رشتوں میں محبت کی کمی۔۔آپ کا سمارٹ فون

پیر 4 جنوری 2021

Mehtab Ahmed

مہتاب احمد

آج ہم اس ترقی یافتہ دور سے گزر رہے ہیں جس میں انسانوں کی سہولت کے لیے آئے دن  نئی  سے نئی چیزیں  مارکیٹ میں متعارف ہو رہی ہے ،جو کہ ہماری سہولیات میں اضافے کے ساتھ ساتھ ہمیں منفی پہلو کی طرف لے کر جا رہی ہیں  جن میں شاید  سب سے زیادہ استعمال ہونے والی چیز "موبائل فون اور انٹر نیٹ  ہے۔
موبائل فون ایک اسی ڈیوائس ہے جوانسانوں میں دوریاں  ختم کرنے میں اہم کردار ادا کرتی ہے   جو  پاکستان میں پہلی بار تقریبا2004 میں پاک ٹل کمپنی نے متعارف کرایا ۔

شروع میں جب موبائل فون عام ہوئے تو اس کو صرف کال یا ایس ایم ایس کے لیے استعمال میں لایا جا سکتا تھا جس کی وجہ سے ہمارے رشتے جن میں کافی حد تک دوریاں ہو رہی تھی ان میں کافی حد تک قربت آنے لگ گئی تھی،نئی نئی چیز تھی ہر کوئی اپنے دور پار کے رشتہ داروں سے بھی رابطہ کر لیتا تھااس کے بعد جیسے جیسے موبائل عام ہونے لگے تو کچھ منفی ذہنییت کے لوگوں نے اس کا استعمال کچھ یوں کرنا شروع کر دیا،جیسے کسی کو کال کر کے تنگ کرنا یا میسج کرناوغیرہ۔

(جاری ہے)


جیسے جیسے سائنس نے ترقی کی منازل طے کی ہیں اس کے ساتھ ساتھ موبائل فون بھی اپ ٹو ڈیٹ ہوتے رہے اور آج وہی  بٹن والے موبائل ترقی کر کے"سمارٹ فون" کے نام سے جانے جاتے ہیں ۔
بٹن والے موبائل کا غلط استعمال تو چند وہ لوگ کرتے تھے جن کا منفی ذہن تھا جو کہ کسی حد تک نادرہ  یا پی ٹی اےکے توسط سے کنٹرول میں آ گئے تھے اور موبائل کا استعمال کافی حد تک سہولت کے لیے ہی  ہوتا تھا ۔


لیکن آج جو صورت حال ہے اس میں ہر انسان کو سوچنے کی ضرورت ہے ،اس دور میں ایک گھر میں چھوٹے بچے سے لے کر گھر کے سربراہ تک ہر ایک کے پاس کم سے کم ایک سمارٹ فون ضرور ہے جس کا استعمال انتہائی بے دریغی سے کیا جا رہا ہے ۔اکثر جب آپ گھر فیملی میں بیٹھےہوتے ہیں تو  اگر نوٹ کریں تو یہ موبائل فون ہمارے لیے ایک سہولت کے ساتھ ساتھ زحمت بن چکا ہے ،گھر میں اگر پانچ لوگ بیٹھے ہیں تو سب کے سب موبائل فون کے ساتھ کھیل رہے ہوتے ہیں نا کسی کو چھوٹے کی تمیز اور نہ بڑے کی تمیز،کون گھر آیا ؟کون گیا ؟بچوں کو تو اس کی خبر ہی نہیں ہوتی کیوں کہ وہ موبائل میں گیمز یا نیٹ پہ منفی چیزوں میں مصروف ہوتے ہیں ،اگر والدین کی بات کریں تو موبائل ان کو اتنا وقت بھی نہیں دیتا کہ اپنے بچوں کو کوئی اچھا مشورہ دے دیں ،ان سے پیار محبت سے کوئی بات کر لیں تاکہ بچوں کے دل میں بھی والدین کے لیے محبت پیدا ہو،اسی وجہ سے آج ہر والدین کی یہ شکائیت ہوتی ہے کہ اس کا بچہ اس دور رہنا پسند کرتا ہے گھر میں الگ رہتا ہے ،او بھائی آپ نے اس کو قریب لانے کی کاشش ہی کب کی ؟وہ بھی کیا دور تھا جب دور دور تک رشتہ داریاں نبھائی جاتی تھیں لوگوں میں پیار تھا ،رشتوں میں ایک پہچان ہوتی تھی ،لوگوں کے پاس ایک دوسرے کا دکھ درد بانٹنے کا وقت ہوتا تھا ،بچے اپنے والدین کے پاس بیٹھتے تھے ان سے کوئی اچھی بات سیکھنے کو ملتی تھی ،اس طرح  خونی اور دور کے رشتوں میں قربت رہتی تھی ،میرے ایک دوست ہیں "عثمان بلوچ "اکثر میرا ان سے یہی گلہ رہتا ہے کہ آ پ کھانا کھاتے ہوئے بھی اس موبائل میں گھسے رہتے ہو ، آج بدقسمتی سے ہم ایک دوسرے کے پاس تو بیٹھےہوتے ہیں لیکن ہمارے دل و دماغ اس جگہ پر موجود نہیں ہوتے  ، ہر کوئی اپنے  اپنے موبائل فون میں ایسے گھسا ہوتا ہے اگر اس دوران   کوئی باہر سے آ کر آپ کو تھپڑ بھی مار جائے تو شاید آپ اس کی طرف متوجہ نہ ہوں ،موبائل فون کی وجہ سے آج معاشرے میں ہر تیسرا شخص ڈیپریشن کا شکار ہے  ہم نے آپس میں  مل بیٹھ  کر باتیں کر کے دلی اور دماغی سکون حاصل کرنے کے بجائے موبائل فون کا سہارا لے لیا ہے جو ہمارےلیے  ذہنی بیماریوں کا باعث بن رہا ہے ،آج کے بچے موبائل فون کا استعمال اس حد تک کرنا شروع ہو گئے ہیں کہ نہ وہ کھانا وقت پر کھا سکتے ہیں نہ ہی کسی جسمانی ورزش میں حصہ لیتے ہیں  انٹرنیٹ پیکیجز اتنے سستے ہو  گئے ہیں کہ ایک بچہ اپنی پاکٹ منی سے  با آسانی نیٹ پیکج کروا سکتا ہے اور اندھا دھند موبائل پر مثبت چیزوں کے ساتھ منفی چیزیں بھی دیکھ رہا ہوتا ہےجس کی وجہ سے ان میں جسمانی کمزوریوں کے ساتھ ساتھ دماغی بیماریاں بھی جنم لے رہی ہیں  ۔

سمارٹ فون  اور انٹر نیٹ ہمارے معاشرے میں ایک لا علاج نشہ بن چکا ہے جس سے چھٹکارا ناممکن لگ رہا ہے خصوصا والدین کو اس پر نطر رکھنی ہو گی کہ ہمارے بچے میں اس موبائل فون کے غیر ضروری استعمال پر کیا کیا تبدیلیاں رونما ہو  رہی ہیں اور وہ اس کا استعمال کس حد تک  صحیح یا غلط کر رہا ہے /رہی ہے ،اگر ہم نے ابھی سے کنٹرول کرنا شروع نہ کیا تو یہ ہماری آنے والی نسلوں کو تباہی کے دہانے پر لے جائے گا ۔اللہ تعالی ہم سب کو سمجھ کی توفیق عطا فرمائے۔آمین

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :