ریاست مدینہ:پاکستان‘نظام اور حکمران۔قسط نمبر1

جمعہ 22 اکتوبر 2021

Mian Muhammad Nadeem

میاں محمد ندیم

گورنرا سٹیٹ بینک رضا باقر نے کمال کے بیان نے ماہرین معاشیات کے بھی ہوش اڑا دیئے ہیں کہ ڈالر کی قیمت بڑھنے سے کچھ لوگوں کو نقصان اور کچھ کو فائدہ ہو رہا ہے ان کا فرمانا ہے کہ ڈالر کی قیمت بڑھنے سے جن لوگوں کو فائدہ ہو رہا ہے ان کو نہیں بھولنا چاہیے‘بیرون ملک پاکستانی جب اپنے گھروالوں کو پیسے بھیجتے ہیں تو ڈالر کی قیمت اوپر جانے سے ان کے پیسے بڑھ جاتے ہیں دوسرا انہوں نے دعوی کیا تھاکہ ایف اے ٹی ایف گرے لسٹ سے نکل جائیں گے مگر اس کے اگلے روزہی ایف اے ٹی ایف نے ”مزید محنت کرو“ کہہ کرپاکستان کو گرے لسٹ برقراررکھنے کا اعلان کردیا-اس پر عوام اور ماہرین کا پریشان ہونا فطری بات ہے کیونکہ جن لوگوں کے ہاتھوں میں ملکی معاشیات ہیں انہیں عام آدمی کے مسائل اور ملک کو پہنچنے والے نقصان سے کوئی سروکار نہیں اس بیان پر کم ازکم جو ایکشن بنتا ہے وہ یہ کہ وزیراعظم یہ ”تحفہ“شکریے کے ساتھ آئی ایم ایف کو واپس لٹا دیں اور گورنراسٹیٹ بنک کے اہم ترین عہدے پر کسی ایسے شخص کو تعینات کیا جائے جسے بنیادی معاشیات کا علم ہو -پاکستان میں آج تک تمام حکومتیں‘سیاسی ومذہبی سیاسی جماعتیں عوام کو اس بات پر قائل کرتی آئی ہیں کہ دیکھو”نظام“بڑی نازک شے ہے اس کو ہر حال میں بچانا ہے چاہے ملک وقوم تباہ ہوجائیں آخر نظام ہے کس بلا کا نام ؟جو کہ شیشے سے بھی زیادہ نازک ہے اور دین ایمان سب کچھ سے مقدم اور افضل قرارپاتا ہے یہ برطانوی سامراج کے تسلط میں ہندوستان میں نافذکیا جانے والا1919 کا ”گورنمنٹ آف انڈیا ایکٹ“ہے جس پر یہ سارا ”مقدس نظام“کھڑا ہے برطانوی پارلیمان نے اس ایکٹ کی منظوری 23دسمبر1919میں دی اس قانون کو ایسٹ انڈیا کمپنی ایکٹ 1773تا1784 بنیادیں فراہم کرتا ہے جس کا مقصد برصغیرپاک وہند کے لوگوں کو غلامی کے شکنجے میں جکڑکررکھنا تھا-قیام پاکستان کے بعد جتنے بھی آئین وجود میں آئے ان کی عمارت اسی ”مقدس قانون“ کی بنیادوں پر کھڑی کی گئی حتی کہ1973کے” متفقہ آئین“ کا جائزہ لیں تو اس کی عمارت بھی ”گورنمنٹ آف انڈیا ایکٹ“پرکھڑی ہے ملک میں رائج قوانین بھی دوسوسال سے زائد قدیم کالونیل عہد کے ہیں عام شہریوں کا جن معاملات سے واسط پڑتا ہے ان میں پولیس‘کچہری‘پٹواری‘زمین وجائیدادکے معاملات‘بلدیاتی ادارے وغیرہ کے قوانین بھی اسی دور کے ہیں جوآج تک رائج ہیں وفاقی تحقیقاتی ادارے(ایف آئی اے)کا قیام 1974کوعمل میں آیا مگر تحقیقات کے لیے اس کی بنیاد1898کا کریمنل پروسیجرکوڈ ہے اور اسی قانون کے تحت پولیس تحقیقات کرتی ہے-یہ انتہائی پیچیدہ کھیل آسانی سے سمجھ آنے والا نہیں لہذا آگے عام فہم زبان ہی استعمال کرونگا مگر اس پیچیدہ کھیل اور اس کی ”تقدیس“سے پردہ اٹھانے کے لیے ضروری تھا کہ اس کی جڑیں تلاش کی جائیں کہ آخر”نظام “اتنا مقدس اور نازک کیوں ہے کہ ذرا سی ٹھوکربھی برداشت نہیں کرسکتایہاں قارئین آسانی سے سمجھ سکتے ہیں کہ پاکستان میںآ ج تک عدل وانصاف قائم کیوں نہیں ہوسکا اور کرپشن کا عفریت دن بدن پھل پھول کیوں رہا ہے؟کیا وجہ ہے کہ ملک میں طاقتور اور کرپٹ لوگ صاف بچ نکلتے ہیں اور عام شہری ”قانون“کے جال میں پھنس جائے تو اس کی کئی نسلیں گزرجاتی ہیں مگر انصاف نہیں ملتا کیونکہ تاج برطانیہ نے یہ نظام اپنا غاصبانہ تسلط برقراررکھنے اور عا م ہندوستانیوں کو دبا کر رکھنے کے لیے بنایا تھا یہ نظام برطانوی سامراج کے ”دلالوں“کو تحفظ فراہم کرتا تھا جبکہ عام ہندوستانیوں کو انسانوں کو درجہ دینے پر بھی تیار نہیں تھالہذا آج تک پاکستان اور ہندوستان کے عام شہری اپنی گردنوں پر مسلط افسرشاہی اور حکومتی اشرافیہ سے چھٹکارا پانے کے لیے ہاتھ پاؤں مار رہے ہیں مگر سمت اور تشخص درست نہ ہونے کی وجہ سے73سالوں سے انہیں کوئی کامیابی نہیں ملی اور نہ ہی اس نظام کے ہوتے ہوئے مل سکتی ہے-سب سے زیادہ افسوسناک مذہبی سیاسی جماعتوں کا رویہ ہے کہ جنہوں نے جانتے ہوئے بھی عوام نامی مخلوق کو سچ نہیں بتایا کہ برائی کی اصل جڑکیا ہے بلکہ تمام مذہبی سیاسی جماعتوں کے قائدین سیکولرجماعتوں سے بھی زیادہ زور شور سے اس ”نظام“کے تحفظ کا درس دیتی رہیں چند روز قبل ایک مقبول سیاسی جماعت کے قائدکا بیان نظرسے گزرا جس میں انہوں نے کسی بھی صورت”نظام“کو بچانے کا درس دیا ہے ریاست مدینہ کی بات کرنے والے وزیراعظم عمران خان یا تو بے خبرہیں یا جانتے بوجھتے انجان بن رہے ہیں کہ کالونیل عہد کے اس ”نظام“کے ہوتے ریاست مدینہ کا قیام ممکن نہیں کیونکہ دونوں نظام ایک دوسرے کی ضدہیں -عدل وانصاف کے حوالے سے ورلڈ جسٹس پراجیکٹ نامی ادارے نے اپنی حالیہ رپورٹ میں بتایا ہے کہ قانون کی حکمرانی کی درجہ بندی میں پاکستان 139 ممالک کی فہرست میں 130 ویں نمبر پر رہا ہے جبکہ پاکستان کے مقابلے میں بنگلہ دیش 124 ویں، ایران 119 ویں، بھارت 79 ویں، سری لنکا 76 ویں اور نیپال 70 ویں نمبر پرہیں رپورٹ کی درجہ بندیوں میں دیکھا جا سکتا ہے کہ پاکستان جنوبی ایشیا کے خطے میں شامل اس فہرست میں سوائے افغانستان کے تمام ممالک سے نیچے رہا ہے جب کہ عالمی سطح پر پاکستان کا اسکور نکاراگوا، ہیٹی، موریطانیہ، کیمرون، مصر، کانگو، کمبوڈیا اور وینزویلا سے زیادہ ہے-حقائق حکمرانوں کے دعوؤں کے مقابلے میں کافی مختلف ہیں پاکستان تحریک انصاف کی حکومت کے 38 ماہ میں پاکستان قانون کی حکمرانی کی عالمی فہرست میں مسلسل نیچے کی جانب گامزن ہے ورلڈ جسٹس پراجیکٹ کی قانون کی بالادستی کی فہرست میں پاکستان 2019 میں 126 ممالک میں 117 ویں نمبر پر تھا جبکہ 2020 میں 128 ممالک کی فہرست میں 120 ویں نمبر پر اور تازہ ترین رپورٹ میں پاکستان 139 ممالک کی فہرست میں 130 ویں نمبر پر رہا ہے۔

(جاری ہے)

وزیراعظم عمران خان نے 19 اکتوبر کو سیرت النبیﷺ کانفرنس کے موقع پر کہا تھا کہ عدل و انصاف اور قانون کی بالادستی صرف اس معاشرے میں قائم کی جا سکتی ہے جہاں اخلاقیات کے درجے بلند ہوں اخلاقیات کے معیار پر ہی پارلیمانی نظامِ حکومت کامیابی سے چلایا جا سکتا ہے ان کا کہنا تھا کہ دنیا میں جو بھی ملک آگے بڑھے ہیں ان کے پاس اخلاقیات اور انصاف کے اوصاف ہوتے ہیں۔

انہوں نے یہ دعویٰ بھی کیا کہ ان کی جدوجہد ہی ملک میں قانون کی بالادستی کے لیے ہے۔ وہ انصاف اور قانون کی بالادستی کی جنگ لڑتے رہیں گے وزیراعظم نے کہا تھا کہ ملک میں طاقتوروں کو قانون کے نیچے لے کر آنا ہو گا جب تک ملک میں قانون کی بالادستی قائم نہیں ہو جاتی ملک میں بہتر جمہوریت کا تصور نہیں کیا جا سکتا اور نہ ہی ملک میں خوش حالی آ سکتی ہے وزیراعظم کا کہنا تھاکہ ان کا مقصد مدینہ کی ریاست جیسی ریاست کا قیام ہے جہاں لوگوں کو ان کے بنیادی انسانی حقوق اور ضروریات فراہم کی جائیں۔

اب محترم وزیراعظم کو کون سمجھائے گا کہ حضوروالا ایک طرف کالونیل عہد کا ”گورنمنٹ آف انڈیا ایکٹ“ہے جس کے تحت پچھلے73سالوں سے ملک کو چلایا جارہا ہے جس کے تحت انسان‘انسان کی بدترین غلامی کا شکار ہے‘جو دولت کو چند ہاتھوں تک محدودکرتا ہے‘جو انسان کو ہمیشہ انسان کا غلام بناکررکھنا چاہتا ہے کیونکہ اس کے نزدیک”اعلی النسل“کو حق حاصل ہے کہ وہ ”انسان نما مخلوق“ پر حکمرانی کرئے اور جس طرح چاہے اس کا استحصال کرئے کیونکہ غلام آقاکی ملکیت ہوتے ہیں اور آقاان کے ساتھ جوچاہے سلوک روا رکھے دوسری جانب وہ نظام ہے جو مساوات کی بات کرتا ہے جو کہتا ہے کہ تمام انسان برابر ہیں‘جو غلامی کی زنجیروں کو توڑتا ہے ‘جو یکساں عدل وانصاف کی یقین دہانی کرواتا ہے اور عدل وانصاف میں اس انتہا تک جاتا ہے کہ نبی رحمتﷺ سے جب قریش کے اعلی خاندان کی خاتون پر حدنافذکرنے پر نرمی برتنے کی درخواست کی جاتی ہے تو آقائے کریمﷺ رب کائنات کی قسم اٹھا کر کہتے ہیں کہ ”اگر اس خاتون کی جگہ پر فاطمہ بنت محمدﷺ بھی ہوتیں تو اس کا بھی ہاتھ کاٹا جاتا“قلم کانپ جاتا ہے جسم لرزاٹھتا ہے اسے لکھتے ہوئے مگر ہاں یہ تھا وہ نظام جس کی بنیادوں پر ریاست مدینہ قائم ہوئی جبکہ ہمارے وزیراعظم تاج برطانیہ کے عہد غلامی کے بنائے نظام کی بنیادوں پر ریاست مدینہ قائم کرنا چاہتے ہیں تو یہ ہرگزممکن نہیں --جاری ہے۔


ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :