
8 اکتوبر 2005 کی دردناک صبح کا آنکھوں دیکھا حال
پیر 11 اکتوبر 2021

مہتاب احمد
8 اکتوبر 2005 کی صبح ہم سب لوگ روز مرہ کی طرح صبح اٹھے ، والدہ یا بہین کے ہاتھوں کے بنے ہوئے چائے اور پرٹھے کے ساتھ ناشتہ کیا اور سکول کے لیے تیاری کی ہم محلے کے دو تین دوست ہمیشہ ایک ساتھ سکول جاتے اور آتے تھے وہی دماغ میں شغل اور شیطانیت لے کر گھر سے نکل پڑے، گاوں ،میں زیادہ تر لوگ صبح فجر کے وقت اٹھتے ہیں نماز پڑھ کر ناشتہ کرتے ہیں اور اس کے بعد گھروں سے باہر اپنے اپنے کام میں مشغول ہو جاتے ہیں ۔
(جاری ہے)
خیر تقریبا ایک منٹ کے بعد زلزلے کے اثرات کم ہوئے جو لوگ پھنسے ہوئے تھے ان کو نکالا گیا ،اس کے بعد ہم ساتھ ہی مارکیٹ کی طرف چلے گئے ،جب ہم نے گھر رابطہ کرنے کی کوشش کی تو تمام ٹیلیفون لائنز خراب تھیں کسی سے کوئی رابطہ نہیں ہو رہا تھا ، دور دور تک صرف مٹی ہی مٹی نظر آ رہی تھی ----افرا تفری کا یہ عالم تھا کہ راستے میں جاتے ہوئے ان آنکھوں نے یہ منظر دیکھا کہ لوگ اپنے اپنے عزیزوں کے جنازے چھتوں کے نیچے سے نکال رہے تھے کوئی ان کی مدد کو نہیں جا رہا تھا ،لوگ جنازے لے کر جا رہے ہیں اپنے گھر والوں کے علاوہ کوئی کندھا دینے کے لیے تیار نہیں تھا ۔۔۔ لوگ مدد کے لیےپکا رہے تھے لیکن ایسا لگ رہا تھا کہ سامنے والے لوگ بہرے ہو گئے ہیں مدد تو دور کوئی کسی کی طرف متوجہ بھی نہیں ہو رہا تھا ۔
ہمارے سکول میں بچوں کی تعداد سب سکولوں سے زیادہ تھی ،مجھے ابھی بھی یاد ہے کہ جب لوگوں کو پتہ چلا کہ ہمارا سکول گر گیا ہے تو میری بڑی بہین اپنے گھر سے کافی دور چل کر ہمارا پتہ کرنے آئیں وہ ہمیں راستے میں ملی ہماری خیریت دریافت کی لیکن ہم نے ان کو بلکل پوچھا بھی نہیں ۔۔دماغ بلکل کام نہیں کر رہا تھا ۔۔چند سیکنڈ رکے لیے ان کے پاس رکنے کے بعد آگے گھر کی طرف چلے گئے ۔زلزلے کے آفٹر شاکس اس حد تک تیز تھے کہ کتنے لوگوں کے گھر ان آفٹر شاکس میں تباہ ہوئے ۔
کافی لوگوں نے روزہ افطار کر دیا تھا کیوں کہ بہت زیادہ مٹی منہ میں جانے کی وجہ سے سانس لینا مشکل ہو گیا تھا ۔۔۔اللہ اکبر کے ورد میں ہم اپنے گھر کے قریب پہنچے تو میرے امی مجھے راستے میں روتے ہوئے ملے انھوں نے ہمیں گلے لگایا پیار دیا لیکن ہمارے دماغ اس قدر سن تھے کہ ان کی طرف بھی کوئی خاص توجہ نہیں کی ۔۔۔خیر گھر پہنچے تو گھر کی حالت دیکھ کر اور گھبراہٹ کا شکار ہو گئے الحمدواللہ ہمارا گھر زمین بوس تو نہیں ہوا تھا لیکن رہنے کے قابل بھی نہیں رہا تھا ہم سب محلے والے ایک ہی جگہ گھر کے پاس میدان میں بیٹھ گئے ۔۔۔۔ جب کوئی چیز گھر سے اٹھانی ہوتی دروازے کے پاس پہنچتے تو پھر زلزلہ آ جاتا واپس بھاگ آتے سب لوگ رو رہے تھے کوئی سمجھ نہیں آ رہی تھی کہ اب کیا کیا جائے ۔
عصر کے وقت ہمیں پھپھونے کہا کے ہمارے گھر آ جاو ہم لو گ گھر سے نکلے راستے میں جو جو رشتہ دار یا جاننے والے لوگ مرے تھے یا زخمی تھے میرے امی ان کے گھر بھی گئے ان کے اہل خانہ سے ملے ۔ مغرب کے قریب ہم لوگ پھپھو کے گھر پہنچ گئے ان کا گھر ڈیمیج ضرور ہوا تھا لیکن رہنے کے قابل تھا ہمار ا تو روزہ نہیں تھا لیکن سب بڑوں کے ساتھ مل کر ہم نے افطاری کی،نماز پڑھی ،اس کے بعد بیٹھے رہےکھان کھانے کے بعد عشاء کی نماز پڑھی لیکن نیند بلکل نہیں آ رہی تھی یہی ڈر اور خوف تھا کہ ابھی پھر زلزلہ آ جائے گا ۔دنیا میں کسی سے کوئی رابطہ نہیں تھا ، اس رات اتنی تیز بارش ہوئی کہ تب تو ہمیں یقین ہو گیا تھا کہ اب قیامت آ گئی ہے خیر اللہ اللہ کر کے وہ رات بھی گزاری آفٹ شاکس کے تو ایسے عادی ہو گئے تھے جیسے اب کچھ ہو ہی نہیں رہا ۔
دوسرے دن صبح لوگوں سے پتہ چلا کہ ہزاروں کی تعداد میں لوگ مر گئے اور زخمی ہو گئے کچھ لوگ تو ابھی بھی گھروں کے نیچے دھبے ہیں ۔لوگ اپنی مدد آپ کے تحت اپنے لوگوں کو دفنا رہے تھے اور جو زخمی تھا اسے قریب ترین ہسپتال میں پیدل اٹھا کے لے جا رہے تھے ۔
ایک ہفتہ ہزارہ اور کشمیر دنیا سے منقطہ تھا ،دنیا کو کوئی خبر نہیں تھی کہ یہاں پہ زلزلے نے کتنی تباہی مچا دی ہے تقریبا ایک ہفتے بعد چند امدادی ٹیموں نے جہاز پر علاقے کا دورہ کیا ہم لوگ چھوٹے تھے جہازوں کو اتنا قریب سے دیکھ کے ڈر رہے تھے ۔دو تین دن بعد ہم لوگ اپنے دوسرے گھر میں شفٹ ہو گئے ،الحمدواللہ کہ ہمارا ایک گھر زلزلے سے بلکل محفوظ رہا بس ہلکی پھلکی دراڑیں پڑی تھیں ۔
جسیے جیسے وقت گزرتا گیا پاک آرمی نے اس علاقے کا دورہ کیا زخمیوں کو کے لیے فرسٹ ایڈ دیا ،پوری دنیا سے امداد آنا شروع ہو گئی اس علاقے میں ہر وہ چیز دنیا نے بھیجی شائد وہ اس سے پہلے ہم نے دیکھی بھی نہیں تھی جس کے لیے میں آج بھی اقوام عالم کا تہہ دل سے شکریہ ادا کرتا ہوں ۔
دنیا نے ماچس کی تیلی سے لے کر گھر کی ہر وہ چیز بھیجی جس کی اس وقت ہمیں ضرورت تھی۔کرتے کرتے وقت گزرتا گیا اور آج الحمدواللہ ہم ایک بار پھر دنیا کے سامنے بھرپور زندگی جی رہے ہیں ۔
2005 کے زلزلے کے بعد میں نے ایک چیز نوٹ کی کہ لوگوں میں بے حسی اور نفسا نفسی ابھی تک ختم نہیں ہوئی بلکے اس میں اضافہ ہی دیکھنے کو ملا۔
اس زلزلے نے تقریبا 85 ہزار لوگوں کی زندگی لی اور کئی لاکھ اس میں زخمی اور بے گھر ہوئے ۔دعا ہے کہ اللہ پاک اس قسم کی آفات و بلییات سے محفوظ رکھےآمین۔
ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
تازہ ترین کالمز :
مہتاب احمد کے کالمز
-
ویلنٹائن ڈے" سر عام زنا کا دوسرا نام"
منگل 15 فروری 2022
-
8 اکتوبر 2005 کی دردناک صبح کا آنکھوں دیکھا حال
پیر 11 اکتوبر 2021
-
پاکستان میں نیا تعلیمی نصاب اور کچھ لیبرلز کی ڈھٹائی
ہفتہ 11 ستمبر 2021
-
دوستی اورمحبت کیا ہوتی ہے؟؟
جمعہ 19 فروری 2021
-
باپردہ میڈیا ۔۔ اور تلخ حقیقت
پیر 25 جنوری 2021
-
رشتوں میں محبت کی کمی۔۔آپ کا سمارٹ فون
پیر 4 جنوری 2021
-
سال نو اور مغربی ثقافت کا جنم دن
ہفتہ 2 جنوری 2021
مہتاب احمد کے مزید کالمز
کالم نگار
مزید عنوان
UrduPoint Network is the largest independent digital media house from Pakistan, catering the needs of its users since year 1997. We provide breaking news, Pakistani news, International news, Business news, Sports news, Urdu news and Live Urdu News
© 1997-2025, UrduPoint Network
All rights of the publication are reserved by UrduPoint.com. Reproduction without proper consent is not allowed.