پاکستان دنیا میں ماحولیاتی تبدیلیوں کے شدید خطرات سے دوچار سرفہرست تین ممالک میں سے ہے ماحولیاتی تبدیلیوں سے ہمارے گلیشئرزتیزی سے پگھل رہے ہیں اور پہاڑوں پر برفباری کے ”پیٹرن“میں بھی نمایاں تبدیلیاں نوٹ کی گئی ہیں کچھ سالوں سے اگر ملک کے کچھ حصوں میں شدید بارشیں تباہی مچاتی ہیں تو کچھ حصے شدید ترین خشک سالی کا شکار رہتے ہیں ایک زرعی ملک ہوتے ہوئے پاکستان کو خوراک کے معاملے میں بھی چیلنجزکا سامنا ہے-رواں سال کے دوران پنجاب کا صوبائی دارالحکومت لاہور دوبار دنیا کے آلودہ ترین شہروں کی فہرست میں پہلے نمبر پر رہا یکم نومبر کو شہر میں اوسط آلودگی 397ریکارڈ کی گئی جو کہ دنیا کے تمام بڑے شہروں کے مقابلے میں سب سے زیادہ تھی ان دنوں ہواؤں کا رخ چونکہ مغرب سے مشرق کی طرف ہے لہذا بھارت سے آنے والی”اسموگ“ کی آمیزش کا کوئی امکان نہیں اور ماہرین کا بھی کہنا ہے کہ یہ خالصتا فضائی آلودگی ہے جس میں اسموگ کی آمیزش بالکل نہیں پائی گئی- یکم نومبر کی صبح ہوا میں نمی کا تناسب ساٹھ فیصد تھالہذا دھند کا بھی امکان نہیں ہوا میں اتنی زیادہ آلودگی کے دوران اگر ہواؤں کا رخ بدل کرمشرق سے مغرب کی جانب ہوگیا تو بھارت سے آنے والی اسموگ کی آمیزش سے صورتحال مزید تشویشناک ہوجائے گی تقریبا ایک دہائی قبل جرمن ماہرین کی ایک ٹیم نے پاکستان کے کلشیئرزکا معائنہ کرکے جو رپورٹ مرتب کی تھی وہ انہتائی خوفناک تھی رپورٹ میں بتایا گیا تھا کہ ہمارے گلیشئرزبہت تیزی سے پگھل رہے ہیں یعنی ہمارے میٹھے پانی کے قدرتی ذخائربڑی تیزی سے ضائع ہورہے ہیں مگر اس دوران کسی بھی حکومت نے اس تباہی کو روکنے کے لیے ٹھوس اقدامات نہیں کیئے-ایک عرصے سے موحولیات اور موسمیاتی تبدیلیاں میرا موضوع رہی ہیں اور لگ بھگ دودہائیوں سے میں ہوس زرکا شکار حکمران اشرافیہ کی توجہ اس جانب مبذول کروانے کی کوشش کررہا ہوں کہ اگر ہم زرعی زمینوں کو برق رفتاری سے رہائشی کالونیوں اور شہروں کو کنکریٹ اور گاڑیوں کے جنگلوں میں بدلتے رہیں گے تو اس کے نتائج انتہائی ہلاکت خیزہونگے سیاسی جماعتیں ہوں یا فوجی حکومتیں سب نے اس تباہی میں بڑھ چڑھ کرحصہ ڈالا ہے کسی نے بھی اس تباہی کے آگے بندھ باندھنے کی کوشش نہیں کی -بڑے شہر قابو سے باہر ہورہے ہیں جبکہ دیہات اور کھیت ‘کھلیان ویران اور 1919کے” گورنمنٹ آف انڈیا ایکٹ“کے تحت کام کرنے والی حکومتیں اور انتظامی ڈھانچہ ”کوئی یا جیئے کھسرا گھول پتاشے پیئے“ کی مثال پر فٹ بیٹھتا نظرآتا ہے کیونکہ پاکستان کی حکومتی اشرافیہ اور انتظامی ڈھانچے کے کل پرزوں کا ”دیس “آج بھی سات سمندر پار ہے چاہے وہ سول ہوں یا ملٹری میں پھر اپنے پرانے سوال کو دھرانا چاہتا ہوں کہ جب پینے کو پانی اور کھانے کو اناج کا دانہ بھی نہیں ہوگا تو عام شہری جن کا ملک پاکستان ہی ہے اور ان کے پاس ”اختیاری وطن“کی سہولت بھی نہیں وہ ان بڑی بڑی رہائشی کالونیوں‘جدیدٹرینوں‘فلائی اوورزاور انڈرپاسوں کو چاٹیں گے ؟یا درآمدشدہ گاڑیوں کو پکا کر کھائیں گے؟ہماری حکومتیں اور محکمے یہ کہہ کرجان چھڑوانے کی کوشش کرتے ہیں کہ بھارت اور چین کی فضائی آلودگی ہمیں متاثرکررہی ہے یقینا یہ ایک حقیقت ہے مگر اس بات کو نظراندازکردیا جاتا ہے کہ 1980کی دہائی میں بھی نہ صرف چین اور بھارت بڑی مقدار میں گرین ہاؤس گیسیں پیدا کررہے تھے بلکہ ہماری مقامی صنعتیں بھی پوری رفتار سے چل رہی تھیں مگر صورتحال اس قدر خراب نہیں تھی جتنی آج ہے کیونکہ اس وقت بڑے شہروں کے گرد نواحی دیہات قائم تھے‘درختوں کی بہتات تھی جبکہ آج کے مقابلے میں گاڑیاں نہ ہونے کے برابر تھیں -ہمیں تسلیم کرنا ہوگا کہ حکمران اشرافیہ کی ہوس زرنے پورا کلچربدل کررکھ دیا رہائشی کالونیاں نواحی دیہاتوں‘جنگل‘بیلوں اور درختوں کو نگل گئیں رہی سہی کسرمشرف دور میں کارفناسنگ پالیسی نے نکال دی آج ماہرین اس بات کو تسلیم کررہے ہیں کہ گاڑیاں کسی طور پر بھی صنعتوں سے کم آلودگی پیدا نہیں کررہیں مگر ہماری حکومتیں اور ان کے ”بنک کار“مشیران کسی طور اس حقیقت کو تسلیم کرنے کے لیے تیار نہیں یہ ایک بڑی سادہ سی سائنسی حقیقت ہے کہ جو بھی مشین کسی فیول یا بجلی سے چلتی ہے وہ درجہ حرارت میں ہونے والے اضافے میں اپنا حصہ ڈالتی ہے ایئرکنڈشنراگر کمرے یا عمارت میں ٹھندک پیدا کرتے ہیں تو فضامیں وہ اس ٹھنڈک کے مقابلے میں کئی گنا زیادہ گرمائش چھوڑتے ہیں اسی طرح گاڑیاں ہیں جو بیک وقت کئی طرح کی خطرناک کیسوں کا امتزاج فضامیں خارج کرتی ہیں ایسے میں سوال پیدا ہوتا ہے کہ ہم کب تک خود سے جھوٹ بولتے رہیں گے ؟کب تک خود کو دھوکا دیتے رہیں گے؟گورنراسٹیسٹ بنک نے لاجک دی تھی کہ ڈالر کے مہنگا ہونے سے تارکین وطن پاکستانیوں کے خاندانوں کو فائدہ ہورہا ہے اسی طرح کی لاجک ہمارے حکمران اور ادارے دیتے آئے ہیں کہ کالونیاں بنانے اور گاڑیوں کی پیدوار اور درآمد سے کچھ لوگوں کو فائدہ بھی تو ہورہا ہے یعنی دو‘چار فیصد اشرافیہ کے لالچ اور ہوس کا خمیازہ باقی کے پچانوے‘چھیانوے فیصد عوام کے مقدر میں لکھ دیا گیا ہے -وزیراعظم ماحولیات کے حوالے سے اقدامات گنواتے نہیں تھکتے وہ ذرا وفاقی دارالحکومت کا انیس سو اسی کا دہائی کا نقشہ منگوائیں اور دیکھیں کہ لاکھوں مربع ایکٹرسے جنگل اور پہاڑتک غائب کردیئے گئے ہیں وزیرخارجہ شاہ محمود قریشی کے آبائی ضلع ملتان کے ضلع میں بھی لاکھوں ایکٹرزپر پھیلے باغات پر آج رہائشی کالونیاں بنی ہوئی ہیں ملتان کے باغات کے قتل عام کی بھی شاید کسی کو کانوں کان خبرنہ ہوتی اگر ہائی کورٹ کے سامنے ایک کیس کے دوران یہ حقائق سامنے نہ آتے-باغات کا شہر لاہور آج کوڑے‘گردوغبار اور آلودگی سے بھرا شہر بن چکا ہے کیونکہ لاہور کے نواح میں کہیں پر بھی سبزہ نہیں رہنے دیا گیا اور تمام نواحی دیہات کو بڑی بڑی طاقتور رہائشی کالونیاں نگل چکی ہیں میں نے اپنے گھر کے گرد نیم‘دھریک‘بکائن وغیرہ کے درخت لگائے ہوئے ہیں ا ن کے پتوں پر سال بھر دھول کی موٹی پرت جمی رہتی ہے قسمت سے کبھی بارش ہوجائے تو تھوڑی دیر کے لیے خوبصورت سرسبز پتے نظرآنے لگتے ہیں مگر چند ہی گھنٹوں میں دوبارہ گرد سے اٹ جاتے ہیں-حکمرانوں کے ساتھ ساتھ یہ ہماری بھی ذمہ داری ہے کہ ہم اپنے بچوں کے مستقبل کو بچانے کے لیے کچھ آسائیشوں کو قربان کریں یہ کلچرعام ہوگیا ہے کہ پچھلی گلی تک بھی جانا ہے تو گاڑی یا موٹرسائیکل نکالی جاتی ہے ان چیزوں کو صرف انتہائی ضرورت کے تحت استعمال کریں‘شجرکاری کو فروغ دیں ‘شہروں کے گرد ونواح میں جو علاقے”کالونی مافیا“کا شکار ہونے سے بچ گئے ہیں انہیں بچائے رکھنے کے لیے ہر جگہ آوازبلند کریں اپنے منتخب اراکین پارلیمان کو خطوط لکھ کر بار بار یاد دہانی کروائیں کہ وہ آپ کے علاقے میں پارکوں اور درختوں کے لیے مختص علاقوں میں اضافے کے لیے کوشش کریں اور اس سلسلہ میں انہیں احساس دلائیں کہ وہ اپنے حلقے کے عوام کو جواب دہ ہیں -
ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔