اس ملک وقوم اور اسلامی روایات کے خلاف بکواسات کریں ۔


میری آپ تمام لوگوں سے اپیل ہے کہ مہربانی فرما کر   اس نصاب کا ایک بار ضرور مطالعہ کریں اور حقیقت کو  اس قوم کے سامنے لائیں تا کہ تمام اسلام اور پاکستان دشمن  کی بولتی بند ہو جائے ،تمام پاکستانیوں کو حق حاصل ہے کہ وہ   ہر دور میں حکومت وقت پر تنقید کرے لیکن جو کام کسی بھی دور حکومت میں اچھے ہوئے ہوں ان کی بھی نشاندہی کی جائے تا کہ ہمارے معاشرے میں  منفی  ذہینیت جنم نہ لے ۔بطور صحافی آپ لوگوں کا یہ فرض بنتا ہے کہ ہمشہ مثبت پہلو کو اجاگر کریں اور ایسی خبریں نہ پھیلائی جائیں جن کا کوئی وجود ہی نہ ہو ۔مجھے امید ہے کہ میرے ان چند ٹوٹے پھوٹے الفاظ کو مثبت طریقے سے پڑا  اور سمجھا جائے گا اور میری مزید حوصلہ افضائی کی جائے گی ۔ شکریہ

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :