الوداع۔(پہلا حصہ)

جمعرات 10 فروری 2022

Mian Muhammad Nadeem

میاں محمد ندیم

بہت دنوں کی غیر حاضری کے بعد لکھنے بیٹھا تو کافی دیر تک اس سوچ میں رہا کہ کس موضوع پر لکھا جائے ‘سیاست؟عالمی منظرنامہ؟معاشیات؟سماجی مسائل؟ادب؟صحافت؟ پڑھنے والے جانتے ہیں کہ جب کالم میں وقفہ زیادہ ہوجائے تو پھر ”متفرقات“کا سہارا لیتا ہوں ۔دسمبر ‘جنوری لاہور پریس کلب کے انتخابات کی نذر ہوگئے جبکہ فروری کے آغاز میں کچھ بڑے صدمات سے گزرنا پڑا ساجد عمر گل کی اچانک وفات سے ہم دوست سکتے کی کیفیت میں تھے استاد محترم شجاع الدین صاحب ‘برادرم شہزاد فاروقی (ایڈیٹرنوائے وقت اسلام آباد) نے ایک دن کے وقفے سے ساجد گل کے بارے میں لکھا تو آغازساجد گل سے ہی کرتا ہوں ۔

ایک زمانہ تھا جب ستار چوہدری اسلام آباد کو پیارا نہیں ہوا تھافاروقی کے لاہور صرف ”ٹرانزٹ“تھا پاکپتن اور اسلام آباد کے درمیان اب یہ ”ٹرانزٹ “ بھی نئی سٹرکیں اور موٹروے بننے کے بعدتقریبا ختم ہوگیا ہے اس نے لاہور میں ایک دہائی سے بھی کم عرصہ گزارا ‘اس کے بعد اسلام آباد ہجرت کرگیا لہذا شہزاد فاروقی کی شرکت اسی صورت ممکن ہوتی جب وہ لاہور آتا ٹیمپل روڈ پر ”یاکو“کا ہوٹل لاہور کے صحافیوں کا قدیمی ڈیرا ہوا کرتا تھا پھر جس طرح میڈیا ہاؤسزکے دفاترشہر کے مختلف حصوں میں منتقل ہوتے گئے اسی طرح صحافیوں کے نئے ڈیرے بننے لگے ”یاکو“کے ہوٹل کے بعد مزنگ چونگی پر دوسرا بڑا ڈیرہ ہوتا تھا آج ان میں سے بیشتر ڈیرے ویران ہوچکے ہیں وہاں محفلیں جمانے یا تو اب ا س دنیا میں رہے یا زندگی میں اتنے مگن ہوگئے ہیں کہ وقت ہی نہیں نکال پاتے ۔

(جاری ہے)

پرانی بات ہے ایک دوست نے فون کیا کہ ایک بچہ اپنی یونیورسٹی کی اسائنمنٹ کے لیے تمہارا انٹرویو کرنے آئے گا سنبھال لینا اگلے روزدفتر پہنچا تو ایک نوجوان کیمرے سے لیس انتظار کررہا تھا گفتگو شروع ہوئی تو میں نے”خیالات کے اظہار“میں صحافیوں کے پرانے ڈیروں کا تذکرہ بھی کردیاتو اس نے ”دہشت زدہ“ہوکر بولا علمی بحثیں فٹ پاتھوں اور تھڑوں پر؟علمی بحثیں ہی نہیں بلکہ ادبی اور فلسفیوں کی مجلسیں بھی وہیں سجتی تھیں کہ اس دور میں ”براہمن“اہل علم وہنر کی تعداد آٹے میں نمک کے برابر تھی ۔

اگرچہ وہ اہل علم ودانش ہونے کے دعویدار تھے مگر عوامی سطح پر فٹ پاتھیوں اور تھڑوں پر بیٹھنے والے ہی عوام میں قبولیت کی سند پاتے کیونکہ وہ ان کی زبان میں ہی ان کے مسائل پر بات کرتے‘صحافیوں میں بھی خود کو معاشرے کے ”اعلی دماغ“ طبقہ سمجھنے کی وبا عام نہیں ہوئی تھی۔وحدت روڈ کے شیخ صاحب برگرکارنر پر شجاع صاحب نے ڈیرہ آباد کیا تو سارے ”مریدین “ بھی وہاں پہنچ گئے مجاہد اقبال صاحب‘میاں عابد‘طالب بھٹی‘نعیم نیازی‘زاہد چوہدری‘عامروقاص چوہدری ‘ستار چوہدری اور ناچیزاس آستانے سے مستقل طور پر وابستہ تھے ‘رانا سیف مہمان اداکار تھا خانگی ذمہ داریوں کی وجہ سے اسے روزانہ حاضری سے استثنی حاصل تھا جس دن شبیرمغل صاحب کی شفٹ جلدی ختم ہوتی اس رات وہ بھی تشریف لے آتے ۔

شجاع صاحب بیک وقت پانچ‘چھ سیگریٹ سلگاتے اور مریدین میں تقسیم کرتے جاتے ساجد ٹھیک ہی کہتا تھا ”پیر جی آپ کے ہاتھ کے سیگریٹ کا سرور ہی کچھ اور ہوتا ہے“ شجاع کی بے پناہ محبت اور شفقت اس سگریٹ کے سرورکو دوآتشہ کردیتی تھی ان کی میٹھی مسکراہٹ اور شگفتہ گفتگو سے ہم قلم مزدوروں کی دن بھر کی تھکان جاتی رہتی۔پوہ کی شدید سرد راتوں میں جب ہر سو گہری دھند کا راج ہوتا تو مجال ہے شیخ صاحب خشک لکڑیاں ختم ہونے دیتے انہوں نے رضاکارانہ طور پر ڈیرے کی ”انتظامی“ ذمہ داریاں لی ہوئی تھیں پھر ساجد گل بھی اس آستانے سے وابستہ ہوگیا ستار چوہدری محفل کو گرمائے رکھتا تھا دنیا کا کوئی ہی موضوع شاید ایسا ہوگا جس کی مناسبت سے اس کے پاس لطیفے نہ ہوں اس وقت تک ساجد کی دوسری شادی نہیں ہوئی تھی تو ہفتے کے کچھ دن محفل اس کے گھر منتقل ہوجاتی ساجد کے گھر محفل میں ہارون اپل بھی آجاتے یار لوگ کارڈ کھیلتے جو پلے کبھی نہیں پڑے تو ہم واحد تماشائی ہوتے نعیم نیازی نے ایک آسان سی کارڈ گیم سکھائی مگر مشکل یہ تھی کہ وہ ہر بار گیم کے ”رولز“موقع کی مناسبت سے تبدیل کرکے مجھے ہرا دیتا۔

یہ گھروں میں کھانوں کی ڈیلیوری سے پہلے کا زمانہ تھا لہذا رات گئے بھوک لگتی توواحد آپشن خود کھانا بنانا ہوتا تھا وحدت روڈ والے ڈیرے کے آس ‘پاس کھانے کو کچھ نا کچھ مل ہی جاتا تھا شیخ صاحب کے شامی برگر کا آپشن تو گھر والی بات ہوتی تھی مگر ساجد کے گھر نواح میں ایسی کوئی سہولت دستیاب نہیں تھی ایک تندور غنیمت تھا جہاں سے روٹیاں مل جاتی تھیں سالن خود بنا لیتے تھے کوئی پیازکاٹ رہا ہوتا تو لہسن چھیلتے کسی فلسفی کے اقوال پر بحث کررہا ہوتا ۔

سردیوں کی ایک رات یار لوگ کارڈ کھیل رہے تھے اور میں کاغذقلم پکڑے پوائنس نوٹ کررہا تھا کہ نجانے کس نے زاہد چوہدری کے ساتھ بلدیات کے نظام پر بحث شروع کردی جو اگلے دن دوپہر 2بجے کے قریب ختم ہوئی وہ بھی نامکمل یہ ایک چھوٹی سی دنیا تھی جس میں ہم رہتے تھے مگر وقت بدلنے لگا جس کی شادی ہوجاتی وہ غائب ہوجاتا یوں یہ محفل آہستہ ‘آہستہ ویک اینڈ محفلوں میں بدلنے لگیں ‘ستار چوہدری‘طالب بھٹی اور نعیم نیازی بچوں کو لاہور لے آئے تو غیرشادی شدگان میں سے عامروقاص چوہدری کا سب پہلے نمبر لگا اس کے بعد زاہد چوہدری کا اور سب سے آخرمیں ناچیزکا ۔

خانگی مصروفیات کیا ہوتی ہیں اس کا پتہ ہمیں بھی شادی کے بعد چلا کہ ”اک آگ کا دریا ہے اور تیرکے جانا ہے“یہ وہ دن تھے جب ایک محفل سے اختلاف کرکے اٹھتے تو اگلی رات یاد بھی نہیں ہوتا تھا ہم تو وہی ہیں شاید وقت بدل گیا ہے کہ آج اختلاف کو یار لوگ ماننے پر ہی تیار نہیں ‘آج ہر کوئی ایک کال کے فاصلے پر ہے مگر ہمارے پاس ایک کال کا بھی وقت نہیں ساجد سے آخری ملاقات اس کی ناگہانی موت سے محض دو روز قبل ہوئی میں پریس کلب کے کیفے ٹیریا میں کھانا کھانے کے لیے داخل ہورہا تھا اور وہ باہر نکل رہا تھا معمول کی چھیڑچھاڑ والے جملوں کا تبادلہ ہوا اور پھر ”میں پانچ منٹ میں آیا“کہہ ایسا گیا کہ دو دن بعد جب سونے کی تیاری کررہا تھا تو میاں عابد صاحب نے کال کرکے اس کی موت کی المناک خبر سنائی۔

میرے گھر کی دیوار پر زنیرہ بھابھی کی بنائی پینٹنگ لگی ہے ساجد ایک بار بھابھی کے ساتھ غریب خانے پر آیا تو زنیرہ بھابھی میری اہلیہ کے لیے اپنی ایک پینٹنگ لے آئیں گھر چھوٹا ہے کئی دن تک پینٹنگ لگانے کے لیے جگہ دیکھتے رہے پھر امی کے صوفہ کم بیڈکے سامنے والی دیوار ہمیں سب سے مناسب لگی لہذا وہ پینٹنگ آج تک وہیں لگی ہے اماں پوچھتی ہیں تم اب میرے پاس نیچے کیوں نہیں بیٹھتے انہیں کیسے بتاوٴں کہ ان کی نشست کے سامنے کی دیوار پر لگی پینٹنگ مجھے بیٹھنے نہیں دیتی۔

۔۔دوستوں میں ناراضگی ہوجاتی ہے مگر اتنی بھی نہیں انسان صدیوں کے منصوبے بناتا ہے ‘دنیا میں اتنا مگن ہوجاتا ہے کہ ازلی حقیقت کو بھلا بیٹھتا ہے کہ ایک دن ہم سب نے جانا ہے کب؟کیسے؟کہاں یہ سب مالک ہی جانتا ہے ہمیشہ زندہ صرف اسی کی ذات ہے باقی ہر چیزکو فنا ہوکے رہنا ہے--جاری ہے ۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :