ریاست مدینہ :پاکستان‘نظام اور حکمران۔ قسط نمبر2

ہفتہ 23 اکتوبر 2021

Mian Muhammad Nadeem

میاں محمد ندیم

ہاروڈ یونیورسٹی سے ڈاکٹریٹ کی ڈگری حاصل کرنے والے تحریک انصاف حکومت کے مقررکردہ گورنر اسٹیٹ بنک رضا باقر کی ”شاندار کارکردگی“ڈھکی چھپی نہیں پاکستان سے قبل وہ آئی ایم ایف کے مشن سربراہ کے طور پر مصر اور بلغاریہ کی معیشت کو برباد کرنے کا ”تجربہ“رکھتے ہیں لہذا جیسا کہ پچھلے مضمون میں عرض کیا تھا کہ پاکستان ڈاکٹررضا باقرکی ”قابلیت“کا متحمل نہیں ہوسکتا اس لیے شکریے کے ساتھ یہ ”تحفہ“آئی ایم ایف کو لوٹا دینا ہی بہتر ہے-حکومت کے معاشی منیجروں کی فہرست پر نگاہ ڈالیں تو پیروں کے نیچے سے زمین کھسکتی ہوئی محسوس ہوتی ہے کہ بین القوامی ”معاشی دہشت گردوں“کی ہرکاروں کی فوج ظفرموج نظرآتی ہے بہت سارے احباب سوال اٹھاتے ہیں کہ آخرشوکت ترین میں وہ کون سی خوبی ہے کہ حکومت انہیں سینیٹر”بنوانے“کے لیے ایڑی چوٹی کا زور لگارہی ہے مگر اندرکی خبر ہے کہ حکمران جماعت کو خوف بھی ہے کہ اگر کسی اور طرف سے ”نذرونیاز“دوگنی کرنے کی پیشکش آگئی تو ان کے اپنے اراکین کے ایمان ڈگمگا سکتے ہیں اور حکومت کاشوکت ترین کو سینیٹربنوانے کے چکر میں ایک محفوظ نشست سے ہاتھ دھونے کا امکان موجود ہے یہی وجہ ہے حکمران جماعت فیصلہ نہیں کرپارہی تحریک انصاف کے ذریعے پہلی مرتبہ قومی یا صوبائی اسمبلیوں میں آنے والے اراکین کی اکثریت بے یقینی کا شکار ہے اور انہیں محسوس ہورہا ہے عوامی مقبولیت کا گراف زمین بوس ہونے کے بعد آئندہ انتخابات میں شاید اس کے لیے درجن بھر نشستیں حاصل کرنا بھی مشکل ہوجائے لہذا وہ ”آخرت محفوظ“بنانے کی فکر میں ہیں-اب آتے ہیں کہ آخرشوکت ترین ہی کیوں ؟کیوں کسی منتخب رکن قومی اسمبلی یا سینیٹرکو وزیرخزانہ مقررنہیں کیا جاسکتا تو یہ ”فرمائشی پروگرام“ان کی جانب سے ہے جن سے ایک ارب ڈالر کے حصول کے لیے ہم منت ترلے کررہے ہیں مگر وہ ظالم ہیں کہ ماننے کوتیار نہیں‘آخری اطلاعات تک وفدکے آخری رکن وفاقی سیکرٹری خزانہ بھی مایوس ہوکر واشنگٹن سے واپس آچکے ہیں مضمون سے موضوع ہٹ رہا ہے اس کا مکمل ادراک ہے مگر گھنٹوں کے حساب سے کچھ ایسی تبدیلیاں رونما ہورہی ہیں کہ ناں چاہتے ہوئے بھی موضوع سے ہٹنا پڑتا ہے یہ تو اب پاکستان کا بچہ بچہ جان چکا ہے کہ حکومت کے معاشی منیجروں کی حیثیت عالمی سرمایہ درانہ نظام کے پیادوں سے زیادہ کچھ بھی نہیں اور یہ آج سے نہیں بلکہ کئی دہائیوں سے ہورہا ہے کہ پاکستان کی معاشی معاملات کے لیے تقرریوں کی فہرست عالمی سودخوروں کی جانب سے ہی آتی ہے اور حکومتیں اسے من وعن قبول کرنے پر مجبور ہوتی ہیں -انفرادی زندگی ہویا ملکوں کے معاملات سب کچھ معاشیات سے ہی جڑا ہے مگر دنیا میں سب سے زیادہ مقروض ملک امریکا آئی ایم ایف یا ورلڈ بنک نہیں بلکہ اپنی شرائط پر قرض لیتا ہے اسی طرح دنیا کے کئی ملک ہیں جن کی معیشت کا دارومدآر ان مالیاتی اداروں کے قرضوں پر ہے مگر ان کے ہاں بھی حالات اتنے برے نہیں کہ وہ ڈالر کو ”فری فلوٹ“کرنے کے پابند بنادیئے جائیں حزب اختلاف کی جماعتوں کی جانب سے ”میگا پراجیکٹ“نہ ہونے کے طعنے اصل میں حکومت کو اکسانے کے لیے تھے کہ وہ دھڑا دھڑقرضے لے چونکہ انہیں نتائج کا علم تھا لہذا ”کپتان“نے اسے بھی کرکٹ کا میدان سمجھ کر وہی کیا جو حزب اختلاف اور عالمی مالیاتی ادارے چاہتے تھے نتیجہ پاکستان بحرانوں کا شکار ہوتا چلاگیا اب حکومت بدن ڈھاپنے کی کوشش کرتی ہے تو پاؤں ننگے ہوتے ہیں اور پاؤں ڈھاپنے لگتی ہے تو سرسے چادر سرک جاتی ہے ادھر حکومت کے غیرسنجیدہ اقدامات سے خیبرسے کراچی تک کہیں پر بھی حکومتی رٹ نام کی کوئی چیزنظرنہیں آتی-بوکھلائے ہوئے وزیر‘مشیر ایسے بیانات دے رہے ہیں جوکہ حکومتی اداروں کے اعدادوشمار کے برعکس ہے گورنراسٹیٹ بنک ہویا وزیر‘مشیر ان کا دعوی ہے کہ مہنگائی میں چار فیصد اضافہ ہوا ہے جبکہ معاشی ماہرین اسے گیارہ سے بارہ فیصد تک قراردے رہے ہیں جبکہ وفاقی ادارہ شماریات کی تازہ ترین رپورٹ کے مطابق سالانہ بنیادوں پر مہنگائی میں 14اعشاریہ48فیصد اضافہ ہوا ہے ادارے کی جانب سے جاری اعدادوشمار میں گزشتہ سال 22 اکتوبر سے رواں سال 21 اکتوبر تک اشیا خورونوش اور دیگر اہم اشیا کی قیمتوں کا تقابلی جائزئے میں بتایا گیا ہے کہ سالانہ بنیادوں پر مہنگائی میں 14.48 فیصد اضافہ ہوا جبکہ کم آمدن والے افراد کے لیے مہنگائی 15.72 فیصد پر پہنچ گئی ادارہ شماریات کا کہنا ہے کہ ایک سال کے دوران ایل پی جی کی قیمت میں 75 فیصد اور بجلی کی قیمت میں 61.11 فیصد اضافہ ہوا ہے اسی طرح ایک سال کے دوران سرسوں کا تیل 46.49 فیصد، گھی 44.25 فیصد اور کھانے کا تیل 40.78 فیصد مہنگا ہوا لال مرچ کی قیمت میں سالانہ بنیادوں پر 33.43 فیصد، مرغی 28.82 فیصد، لہسن 25.19 فیصد اور صابن 28.79 فیصد ‘ پیٹرول 32.22 فیصد اور ڈیزل 28.91 فیصد اضافہ ہوا ہے ادارہ شماریات کی ہفتہ وار رپورٹ کے مطابق ملک میں صرف ایک ہفتے میں مہنگائی میں 1.38 فیصد مزید اضافہ ہوا حالیہ ایک ہفتے میں 29 اشیا کی قیمتوں میں اضافہ ہوا اور ایک ہفتے میں ٹماٹر اوسط 27 روپے 56 پیسے فی کلو مہنگا ہوا جس کے بعد ملک میں ٹماٹر کی اوسط قیمت 93 روپے77 پیسے فی کلو ہوگئی ہے ایل پی جی کا گھریلو سلنڈر 154روپے 15 پیسے مہنگا ہوا جبکہ گھی 6 روپے 67 پیسے اور چینی اوسطاً 42 پیسے فی کلو مہنگی ہوئی حالیہ ہفتے پیٹرولیم مصنوعات اور لہسن بھی مہنگا ہوا جبکہ آلو، انڈے، دودھ، دہی، مٹن اور دال ماش بھی مہنگے ہوئے-حکومت تمام تر کوششوں کے باوجود حکومت ڈالر کی بڑھتی ہوئی قدر روکنے میں ناکام ہے اور انٹرنیشنل مانیٹری فنڈ سے مذاکرات کامیاب نہ ہونے کے باعث ڈالر کی قدر میں مزید اضافے کا خدشہ ظاہرکیا جارہا ہے اس ساری صورتحال میں وزیراعظم ‘وفاقی کابینہ‘حکومتی جماعت کے اراکین پارلیمان اور راہنما ؤں کے بیانات انتہائی افسوسناک ہیں ہر روزکوئی نہ کوئی وزیر‘مشیرایک آدھ ایسا بیان دے کر معاشی بدحالی کا شکار اہلیان وطن کے زخموں پر نمک پاشی کرتا ہے کہ دنیا اور خطے کے مقابلے میں ملک کے اندرپیٹرول کی قیمتیں کم ہیں -کالج کے زمانے میں ایک مضمون کو زبردستی ہمارے گلے پڑا تھا وہ معاشیات ہی تھا لہذا اس بنیاد پرہمارا ماہرہونے کا کوئی دعوی نہیں بلکہ بنیادی معاشیات کی معمولی سوجھ بوجھ ہی ہمیں حاصل ہوسکی اس ناقص علمی کے باوجود میرا خیال ہے کہ سکول گریڈ کا ایک بچے کا اس حوالے سے آئی کیولیول ہمارے وزیر‘مشیروں سے زیادہ بہتر ہوگا کیونکہ معاشیات صرف ایک جنس یا چیزکی قیمت کے تقابلی جائزے سے ممکن نہیں دوسرا جن ملکوں کے ساتھ تقابلی جائزہ پیش کیا جاتا ہے ان کی قوت خرید‘فی کس آمدن‘مہنگائی کی شرح‘ڈالرکے مقابلے میں کرنسی کی قدر‘مجموعی قومی پیدوار کو نظراندازکردیا جاتا ہے یہاں دو ہی باتیں ہیں کہ یا تو حکومتی شہ دماغوں کی سوچ انتہائی محدود ہے یا جان بوجھ کر وہ ان اہم ترین معاملات کو نظراندازکرتے ہیں اور کسی بھی ملک کی بھاگ دوڑدونوں صورتوں میں سے کسی ایک کے بھی ہاتھ میں ہوگی تو بہتری کی امید نہیں کی جاسکتی-وزیراعظم عمران خان نے فرمایاکہ دنیا میں تیل کی پیداوار کرنے والے 19 ممالک کے سوا پاکستان میں پیٹرول اور ڈیزل کی قیمت سب سے کم ہے‘مشیر خزانہ شوکت ترین تو پاکستان کا موازانہ برطانیہ سے کرچکے ہیں کہ پاکستان کے مقابلے میں برطانیہ میں قیمتیں 31 فیصد بڑھی ہیں‘ ایک وفاقی وزیرتو امریکا سے آسٹریلیا تک سے پاکستان کا موازانہ کرچکے ہیں جبکہ معاشی ماہرین کا کہنا ہے کہ پاکستان میں ڈیزل اور پٹرول کی کم قیمت کا دنیا خاص کر دنیا اور خاص کر خطے کے دوسرے ممالک سے موازنہ صحیح ہے کیونکہ ایک طرف ملکی معیشت میں شرح نمو مستحکم نہیں تو دوسری جانب پاکستان میں آمدنی کے ذریعے سکڑ رہے ہیں اب ذرا موازنے کی طرف آتے ہیں پاکستان میں مہنگائی کی شرح14اعشاریہ48فیصد کے مقابلے میں بھارت میں یہ شرح 4.6 فیصد، بنگلہ دیش میں 5.9 فیصد، سری لنکا میں 4.6 فیصد اور نیپال میں 4 فیصد ہے حکومت کو یہ بھی بتانا چاہیے کہ اس وقت چینی اور گندم کی قیمت بھارت اور بنگلہ دیش میں کس سطح پر ہے اور ہم اس وقت کس قدر مہنگی گندم اور چینی خریدنے پر مجبور ہیں ضرورت کی چیزوں کی خریداری کا تعلق قوت خرید سے ہے پاکستان میں قوت خرید کم ہوئی ہے جس کا تعلق ملک کی فی کس آمدن سے ہے پاکستان کی فی کس آمدن کا موازنہ بنگلہ دیش اور بھارت سے کیا جائے تو پتا چلتا ہے کہ پاکستان اس لحاظ سے دونوں ممالک سے کتنا پیچھے ہے بنگلہ دیش میں جی ڈی پی کے لحاظ سے فی کس آمدن 2227 ڈالر ہے اور بھارت میں 1961 ڈالر ہے جب کہ دوسری جانب پاکستان میں فی کس آمدن 1179 ڈالر ہے جو خطے میں سب سے کم ہے لہذاحکمران جماعت کو آئندہ موازانہ کرتے ہوئے احتیاط برتنی چاہیے کیونکہ خطے کے باقی ملکوں کے مقابلے میں سب سے کم قوت خرید اور مہنگائی کی شرح سب سے زیادہ ہے اس میدان میں ہم بھوٹان سے بھی موازانہ کرنے کی پوزیشن میں نہیں ہیں- کسی ملک میں قوت خرید میں اس وقت اضافہ ہوتا ہے جب وہاں لوگوں کی آمدنی بڑھ رہی ہواگر بھارت اور بنگلہ دیش میں پیٹرول مہنگا ہے تو وہاں پاکستان کے مقابلے میں لوگوں کی قوت خرید بھی بہت زیادہ ہے حکومت یہ بات چھپا لیتی ہے کہ پاکستان اور دوسرے ملکوں میں آمدنی کی سطح کے درمیان کتنا فرق ہے اسی طرح یہ بات بھی یاد رکھنی چاہیے کہ پاکستان اور دوسرے ملکوں کی معیشت میں شرح نمو میں بھی کتنا فرق ہے حقیقت یہ ہے پاکستان خراب معاشی صورتحال کا شکار ہے جو بڑھتے ہوئے مالی اور جاری کھاتوں کے خسارے کی وجہ سے ہے درآمدات بے پناہ بڑھ رہی ہیں اور برآمدات میں اضافہ نہیں ہو رہا اور دوسری جانب آپ صرف بنگلہ دیش کو لیں تو اس کی برآمدات 47 ارب ڈالر تک پہنچ چکی ہیں پیٹرول کی قیمتوں کے موازنے کی بجائے حکمرانوں کو اس پہلو پر توجہ دینی چاہیے کہ پاکستان فوڈ سکیورٹی رسک والا ملک بنتا جا رہا ہے اور زرعی ملک ہونے کے باوجود پاکستان گندم اور چینی کی درآمد پر مجبور ہے جس کی ایک وجہ یہ ہے کہ ہماری فوڈ سکیورٹی ختم ہو رہی ہے کیا وزیراعظم یا ان کی حکومت نے اس کی وجوہات جاننے کے لیے کوئی کمیشن تشکیل دیا ہے پچھلے تین سالوں میں؟انہوں نے کہا کہ موجودہ حکومت بھی سابق حکومتوں کی طرح نمائشی کاموں میں لگی ہے ان کی بھی ٹھوس اور لانگ ٹرم منصوبہ بندی نظرنہیں آرہی-جاری ہے�

(جاری ہے)


ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :