معاشرہ بدعنوانیوں کے شکنجے میں

ہفتہ 13 اپریل 2019

Mian Mohammad Husnain Kamyana

میاں محمد حسنین فاروق کمیانہ

 پاکستان میں تمام تر انسداد اور احتسابی کوششوں کے باوجود کرپشن کا ناسور تیزی کے ساتھ پھیلتا جا رہا ہے اس کی سب سے بڑی وجہ یہ ہے کہ معاشرے میں اخلاقی اقدار بہت تیزی کے ساتھ زوال پذیر ہو رہا ہے یہ ایک ایسا ناسور ہے جس نے پورے معاشرے کو اپنی لپیٹ میں لے رکھا ہے یہ وہ دیمک ہے جو اندر ہی اندر جسد قومی کو چاٹ رہی ہے اور یہ ایک ایسی دلدل بھی ہے جس سے نکلنے کی ہر کوشش بے سود ثابت ہوتی ہے پاکستان جن مسائل اور مصائب سے دوچار ہیں ان میں سے سب سے زیادہ سنگین مسئلہ کرپشن ہے جس نے نیچے سے لے کر اوپر تک معاشرے کو اپنی گرفت میں لے رکھا ہے لوٹ گھسوٹ کی روش نے معاشرے کے اخلاقی اقدار کو تباہ و برباد کر کے رکھا دیا ہے رات و رات امیر بننے کے جنون اور ایک دوسرے پر سبقت حاصل کرنے کی خواہش نے کرپٹ عناصر کوانتا مریض بنا دیا ہے کہ وہ دولت کے حصول کیلئے اپنا ایمان اور اپنا ضمیر تک بیچ رہے ہیں اور ملک کے قوانین کو اپنے پیروں تلے روند رہے ہیں بیشتربااثر افراد دونوں ہاتھوں سے قومی دولت لوٹ رہے ہیں اور کروڑوں اربوں روپے کے قرضوں کو ہضم کیے جا رہے ہیں تعمیراتی اور ترقیاتی اداروں میں کمیشن کا لا متناہی مسئلہ چل رہا ہے تحصیل و کچہریوں اور تھانوں میں رشوت کے بغیر کوئی کام نہیں ہوتا ہسپتالوں اور جیلوں میں کرپشن نے اپنے پنجے گاڑ رکھے ہیں زندگی کا کوئی شعبہ ایسا نہیں ہے جو کرپشن سے پاک ہو حتیٰ کہ کرپشن کی روک تھام کرنے والے ادارے بھی کرپشن میں ملوث ہیں ان اداروں کو وہ لوگ نظر نہیں آتے جو کھلم کھلا کرپشن کے ارتکاب کر کے محل تعمیر کر رہے ہیں اور دولت کے امبار لگا رہے ہیں اور عیاشیاں کر رہے ہیں دنیا کے 175ممالک میں سے پاکستان کرپشن جیسے ناسور میں 116 نمبر پر ہے یعنی دنیا کے 59 ج ممالک سے قدر بہتر ہے اس پر قومی احتساب بیورو کے چیئرمین جسٹس (ر) جاوید اقبال نے کہا ہے کہ نیب تر جیحی بنیادوں پر ملک سے بد عنوانی کے خاتمہ کیلئے پر عزم ہے بد عنوانی کو جڑ سے اکھاڑپھینکنے کیلئے بھر پور کوششیں کی جا رہی ہیں پر اوکاڑہ میں نیب نے مسلسل خاموشی اختیار کی ہوئی ہے اوکاڑہ میں بھی بعض کرپشن کے کنگ بیٹھے ہوئے ہیں جنہوں نے کرپشن میں تاریخ رقم کر رکھی ہیں اور وہ نیب کی نظر سے اوجہل ہیں احتساب بیورو کو چاہے کہ ان کو بھی احتساب کے عمل میں لاکر ان کا بھی احتساب کرناچاہے اور ان کو اوکاڑہ میں نشان عبرت بناہیں تاکہ اور کوئی اس ناسور کے بارے میں سوچے بھی نا جس طرح کرپشن کا مفہوم وسیع ہے اسی طرح اس کی تباہ کاریاں بھی بہت وسیع ہیں اس نے بڑے بڑے اداروں کو کھوکھلا کر دیا ہے کئی اداروں کا دیوالیہ نکال دیا ہے کرپشن کے خلاف بہت واویلہ ہو رہا ہے بڑے بڑے ہولناک اعدادوشمار سامنے لائے جا رہے ہیں بڑے بڑے دعوے کیے جا رہے ہیں بیشمار کرپشن کے خلاف اقدامات کیے جا رہے ہیں پر یہ سب وقت گزرنے کے ساتھ سب دعویٰ غلط ثابت ہو جاتے ہیں اور دن بدن کرپشن بڑھتی جار ہی ہے کرپٹ عناصر کی مفہوم سر گرمیوں میں اضافہ ہو رہا ہے اور دست احتساب مفلوج ہو رہا ہے اب یہ بات کھل کربھی سامنے آرہی ہے کہ کرپشن کا خاتمہ اُس وقت تک ممکن نہیں جب تک اس کو عام آدمی ختم کرنے کی کوشش نہیں کرے گا اس کو ہر کوئی ختم کرنا چاہتا ہے ہر کوئی اس کو ختم کرنے کا دعویٰ کرتا ہے پر کسی نے یہ نہیں سوچا کے اس کی کیا وجہ ہے جس کی وجہ سے اتنے اقدامات کرنے اور اتنی کوششوں کے باوجود کرپشن ختم نہیں ہو رہی بلکہ دن بدن بڑھتی جا رہی ہے اس کی ایک بڑی وجہ یہ بھی ہے کہ لوگوں کی اکثریت انسانیت زندگی کے حصول کیلئے ہر جائز ناجائز طریقہ اختیار کر رہی ہے اور صبر و شکر قناعت پسندی کے الفاظ حروف تحریروں اور تقریروں میں ملتے ہیں لیکن عملی زندگی میں ایسے جذبات کیلئے کوئی گنجائش نہیں ہے بہت سے لوگوں کیلئے زندگی کا یہ فلسفہ بہت کش رکھا ہے eat and dring because die tomorrow wellایسے لوگ زندگی کو صرف زندگی کے طور پر بسر کرتے ہیں اور زندگی کو زیادہ سے زیادہ پر لطف اور آسائش بنانے کیلئے تنگ و تاز میں مصروف رکھتے ہیں اس لئے انہیں کسی بھی اخلاقی قدر کا گلا گھوٹنا پڑے یاضمیر کو موت کی نیند سلانا پڑے اورانسانیت کی عظمت کا انحراف کرنا پڑے وہ اس سے کبھی بھی گریز نہیں کرتے ایسے لوگ صرف پیسوں اور تخت و تاج کو اہمیت دیتے ہیں اور تخت تاج کے ہی پوجاری ہوتے ہیں انسانیت سے ان کا کوئی تعلق نہیں ہوتا اللہ اور اُس کے رسول ﷺ کے احکامات کی انہیں کوئی پرواہ نہیں ہوتی ایسے لوگ جھوٹ منافقت اور مکرو فریب کا بیج بوتے ہیں اور مفادات کی فصل کاٹتے ہیں اس حقیقت کو قطعی طور پر فراموش کر دیتے ہیں کہ قرآن کریم میں ارشاد باری تعالیٰ ہے کے رشوت لینے اور دینے والے دونوں ہی جہنمی ہیں اور رشوت دینے والوں کا موقف یہ ہے کہ زندگی کی آسائشوں پر اُن کا بھی حق ہے وہ تقدیر اور وقت کو اس بات کی اجازت ہرگز نہیں دے سکتے کہ وہ انہیں زندگی کی آسائشوں سے محروم رکھیں رشوت دینے والے کا یہ موقف ہے کہ رشوت کے بغیر انہیں کوئی جائز ناجائز سہولت نہیں ملتی اس لئے رشوت دینا اُن کی مجبوری ہے رشوت دینے اور لینے والوں کا کوئی بھی موقف ہو کوئی بھی جواز ہو کوئی بھی بہانہ یا مجبوری ہو رشوت دینا اور لینا سراسر حرام ہے اس سے معاشرے میں بگاڑ پیدا ہوتا ہے اور بگاڑ سے معاشرے تباہ ہوتے ہیں اس وقت معاشرے میں جو فرسٹریشن اور نئی نسل کا اخلاق خرید رہے ہیں یہ لوگ اللہ کے بھی مجرم ہیں اپنے ضمیر کے بھی اور ملک و قوم کے بد ترین دشمن ہیں مشاہدیات میں یہ بھی بات سامنے آئی ہے کہ کرپشن کے فروغ میں اور ملک کی تباہ کاریوں میں سب سے بڑا ہاتھ بعض بااثرافراد اور سیاسی لوگوں کا بھی ہے جو بڑے سے بڑے افسران اور ایمان سے ایماندار کو کرپشن کرنے پر مجبور کرنے میں ماہر ہوتے ہیں کبھی ان کو نوکری سے فارغ کرنے تو کبھی ان کو تبادلے کی دھمکی لگا کر تو کبھی اُن کو پیسوں کا لالچ دے کر ان سے خود تو کروڑوں روپے کا ناجائزکام لیتے ہیں پران کو صرف چند پیسے دیئے جاتے ہیں اوروہ بھی صرف اس لئے کہ یہ دوبارہ بھی میرے کام کرے اور اگر نہیں کرے گا تو اس کو بلیک میل کر کے کام کرنے پر مجبور کروں گا اس افسر یا ملازم کو جو پیسے ملتے ہیں اس میں سے اس نے اپنے افسر کو اور جونیئر کو بھی حصہ دینا ہوتا ہے اور انہی پیسوں سے اُن کو بھی خوش کرتے ہیں جو ان کا آڈٹ کرتے ہیں ان کے پاس چند پیسے رہ جاتے ہیں اور سب سے بڑی بات یہ ہے کہ جو رشوت لے کر انہوں نے کام کیا ہوتا ہے اُس کی وجہ سے ساری سروس بلیک میل ہوتے رہتے ہیں دوسری طرف اب جس نے ان سے ناجائزکام کروایا ہوتا ہے چند روپے دے کر اس نے خود تو ان سے کروڑوں روپے کمائے ہوتے ہیں اب وہ صاحب سر پر ٹوپی رکھتے ہیں بڑی بڑی اُن کی داڑھی ہے شلوار اوپر ٹخنوں تک ہے اور پانچ وقت کے نمازی بھی ہیں اور معاشرے میں سب سے زیادہ ایماندار پرہیزگار اور سب سے زیادہ عزت دار ہونے کے دعویدار بھی ہیں جب تک سیاسی مداخلت ختم نہیں ہوتی کرپشن اپنے اُس وقت تک عروج تک رہے گی ہمارے ہاں ڈسٹرکٹ اوکاڈہ میں DC اوکاڑہ مریم خاں اور DPOاوکاڑہ اطہر اسماعیل صاحب نے کرپشن کو کم کرنے کیلئے متعدد اصلاحی سماجی تنظیمیں کرپشن کی روک تھام کیلئے عوام میں شعور پیدا کرنے کیلئے مختلف اقدامات اُٹھائے ہیں سرکاری سطح پر کئی اداروں کو کرپشن کے خاتمے کیلئے متحرک کیا ہے پرکچھ دل جلے تو یوں بھی کہتے ہیں کہ اس وقت کرپشن کی روک تھام کرنے والے اداروں میں بیشتر افراد کرپشن میں خود بھی ملوث ہیں کرپشن کی صورتیں اتنی مس ہو چکی ہیں کہ اب کرپشن روکنے والے اداروں اور کرپشن کرنے والوں کی شناخت آسانی سے نہیں ہو سکتی صوبائی محکمہ اینٹی کرپشن وفاقی تحقیقاتی ادارے اور قومی احتساب بیورو میں کئی ایسی مثالیں موجود ہیں جن سے بات واضح ہو جاتی ہے کہ ان اداروں میں ایسے افراد موجود ہیں جو کرپٹ عناصر کو تقویت اور تحفظ فراہم کرتے ہیں ضرورت اس بات کی ہے کہ معاشرے میں طبقاتی اونچ نیچ ختم کی جائے لوگوں کو روزگار اور ترقی کے مواقع فراہم کیے جائیں سیاسی مداخلت کو ختم کیا جائے قانون کی گرفت کو اسنہی بنایا جائے اور قانون شکن کو آہنی ہاتھوں سے لیا جائے معاشرے میں دینی اور اخلاقی اقدار بحال کرنے کیلئے خصوصی اقدامات کیے جائیں کرپٹ عناصر کو عبرتناک سزائیں دی جائیں اگر ہم ایسا کرنے میں ناکام ہوتے ہیں تو کرپشن ہمارے معاشرے کی بنیادوں کو کھوکھلا کر دے گی اور ہم سب اپنے ضمیر کی عدالت میں مجرموں کی طرح کھڑے ہوئے نظر آئیں گے ۔


ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :

متعلقہ عنوان :