خرابی کی جڑاور معاشی دہشت گرد

جمعرات 27 اگست 2020

Mian Muhammad Nadeem

میاں محمد ندیم

تو پھر تمہارے نزدیک مسلہ کی جڑکیا ہے؟ میری ایک دوست سے ”نظام“پر بات ہورہی تھی اس کا خیال تھا کہ خراب طرزحکومت ساری خرابیوں کی جڑہے مگر میری رائے اس سے مختلف میں چاہتا ہوں کہ سارے پاکستانی مل کر سوچیں اور تلاش کریں کہ خرابی کہاں پر ہے؟ کیونکہ جہاں تک حکومت کا تعلق ہے تو میرا یہ دعوی رہا ہے کہ اگر فرشتے بھی لاکر حکومتوں میں بیٹھا دیئے جائیں تو وہ بھی ڈیلیور نہیں کرپائیں گے اب اتنے بڑے دعوی کے پیچھے اتنی ہی بڑی اور قابل قبول دلیل کی ضرورت ہے ۔

میں پہلا شخص نہیں ہوں جو اس نتیجے پر پہنچا ہے بلکہ ابن انشاء ‘جالب‘فیض‘جون ایلیا‘احمدفراز‘منیرنیازی اور ساغرصدیقی سمیت بڑے بڑے اہل دانش دہائیوں پہلے یہ دہائیاں دیتے رہے کہ برائی کی جڑ”نظام“ہے اسیٹس کو ہے جس کے پنجے اتنے مظبوط ہیں کہ 73سالوں میں خان لیاقت علی خان سے لے کر عمران خان تک کوئی بھی سول یا فوجی حکمران اس کو نہیں توڑ سکا۔

(جاری ہے)

انگریزچلے گئے مگر ان کا” نظام“ آج تک آپ کو ہرشعبہ میں اپنے خونی پنجے گاڑے نظر آئے گا اور جو بھی اس ”نظام“کو چیلنج کرئے گا وہ ملک دشمن اور غدار کہلائے گا‘ایک عام سوچ ہے کہ میڈیا آزاد ہے 23سالہ صحافتی زندگی میں ہمیں میڈیا کی آزادی دکھائی نہیں دی پرنٹ میڈیا کے دور میں اشتہاروں اور ”اے بی سی“کے ذریعے اخباری مالکان اور ادارتی صفحات کو کنٹرول کیا جاتا تھا آج بھی وہی ہورہا ہے فرق صرف اتنا ہے اس زمانے میں بات ”اوپر“تک رہتی تھی مشرف دور سے ضمیروں کی منڈیاں کھلے عام سجنے لگیں ۔

مالکان اور ”وڈے“کالم نگاروں نے پی آر ‘پرنٹنگ‘لابنگ‘سرکاری ٹھکیوں کے لیے جعلی کمپنیاں بنالیں اور مشرف دور میں اگر یہ لوگ کروڑوں پتی بنے تو پیپلزپارٹی اور نون کے عہد حکومت میں یہ اربوں پتی بن گئے چونکہ ان کا شمار بھی” مقدس گائیوں“ میں ہوتا ہے لہذا ان کے خلاف نیب سمیت کسی ادارے کو تحقیقات کرنے کی جرات نہیں ہوئی کئی بڑے ”نیک باز“اینکرزاور تجزیہ نگار جب دوسروں کے بیرون ممالک اکاؤنٹس اور جائیدادوں کی بات کررہے ہوتے ہیں تو ہنسی آتی ہے کہ سب سے پہلے خود کو احتساب کے لیے پیش کرو اپنے اندرون وبیرون ممالک اثاثے اور اکاؤنٹس کو ظاہر کرو پھر ”نیک بازی“کا ڈھونگ کرو کھلے ۔

مشرف دور میں صرف سیاسی گھوڑوں کی منڈیاں ہی نہیں لگیں بلکہ پہلی مرتبہ میڈیا انڈسٹری میں اس طرح کھلے عام خرید وفروخت ہونے لگی جس کی نظیر پوری ملکی تاریخ میں نہیں ملتی رہی سہی کسر ”پیراشوٹر“اینکروں اور ناکام سیاسی ورکروں نے نکال دی جن کا صحافت سے دور دور تک کوئی لینا دینا نہیں نجی ٹیلی ویژن چینلزآنے کے بعد شاید پرانے ”دوستوں“پر بھروسہ نہیں رہا تھا لہذا دیگر شعبہ ہائے زندگی کی طرح سیاسی جماعتوں نے اپنے ورکرزکو بھرتی کروانا شروع کردیا ۔

بات سسٹم اور اسٹیٹس کو سے شروع ہوئی تھی چونکہ ہم نے پوری جوانی صحافت کو دیدی تو اپنے گھر کو ڈوبتے دیکھنے کا دکھ زیادہ ہوتا ہے‘نظام کیوں اور کیسے رکاوٹ ہے؟ اس کے لیے ایک مثال ہی کافی ہے کہ آپ اگر سکھی اور بھلی چنگی زندگی سے اکتاہٹ کا شکار ہوں تو سول کیس کرلیں یا بکری پال لیں دونوں ہی آپ کو دن میں تارے دکھا دیں گے ہمارا سول پینل کوڈ اور پورا نظام عدل ”کالونیل“عہد کے بنائے ڈھانچے پر کھڑا ہے ہم اس قدر نالائق واقع ہوئے ہیں کہ 73سالوں میں ہم اسے تبدیل نہیں کرسکے ۔

تعلیم‘صحت‘سیاست‘ریاست پورے نظام کے بنیادی ڈھانچے کا جائزہ لیں تو معلوم ہوگا کہ وہ گورے کے بنائے ”کالونیل“ڈھانچے پر کھڑا ہے اگست کا اختتام ہورہا ہے یہ وہ مہینہ ہے جس میں ہم ہر سال بڑے دھوم دھڑکے سے آزادی کا جشن مناتے ہیں اور ”براؤن صاحب“ہماری کم عقلی پر ہنس رہے ہوتے ہیں کیونکہ ان کے علم میں ہے آزادی صرف اس دو‘تین فیصد پر مشتمل اشرافیہ کو ہی ملی تھی گوراصاحب ”نظام“براؤن صاحب کے حوالے کرکے چلتا بنا تھا ملک کے 97/98فیصد عام شہری اس دو تین فیصد پر مشتمل اشرافیہ کے غلام ہیں تو کس آزادی کا جشن مناتے ہو؟ ۔

براؤن صاحب کی اولادیں ‘مال و دولت سب گورے صاحبوں کے ملکوں میں ہیں کیونکہ انہیں اس ملک پر اور سسٹم پر یقین نہیں ‘سیاسی اشرافیہ صرف الیکشن لڑنے کے لیے پاکستان آتی ہے اور انتخابات کے بعد واپس اپنے اصل ”وطن“کی راہ لیتی ہے‘ آپ کے تمام بڑے سرمایہ کاروں اور صنعت کاروں کی اپنے ملک سے زیادہ انویسٹمنٹ دوسرے ملکوں میں پڑی ہے کیونکہ انہیں بھی آپ کے سسٹم اور پالیسیوں پر اعتبار نہیں‘ہمارے سیاست دان ‘بیوروکریٹس ‘اعلی عدلیہ کے جج صاحبان یا جرنیل انہیں سسٹم میں ساری ”خرابیاں“ریٹائرمنٹ کے بعد نظر آتی ہیں آپ سارے ”ریٹائرڈ صاحبان کی کتابیں یا کالمزپڑھ لیں وہ سسٹم کی خرابیوں پر بات کرتے نظر آتے ہیں دوران اقتدار یا سروس یہ مزے لوٹتے ہیں جنہیں کنٹریکٹ ‘سفارت یا مشاورت مل جائے وہ تو ”بونس“کے مزے لیتے ہیں باقیوں کو ریٹائرڈ ہوتے ہی سسٹم کی خامیاں نظر آنے لگتی ہیں ۔

ایک دانشور قسم کے ریٹائرڈ اعلی بیوروکریٹ کی کتاب کی تقریب رونمائی میں ان سے سوال کی جسارت کربیٹھا کہ حضور جب آپ ”براؤن صاحب“کی زندگی کے مزے لوٹ رہے تھے اس وقت سسٹم میں خامیاں کیوں نہیں نظر آئیں؟ اور اگر خامیاں اس وقت بھی موجود تھیں تو آپ نے مستعفی ہوکر مثال کیوں نہیں قائم کی وہ دن آج کا دن انہوں نے مستقل طور پر میرا نمبر بلاک کردیا ۔

تو صاحبو!اگر ہم چاہتے ہیں ہمارا ملک بھی دوسرے ملکوں کی طرح مضبوط اور طاقتور ہو تو سب سے پہلا ہتھوڑا ہمیں ”کالونیل“عہد کے اس نظام پر مارنا ہوگا ”براؤن صاحب“کے اس کانچ کے محل کو چکنا چور کرنا ہوگا اس کے بغیر ہماری بقاء ممکن نہیں کیونکہ معاملہ اب ہماری بقاء تک آن پہنچا ہے عالمی معاشی دہشت گردوں سے چھٹکارا پائے بغیر ہم کچھ نہیں کرسکتے ”گورے صاحب“کی ایک رپورٹ میں بتایا گیا تھا کہ ایک عام پاکستانی شہری اپنی کل آمدن کا 40فیصد تک یوٹیلٹی بلوں اور30فیصد تک بچوں کی تعلیم پر خرچ کرتااب70فیصد تو صرف ان دو مدات میں خرچ ہوگیا ہے باقی30فیصد وہ خوراک ‘صحت ‘خوشی‘غمی پر خرچ کردیتا ہے اوسطا 99فیصد تنخواہ دار طبقہ ہر وقت قرض کے نیچے دبا رہتا ہے حکومتیں عالمی معاشی دہشت گردوں کی فرمائیشیں پوری کرنے کے لیے عوام پر بوجھ ڈالتی جاتی ہیں جو کہ موجود حکومت کے دور میں ناقابل برداشت ہوگیا ہے جبکہ رہی سہی کسر کورونا لاک ڈاؤنزنے نکال دی ہے ۔

چلتے چلتے ایک اور بات کہ کورونا وائرس کے پھیلاؤ کے بعد سے سوشل میڈیا پر دیکھنے سننے میں آیا ہے کہ عوام ماسک اور سینیٹائزر مہنگے داموں بیچنے کا سارا ملبہ اس غریب پر ڈال رہے ہیں جوکہ سرمایہ دارانہ نظام کی ظالم چکی میں خود بھی پس رہا ہے کبھی اس مسلمان کے ایمان کو کمزور کہا جا رہا ہے تو کبھی اسے ایک منافع خور بنا کر پیش کیا جا رہا ہے یہاں تک کہ ایک پوسٹ میں کہا گیا کہ ”اگر اذانیں دینے سے کام نہ چلے تو 100 روپے میں بیچا جانے والا ماسک 10 روپے میں بیچ کر دیکھنا، شاید فرق پڑ جائے میرے نزدیک اس کا تعلق مسلمان کے ایمان سے نہیں بلکہ سرمایہ دارانہ نظام کی پیدا کردہ فضا سے ہے کیوں کہ یہ وہی نظام ہے جو انسان کی بھوک مٹانے میں، انسان کی بنیادی ضروریات پوری کرنے میں سراسر ناکام ہو چکا ہے۔

یہ وہی نظام ہے جس نے امیر کو امیر سے امیر تر جبکہ غریب کو غریب سے غریب تر بنا دیا ہے۔اسی سرمایہ دارانہ نظام پر مبنی جمہوری حکومت نے لاک ڈاؤن کے ذریعے معیشت کا پہیہ مکمل جام کر دیا جس میں بڑے سرمایہ دار کو تو شاید خاص فرق نہ پڑے مگر غریب اور دیہاڑی دار انسان اور اس کے خاندان کو بھوکوں مرنے کے لیے بے یارو مددگار چھوڑ دیا گیا اور یہی وجہ ہے کہ وہ ماسک اور سینیٹائزر جیسی معمولی اشیاء نسبتاً مہنگی فروخت کر کے اپنے بھوک سے مجبور خاندان کا پیٹ پالنا چاہتا ہے یہ وہی نظام ہے جس نے انسان کو اللہ رب العزت کی غلامی سے نکال کر سرمایہ دار کی غلامی میں لا کھڑا کیا ہے۔

منفعت سرمایہ دارانہ نظام کا بنیادی اصول ہے جس کی بنیاد آزادی ملکیت کا تصور ہے کہ جس کے تحت ایک سرمایہ دار اندھی منافع خوری کے باعث ان املاک کا بھی مالک بن جاتا ہے جن کو اسلام ایک عام فرد کی ملکیت میں ہونے سے منع کرتا ہے جس پر یہ حدیث بھی دلالت کرتی ہے”بے شک مسلمان تین چیزوں میں برابر کے شراکت دار ہیں۔ پانی، چراگاہیں اور آگ۔ (آگ سے مراد توانائی کے تمام ذرائع جیسے معدنیات، کوئلے کی کانیں، تیل و گیس کے وسیع ذخائر، وغیرہ)۔

(ابو داؤد۔ 3477 )یہ حدیث ایک طرف تو ہمیں یہ بتاتی ہے کہ یہ تمام اشیاء پبلک پراپرٹیز ہیں اور ایک سرمایہ دار ان کا مالک نہیں بن سکتا دوسری جانب یہی حدیث عوامی املاک کی نجکاری کی نفی بھی کرتی ہے تو صاحبو!برائی کو اس کی جڑ سے پکڑو جب تک اس جڑ کو نہیں کاٹو گے تم فلاح سکتے ہو نہ عزت۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :

متعلقہ عنوان :