معاشی بدحالی کا شکار پاکستان

جمعہ 8 اکتوبر 2021

Mian Muhammad Nadeem

میاں محمد ندیم

پاکستان اور پاکستانیوں کی بدقسمتی ہے کہ آج تک سچ بولنے والا حکمران ہمارے نصیب نہیں ہواسارے جہاں کا درد ہماری حکومتوں کے دل میں ہوتا ہے ماسوائے اپنے ملک اور قوم کے 73سالوں میں کوئی ایک حکومت ایک ایسی ہے جو دعوی کرسکتی ہوکہ ان کی حکومت میں کرپشن نہیں تھی؟آج ہمارے محبوب وزیراعظم افغانستان اور دیگر بین القوامی امور پر چوکے چھکے مار رہے ہیں مگر ملک کا حال کیا ہے؟-گندم ‘آٹا‘چینی کی سرکاری قیمت پر فروخت میں پوری حکومتی مشنری بے بس نظرآتی ہے ملکی معیشت پر بلند وبانگ دعوے زمیں بوس ہورہے ہیں مرکزی بنک کے مطابق اگست 2020 سے اگست2021 تک حکومتی قرضوں میں 11.5 فیصد اضافہ ہوا ہے جبکہ بیرونی قرض (روپے کے لحاظ سے) 22-2021 کے پہلے دو ماہ میں 8 فیصد تک بڑھا ہے.

اسٹیٹ بینک آف پاکستان کی حکومت کے کل قرضوں کے بارے میں تازہ ترین رپورٹ کے مطابق بیرونی قرضوں میں بھی ایک سال کے عرصے 1300 ارب روپے کا نمایاں اضافہ ہوا ہے جس کی بنیادی وجہ مقامی کرنسی کے مقابلے میں امریکی ڈالر کی قدر میں اضافہ ہے تاہم مرکزی حکومت کے گھریلو قرضے میں جولائی سے اگست کی مدت میں 70 ارب روپے کا اضافہ ہوا جبکہ گھریلو قرضہ جون میں 26 ہزار ارب روپے سے بڑھ کر اگست میں 26 ہزار 335 ارب روپے تک ہوگیا.

10 ماہ میں پہلی مرتبہ اسٹیٹ بینک کی رپورٹ سے معلوم ہوا کہ مرکزی حکومت کے کل قرضے اگست میں 99 ارب روپے یعنی 0.2 فیصد کم ہوئے ہیں حکومت کے کل قرضوں میں ایک برس کے دوران 41 کھرب 11 ارب روپے کا اضافہ ہوا کیونکہ یہ اگست میں 39 ہزار 771 ارب روپے تک پہنچ گیا جبکہ اگست 2020 میں یہ 35 ہزار 659 ارب روپے تھا حکومت کی جانب سے جارحانہ قرضوں کے ساتھ بیرونی قرضوں میں اضافہ ہو رہا ہے لیکن اس کی ایک اہم وجہ امریکی ڈالر کے مقابلے میں روپے کی بے قدری ہے ڈالر کے مقابلے میں 7 مئی سے روپے کی قدر 11.5 فیصد سے زیادہ گر گئی ہے.

بیرونی قرض اگست 2020 میں 12 ہزار 123 ارب روپے تھا تاہم اگست میں یہ 10.8 فیصد بڑھ کر 13 ہزار 436 ارب روپے ہوگیا یعنی اس میں 13 کھرب 13 ارب روپے کا اضافہ ہوا حکومت پاکستان انویسٹمنٹ بانڈزکے ذریعے قرض لے رہی ہے تاہم گزشتہ دو ماہ کے دوران اس میں 464 ارب روپے کی کمی واقع ہوئی ہے. ادھرحکومت برآمدات کا ڈھونڈوراپیٹ رہی ہے مگر وفاقی ادارہ شماریات نے انکشاف کیا ہے کہ پاکستان کا تجارتی خسارہ سو فیصد بڑھ گیا ہے بیرونی تجارت کے شعبے میں موجودہ مالی سال کی پہلی سہ ماہی میں سو فیصد تجارتی خسارے کا سامنا کرنا پڑا ہے جبکہ تحریک انصاف کی حکومت نے ملک کی درآمدات میں کمی لانے کا اعلان کیا تھا تاکہ اس کے ذریعے تجارتی خسارے اور ملک کے جاری کھاتوں کے خسارے کو کم کیا جا سکے.

تاہم زرعی ملک ہوتے ہوئے حکومت تین سالوں میں خوراک میں خودکفالت کے لیے کوئی اقدام اٹھانے میں ناکام رہی ہے اور زرعی پیدوار کو بڑھانے کی بجائے ہرچیزکو درآمدکرنے کی پالیسی سے ایک طرف ملکی پیدوار متاثر ہوئی ہے تو دوسری جانب کاشت کاروں کی حوصلہ شکنی ہورہی ہے کیونکہ زرعی اجناس کی درآمدات بڑھانے کی حکومتی پالیسی سے مقامی کاشت کاروں کو فصلوں کے مناسب دام نہیں مل رہے.

اگرچہ گذشتہ مالی سال میں تحریک انصاف کی حکومت اس خسارے میں تھوڑی بہت کمی لانے میں کامیاب ہوئی تاہم موجودہ مالی سال کے آغاز سے درآمدات میں بہت زیادہ اضافہ دیکھنے میں آیا ہے جس سے تجارتی خسارہ بڑھنا شروع ہو گیا ہے. ماہرین کے مطابق تجارتی خسارے میں اضافہ ملکی معیشت کے لیے ایک خطرناک علامت ہے کیونکہ یہ خسارے جاری کھاتوں کے خسارے کو بڑھا کر شرح مبادلہ پر منفی اثر ڈالتا ہے جس کا براہ راست منفی اثر روپے کی ڈالر کے مقابلے میں کمی کی صورت میں نکلتا ہے.

ملکی کرنسی اس وقت ڈالر کے مقابلے میں بہت زیادہ دباؤ کا شکار ہے جس کی دیگر وجوہات کے علاوہ ایک سب سے بنیادی وجہ درآمدی بل میں اضافے کی وجہ سے ڈالر کی طلب میں بہت زیادہ اضافہ ہے جبکہ دوسری جانب ملکی برآمدات میں بہت ہی کم اضافہ دیکھنے میں آیا ہے. رواں مالی سال کی پہلی سہ ماہی میں ملک کی درآمدات میں بے تحاشا اضافے اور اس کی وجہ سے بڑھنے والے تجارتی خسارے کو ماہرین ایک خطرناک رجحان قرار دیتے ہیں ماہرین نے اسے ملکی معیشت کے لیے”ریڈ زون“ قراردیا ہے سرکاری اعداد و شمار کے مطابق جو تجارتی خسارہ گذشتہ سال کی پہلی سہ ماہی میں 5.8 ارب ڈالر تھا وہ موجودہ سال میں 11.6 ارب ڈالر تک بڑھ گیا ہے.

رواں برس کی پہلی سہ ماہی کے دوران جولائی سے ستمبر میں 18.63 ارب ڈالر کی درآمدات ہوئیں جو گذشتہ برس اس عرصے میں 11.2 ارب ڈالر رہیں، اور یہ اضافہ 65 فیصد سے زائد رہا دوسری جانب ملکی برآمدات میں بھی اضافہ ہوا تاہم ان میں ہونے والا اضافہ 27 فیصد رہا گذشتہ برس پہلی سہ ماہی میں برآمدات 5.47 ارب ڈالر تھیں جو اس سال کی سہ ماہی میں 6.9 ارب ڈالر رہیں.

واضح رہے کہ گذشتہ حکومت کے آخری مالی سال میں ملک کا تجارتی خسارہ ملکی تاریخ کی بلند ترین سطح پر پہنچ گیا تھا جب یہ 37 ارب ڈالر سے بھی تجاوز کر گیا تھا تحریک انصاف حکومت نے بتدریج اس میں کمی لانا شروع کی تھی اس حکومت کے پہلے مالی سال میں یہ خسارہ 31 ارب ڈالر، دوسرے مالی سال میں 23 ارب ڈالر رہا تھا. تاہم خسارے میں کمی کا یہ رجحان برقرار نہیں رہ سکا اور 30 جون 2021 کو ختم ہونے والے موجودہ حکومت کے تیسرے مالی سال میں یہ خسارہ ایک بار پھر 30 ارب ڈالر تک پہنچ گیا اور اس میں اضافے کا رجحان تسلسل سے جاری ہے.

پاکستان کے درآمدی شعبے میں ملک میں آنے والی مصنوعات کا جائزہ لیا جائے تو اس میں کھانے پینے کی چیزوں، تیل کی مصنوعات، گاڑیاں اور مشینری کی درآمدات میں بے تحاشا اضافہ دیکھا گیا ہے موجودہ مالی سال میں مصنوعات کے لحاظ سے درآمدات کا جائزہ لیا جائے تو صرف اگست کے مہینے میں ملک میں 66 ہزار میٹرک ٹن چینی درآمد کی گئی جب کہ گذشتہ اگست میں یہ صرف 917 میٹرک ٹن تھی.

اسی طرح70 فیصد سے زائد اضافہ گندم کی درآمد میں دیکھا گیا تو دوسری جانب پام آئل کی درآمد میں 120 فیصد اضافہ دیکھنے میں آیا ملک میں دالوں کی درآمد میں 84 فیصد اضافہ ہوا اور ملک میں چائے کی درآمد میں 24 فیصد اضافہ ہوا. دوسری جانب ملک میں تیل کی مصنوعات میں تقریباً 128 فیصد اضافہ دیکھنے میں آیا گاڑیوں کی درآمد میں دو سو فیصد سے زائد اضافہ دیکھنے میں آیا اسی طرح مشینری کی درآمدات میں بھی اضافہ ہوا موجودہ مالی سال کی پہلی سہ ماہی میں کورونا ویکیسن کی درآمد نے بھی درآمدات میں اضافہ کیا.

مجموعی طور پر معاشی صورتحال کا جائزہ لیں تو اقتصادی محاذپر تحریک انصاف کی حکومت کو شدیدمشکلات کا سامنا کرنا پڑرہا ہے امریکی ڈالر کے مقابلے میں روپے کی قدرمیں مسلسل گراوٹ ہو یا مہنگائی حکمران مسائل پر قابو پانے میں ناکام نظرآتے ہی جب حکمران گاڑیوں اور موبائل فونوں کی تعداد میں اضافے کو معاشی ترقی قراردیں گے تو اس پر صرف افسوس کا اظہار ہی کیا جاسکتا ہے.

وزارت خزانہ ہو یا حکومت کے دیگر معاشی منیجرانہیں شرم سے ڈوب مرنا چاہیے کہ ایک زرعی ملک ہوتے ہوئے ہمیں ٹماٹراور پیازجیسی معمولی اجناس درآمد کرنا پڑرہی ہیں آبادی میں اضافہ اپنی جگہ ہے مگر یہ ایک تاریخی حقیقت ہے کہ پنجاب پورے ہندوستان سمیت ایران‘افغانستان‘نیپال اور برما سمیت خطے کے کئی ممالک کو پالتا تھا جو نام نہاد ماہرین آبادی کو بنیاد بناکر اپنی نااہلی اور نالائقی کو چھپانے کی کوشش کرتے ہیں وہ یہ بھول جاتے ہیں کہ اس وقت فی ایکٹرپیدوارآج کے مقابلے میں دوفیصد بھی نہیں تھی.

یہ امرانتہائی خطرناک ہے کہ ہم اس شیطانی جال میں رضاکارانہ طور پر پھنس رہے ہیں جس کا مقصد دنیا میں خوراک اور پانی پر مکمل کنٹرول حاصل کرنا ہے وزیراعظم عمران خان سابق امریکی اعلی حکومتی اہلکار اور کئی کتابوں کے مصنف جان پرکنزکی کتاب”کنفیشن آف دی اکنامک ہٹ مین“ ضرورپڑھیں جان پرکنزکے مطابق وہ اس ادارے کا حصہ رہے ہیں جس کا مقصد ایسے ذرائع کا سراغ لگانا تھا جس آمدنی کبھی ختم ہونے والی نہ ہو جان پرکنزکے مطابق خوراک اور پانی پر عالمی کارپوریشنزکے قبضے کا فیصلہ1970کی دہائی کے آخرمیں ہوچکا تھا اور آج یہ منصوبہ حقیقت بن کر ہمارے سامنے موجود ہے.

سب کچھ کھلی کتاب کی طرح ہمارے سامنے ہے اگر ہم نے ہوش کے ناخن نہ لیے تو ہماری آنے والی نسلوں کے لیے پانی کا قطرہ بچے گا نہ اناج کا کوئی دانہ اس لیے ہمیں جنگی بنیادوں پر پالیسی تشکیل دینی ہوگی ہماری بدقسمتی ہے کہ پاکستان پر کالونیل عہد کی ذہنیت رکھنے والی سول اور ملٹری بیوروکریسی کا راج رہا ہے اور انہوں نے”بڑی محنت“سے پاکستان کو خودکفالت سے نکال کربدترین فوڈسیکورٹی کا شکار ممالک کی فہرست میں شامل کیا ہے جبکہ ملک کا زیرزمین پانی بڑی عالمی کارپوریشنزکے قبضے میں ہے اور حکمران ہو یا قاضی سب ان کے سامنے بے بس نظرآتے ہیں.

زرعی زمینوں کے حوالے سے ہمیں فوری قانون سازی کرنے کی ضرورت ہے جس کے تحت زرعی زمینوں اور جنگلات کو تحفظ فراہم کیا جائے امریکی قانون کے تحت لینڈکوڈکے تحت کوئی بھی شہری اپنی زرعی یا جنگلات کی زمین پر رہائشی کالونی تعمیرنہیں کرسکتا اور نہ ہی کسی اور استعمال میں لاسکتا ہے اگر وفاق اور صوبائی اسمبلیاں قانون بنادیں کہ زرعی زمینوں پر رہائشی کالونی بناکر ان کا اسٹیٹس تبدیل نہیں کیا جاسکتا تو ہم آنے والی تباہی سے بچ سکتے ہیں.

حکمرانوں کو سمجھ کیوں نہیں آتا کہ بنیادی ضروریات کا تحفظ سب سے پہلا کام ہے گاڑیاں ‘موبائل فون بنیادی ضروریات نہیں ہیں انسان کی بنیادی ضرورت خوراک‘پانی اور صاف ہوا ہے مگر ہم یہ تینوں چیزیں عام شہری کو فراہم کرنے میں ناکام ہیں اسے خوراک‘پانی اور ہوا ناقص اور مضرصحت مل رہی ہے اس پر کبھی کسی حکومت نے غور نہیں کیااس وجہ شاید یہ ہے ہمارے حکمرانوں کا عام شہری سے کبھی تعلق رہا ہی نہیں اور نہ ہی انہیں عام شہری کے مسائل کا ادراک ہوتا ہے.

درآمدی بل میں اضافے کی وجہ کھانے پینے کی چیزوں کے ساتھ مشینری، گاڑیوں اور تیل کی مصنوعات میں ہونے والا اضافہ ہے جبکہ پاکستانیوں کی آمدنی نہیں بڑھی کہ وہ زیادہ خرچ کر یں پاکستانیوں کی 2018 سے لے کر اب تک فی کس آمدنی میں کمی ہوئی ہے جو سال دوہزاراٹھارہ میں 1482 ڈالر تھی اورآج 1190 ڈالر تک گر چکی ہے یقینی طور پر یہ بات بھی حکومت میں شامل ”اعلی دماغوں“کے علم میں نہیں ہوگی.

حکومت نے گذشتہ مالی سال میں 31 ارب ڈالر کی برآمدات کا جشن منایا تاہم یہی بر آمدات 14-2013 کے مالی سال میں اتنی ہی تھیں اور اس کے بعد گرنا شروع ہو گئیں اگر اس وقت ڈالر کا ریٹ اور آج کے ریٹ کو دیکھا جائے تو اس کا مطلب ہے کہ پاکستان نے برآمدات میں کوئی ترقی نہیں کی. ہم پام آئل، گندم اور چینی تک درآمد کر رہے ہیں تو اس کا مطلب ہے کہ تجارتی خسارہ بڑھنا ہے اور اس کے ساتھ ساتھ ٹیکسٹائل کے شعبے کو مراعات دے کر میشنری زیادہ درآمد کی جا رہی ہے جو ہر کچھ سال کے بعد کیا جاتا ہے جس سے وقتی طور پر تو کچھ فائدہ ہوتا ہے لیکن یہ عمل پائیدار نہیں ہوتا.

تجارتی خسارہ کسی بھی ملک کی معاشیات کے لیے ”ریڈ زون“ ہوتا ہے مگر وزیراعظم صاحب شوکت ترین کو سینیٹربنوانے کی فکر میں ہیں کیونکہ عالمی معاشی ادارے قرض دار ملکوں پر اپنے معاشی منیجرمسلط رکھنا چاہتے ہیں اب حکومت اس حقیقت کو مانے یا نہ مانے کہ شوکت ترین کو سینیٹربنواکرمستقل طور پر وزیرخزانہ مقررکرنا آئی ایم ایف اور ورلڈ بنک جیسے اداروں کی ”فرمائش“ہے .

تجارتی خسارے کو کم کرنے کے حوالے سے تحریک انصاف حکومت کے سارے دعوے فقط سوشل میڈیا پر ہیں اور یہ ان کی خواہش تو ہو سکتی ہے لیکن عملی طور پر ان کے پاس کوئی مربوط اور جامع حکمت عملی نہیں نتائج دیکھ کر اندازہ لگایا جاتا ہے کہ یہ حکومت اس محاذ پر کتنی کامیاب ہے اور یہ نتائج یہی کہہ رہے ہیں کہ تجارتی خسارہ کم کرنے کے لیے حکومت کے پاس کوئی حکمت عملی نہیں.

اگر صرف تین مہینے میں تجارتی خسارہ تقریباً 12 ارب ڈالر کا ہے تو اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ سال کا اختتام کتنے بڑے تجارتی خسارے کی صورت میں نکل سکتا ہے . تجارتی خسارہ جی ڈی پی کے مقابلے میں تین فیصد رہے تو یہ پریشانی کی بات نہیں کیونکہ معیشت میں گروتھ اور کھپت کے لیے درآمد بھی کرنا پڑتا ہے تاہم اگر چار فیصد اور اس سے زائد ہونا شروع ہو جائے تو یہ ملکی معیشت کے لیے خطرے کی علامت ہے اس بار”کڑوی گولی“عوام کو نہیں حکمرانوں کا نگلنا پڑے گی اور شاہانہ اخراجات کم کرنا ہونگے اسی طرح خصوصی نشستوں کا تصور صرف ہمارے ہاں پایا جاتا ہے جوکہ قومی خزانے پر ایک بڑا بوجھ ہے حکومت جرات کا مظاہرہ کرئے اور ہرطرح کی خصوصی نشستوں کو ختم کیا جائے اسی طرح جیسے سینیٹ کے چور دروازے سے شوکت ترین صاحب کوداخل کرنے کی کوشش کی جارہی ہے اس کو روکنے کے لیے سینیٹرکا انتخاب بھی رکن قومی وصوبائی اسمبلیوں کی طرح عوام کے براہ راست ووٹ سے ہونا چاہیے آخرمیں اگرحکومت نے زرعی زمینوں اور کسانوں کے تحفظ کے لیے فوری اقدامات نہ اٹھائے تو ہمیں ایسے بحرانوں کا سامنا کرنا پڑے گا جن کا ہم تصور بھی نہیں کرسکتے�

(جاری ہے)


ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :