8 اکتوبر 2005 کی دردناک صبح کا آنکھوں دیکھا حال

پیر 11 اکتوبر 2021

Mehtab Ahmed

مہتاب احمد

پاکستان کی تاریخ کا سب سے ہولناک دن جس کو آج 16 سال مکمل ہو گئے لیکن اس کا منظر  ،ہر طرف چیخ و پکار، نفسا نفسی آج بھی میری آنکھوں  میں اسی طرح محفوظ ہے   ،کشمیر اور ہزارہ ڈویژن میں قیامت صغرا  جیسا منظر جو میری ان آنکھوں نے خود دیکھا اور آج بھی سوچ کر دل میں کپکپی ہونا شروع ہو جاتی ہے ۔
8 اکتوبر 2005 کی صبح ہم سب لوگ  روز مرہ کی طرح  صبح اٹھے ، والدہ یا بہین کے ہاتھوں کے بنے ہوئے  چائے اور پرٹھے کے ساتھ ناشتہ کیا اور سکول کے لیے تیاری کی ہم محلے کے دو تین دوست ہمیشہ ایک ساتھ سکول جاتے اور آتے تھے وہی دماغ میں شغل اور شیطانیت لے کر گھر سے نکل پڑے، گاوں ،میں زیادہ تر لوگ صبح فجر کے وقت اٹھتے ہیں نماز پڑھ کر ناشتہ کرتے ہیں اور اس کے بعد گھروں سے باہر اپنے اپنے کام میں مشغول ہو جاتے ہیں ۔

(جاری ہے)

ہم تقریبا تین کلو میڑ دور پیدل سکول جاتے اور آتے تھے  سب لوگ راستے میں ملے اپنے اپنے کام پر جا رہے کسی کو علم ہی نہیں تھا کہ کچھ وقت کے بعد قیامت ٹوٹنے والی ہے ۔  ساڑھے سات بجے ہم لوگ بمشکل اسمبلی گراونڈ  میں پہنچے  آدھے گھینٹے کی پریڈ کے بعد ہم لوگ ٹھیک آٹھ بجے اپنی اپنی کلاس رومزمیں چلے گئے، اس دن ہمارا پہلا پیریڈ ریاضی کا تھا ساڑھے آٹھ بجے ہمارے ریاضی کے ٹیچر  بشیر صاحب کلاس روم میں داخل ہوئے اس دن وہ شائد ہماری کارگردگی سے انتہائی ناخوش تھے اور آتے ساتھ ہی غصے میں باتیں کرنے لگے ہمیں لگا کہ آج استاد صاحب کی طرف سے کسی نہ کسی چکر میں مار پیٹ ضرور ہو گی ۔

خیر اللہ کی طرف سے کچھ اور ہی لمحات آنے تھے جن کے بارے میں انسان سوچ بھی نہیں سکتا تھا کیوں کہ ایک تو ہم چھوٹے تھے دوسری بات یہ تھی کہ ہم نے کبھی سنا ہی نہیں تھا کہ زلزلہ بھی آتا ہےاور اس کی نوعیت کس قسم کی ہوتی ہے ۔ اللہ اکبر۔ٹیچر نے پیریڈ شروع کیا  چند ایک سوال بلیک بورڈ پر سمجھائے  اسی دوران تیز ہوا چلی اور زمین تھرتھرانے لگی وہ منظر آج بھی میں سوچ کر کانپنے لگ جاتا ہوں سکول کی چھت اس  طرح ہل رہی تھی جیسے کسی کھنڈر نما سڑک پر رکشے میں بیٹھو تو اس طرح کے ہچکولے لگتے ہیں ۔

ہر طرف شور  ،ہمارے ساتھ لڑکیاں بھی تھی ان کی آوازیں ساتویں آسمان تک جا رہیں تھی ۔اسی دوران سکول کی دیواریں گرنا شروع ہو گئیں پہلے تو سب لڑکے ایک جگہ کلاس روم میں  رک گئے تھے لیکن جب دیکھا کہ سکول کی چھت بھی گرنے والی ہے تو لڑکوں نے باہر بھاگنے کی کوشش کی اس بھگدڑ میں چند لڑکے سکول کی دیواروں کے نیچے آ گئے۔۔ میں بھی دروازے کی طرف لپکا  ایسا قیامت خیز منظر تھا کہ کچھ لڑکے میرے قریب دیوار کے نیچے پھنسے ہوئے اپنے آپ کو نکالنے کی کوشش کر رہے تھے لیکن میں نے صرف ان کو دیکھا ہے اور خود اللہ اللہ کر کے دروازے سے باہر نکل گیا  ۔

جب میں دروازے سے باہر نکلا تو ہر طرف گردوغبار تھا  دیکھنے کی حد صفر  ، کچھ سمجھ نہیں آ رہا تھا کہ یہ کیا ہو رہا ہے ۔لوگوں کے گھر گر رہے تھے لینڈ سلائڈنگ کی وجہ سے ہر طرف سے خوفناک آوازیں آ رہی تھیں ۔
خیر تقریبا ایک منٹ کے بعد زلزلے کے اثرات کم ہوئے جو لوگ پھنسے ہوئے تھے ان کو نکالا گیا ،اس کے بعد  ہم ساتھ ہی مارکیٹ کی طرف چلے گئے ،جب ہم نے گھر رابطہ کرنے کی کوشش کی تو تمام ٹیلیفون لائنز خراب تھیں کسی سے کوئی رابطہ نہیں ہو رہا تھا ،   دور دور تک صرف مٹی ہی مٹی نظر آ رہی تھی ----افرا تفری کا یہ عالم تھا کہ  راستے میں جاتے ہوئے ان آنکھوں نے یہ منظر دیکھا کہ لوگ اپنے اپنے عزیزوں کے جنازے چھتوں کے نیچے سے نکال رہے تھے کوئی ان کی مدد کو نہیں جا رہا تھا ،لوگ جنازے لے کر جا رہے ہیں اپنے گھر والوں کے علاوہ کوئی کندھا دینے کے لیے تیار نہیں تھا ۔

۔۔ لوگ مدد کے لیےپکا رہے تھے  لیکن ایسا لگ رہا تھا کہ  سامنے والے لوگ بہرے ہو گئے ہیں  مدد تو دور کوئی کسی کی طرف متوجہ بھی نہیں ہو رہا تھا ۔
ہمارے سکول میں بچوں کی تعداد سب سکولوں سے زیادہ تھی ،مجھے ابھی بھی یاد ہے کہ جب لوگوں کو پتہ چلا  کہ ہمارا سکول گر گیا  ہے  تو میری بڑی بہین اپنے گھر  سے کافی دور چل کر ہمارا پتہ کرنے آئیں  وہ ہمیں راستے میں ملی ہماری خیریت دریافت کی لیکن ہم نے ان کو بلکل پوچھا بھی   نہیں ۔

۔دماغ بلکل کام نہیں کر رہا تھا  ۔۔چند سیکنڈ رکے لیے ان کے پاس رکنے کے بعد آگے گھر کی طرف چلے گئے ۔زلزلے کے آفٹر شاکس اس حد تک تیز تھے کہ کتنے لوگوں کے گھر ان آفٹر شاکس میں تباہ ہوئے ۔
 کافی لوگوں نے روزہ افطار کر دیا تھا کیوں کہ بہت زیادہ مٹی منہ میں جانے کی وجہ سے سانس  لینا مشکل ہو گیا تھا ۔۔۔اللہ اکبر کے ورد میں ہم اپنے گھر کے قریب پہنچے تو میرے امی مجھے راستے میں روتے ہوئے ملے انھوں نے ہمیں گلے لگایا پیار دیا لیکن ہمارے دماغ اس قدر سن تھے  کہ ان کی طرف بھی  کوئی خاص توجہ نہیں کی ۔

۔۔خیر گھر پہنچے تو گھر کی حالت دیکھ کر اور گھبراہٹ کا شکار ہو گئے الحمدواللہ ہمارا گھر زمین بوس تو نہیں ہوا تھا لیکن رہنے کے قابل بھی نہیں رہا تھا ہم سب محلے والے ایک ہی جگہ گھر کے پاس میدان میں بیٹھ گئے ۔۔۔۔ جب کوئی چیز گھر  سے اٹھانی ہوتی  دروازے کے پاس پہنچتے تو پھر زلزلہ آ جاتا واپس بھاگ آتے  سب لوگ رو رہے تھے  کوئی سمجھ نہیں آ رہی تھی کہ اب کیا کیا جائے ۔


عصر کے وقت ہمیں پھپھونے کہا کے ہمارے گھر آ جاو ہم لو گ گھر سے نکلے راستے میں جو جو رشتہ دار   یا جاننے والے لوگ مرے تھے یا زخمی تھے  میرے امی ان کے گھر بھی گئے ان کے اہل خانہ سے ملے ۔  مغرب کے قریب ہم لوگ پھپھو کے گھر  پہنچ گئے ان کا گھر ڈیمیج ضرور ہوا تھا لیکن رہنے کے قابل تھا ہمار ا تو  روزہ نہیں تھا لیکن سب بڑوں کے ساتھ مل کر ہم نے افطاری کی،نماز پڑھی  ،اس کے بعد بیٹھے رہےکھان کھانے کے بعد  عشاء کی نماز پڑھی  لیکن نیند بلکل نہیں آ رہی تھی  یہی ڈر اور خوف تھا کہ ابھی پھر زلزلہ آ جائے گا ۔

دنیا میں کسی سے کوئی رابطہ نہیں تھا   ، اس رات اتنی تیز بارش ہوئی کہ تب تو ہمیں  یقین ہو گیا تھا کہ اب قیامت آ گئی ہے  خیر اللہ اللہ کر کے وہ رات بھی گزاری آفٹ شاکس  کے تو ایسے عادی ہو گئے  تھے جیسے اب کچھ ہو ہی نہیں رہا ۔
دوسرے دن صبح  لوگوں سے پتہ چلا کہ ہزاروں کی تعداد میں لوگ مر گئے اور زخمی ہو گئے کچھ لوگ تو  ابھی بھی گھروں کے نیچے دھبے  ہیں   ۔

لوگ اپنی مدد آپ کے تحت اپنے لوگوں کو دفنا رہے تھے اور جو زخمی تھا اسے قریب ترین ہسپتال میں پیدل اٹھا کے لے جا رہے تھے ۔
ایک ہفتہ ہزارہ اور کشمیر دنیا سے منقطہ تھا ،دنیا کو کوئی خبر نہیں تھی کہ یہاں پہ زلزلے نے کتنی تباہی مچا دی ہے  تقریبا ایک ہفتے بعد چند امدادی ٹیموں نے جہاز پر علاقے کا دورہ کیا ہم لوگ چھوٹے تھے جہازوں کو اتنا قریب سے دیکھ کے ڈر رہے تھے ۔

دو تین دن بعد ہم لوگ اپنے دوسرے گھر میں شفٹ ہو گئے  ،الحمدواللہ کہ ہمارا ایک گھر زلزلے سے بلکل محفوظ رہا بس ہلکی پھلکی دراڑیں پڑی تھیں ۔
جسیے جیسے وقت گزرتا گیا پاک آرمی نے اس علاقے کا دورہ کیا زخمیوں کو  کے لیے فرسٹ ایڈ دیا  ،پوری دنیا سے امداد آنا شروع ہو گئی  اس علاقے میں ہر وہ چیز دنیا نے بھیجی شائد وہ اس سے پہلے ہم نے دیکھی بھی نہیں تھی جس کے لیے میں آج بھی اقوام عالم کا تہہ دل سے شکریہ ادا کرتا ہوں ۔


دنیا نے ماچس کی تیلی سے لے کر گھر کی ہر وہ چیز بھیجی جس کی اس وقت ہمیں ضرورت تھی۔کرتے کرتے وقت گزرتا گیا اور آج الحمدواللہ ہم ایک بار پھر دنیا کے سامنے بھرپور زندگی جی رہے ہیں ۔
2005 کے زلزلے کے بعد میں نے ایک چیز نوٹ کی کہ  لوگوں میں بے حسی اور نفسا نفسی ابھی تک ختم نہیں ہوئی بلکے اس میں اضافہ ہی دیکھنے کو ملا۔
اس زلزلے نے تقریبا 85 ہزار لوگوں کی زندگی لی اور کئی لاکھ اس میں زخمی اور بے گھر ہوئے ۔دعا ہے کہ اللہ پاک اس قسم کی آفات و بلییات سے  محفوظ رکھےآمین۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :