عمران خان ناموس رسالت ﷺ اورکشمیر کے وکیل

پیر 31 جنوری 2022

Mian Muhammad Nadeem

میاں محمد ندیم

پاک وہند کا سیاسی کلچر دنیا سے نرالا ہے یہاں حزب اختلاف کا مطلب صرف حکومتی اقدامات کی مخالفت کرنا ہی سمجھا جاتا ہے جبکہ مہذب ملکوں میں حکمران اور حزب اختلاف جماعتیں سیاسی اختلافات کے باوجود قومی ایشوز پر ایک ہوتی ہیں کسی بھی بحران کی صورت میں پوائنٹ اسکورننگ سے گریزکیا جاتا ہے جبکہ ہمارے ہاں سیاسی جماعتیں پوائنٹ اسکورننگ کا کوئی موقع ہاتھ سے نہیں جانے دیتیں اس میں کوئی شک نہیں وزیر اعظم عمران خان نے جس اندازمیں کشمیر ‘اسلاموفوبیا‘ نبی کریم ﷺکی ناموس جیسے حساس اور اہم ترین موضات کو جس اندازمیں بین القوامی سطح پر اجاگرکیا وہ قابل تحسین ہیں اقوام متحدہ سمیت دنیا کے اہم ترین فورمزپر وزیراعظم نے دنیا بھر کے مسلمانوں کی آوازکو تمام فورمزپر انتہائی احسن طریقے سے پیش کرکے وہ عالم اسلام کے لیڈر بن کر ابھرے انہوں نے اقوام متحدہ کے پلیٹ فارم پر ”تضحیک آمیزخاکوں“ سمیت مغربی دنیا میں مسلمانوں کے خلاف امتیازی سلوک اور تعصب پر بڑی دلیری سے مقدمہ پیش کیا -کشمیر کے مسلہ کو بھی وزیراعظم عمران خان نے انتہائی جرات مندی سے دنیا کے سامنے پیش کیا ‘مخالفین جب کہہ رہے تھے کہ عمران خان کی حکومت اسرائیل کو تسلیم کرنے جارہی ہے تو اسی وقت عمران خان نے ایک انٹرویو میں فلسطینیوں کے حق میں کھل کر اس وقت کے بات کی جب اسرائیل کو تسلیم کرنے کے لیے عرب ملکوں میں دوڑلگی ہوئی تھی عمران خان نے بین القوامی نشریاتی ادارے کے ساتھ انٹرویومیں فلسطینیوں کے حق میں اور اسرائیل کے خلاف بات کرکے اپنے مخالفین کے منفی پراوپگینڈے کو غلط ثابت کردیا- ان حقائق کو نظراندازنہیں کیا جاسکتا ہے کہ حکومت مہنگائی اور عا م شہریوں کو درپیش کچھ اہم مسائل کو حل کرنے میں ناکام رہی ہے یہاں یہ بتانا ضروری ہے کہ کورونا وائرس کے عالمی وبا بننے کے بعد دنیا بھر میں سپلائی چین بری طرح متاثر ہوئی معاشی طور پر دنیا کے مستحکم ترین ملک امریکا میں لوگ پیسے لے کر مارکیٹس میں جارہے تھے مگر اشیاء ضروریہ دستیاب نہیں تھیں پاکستان میں ایک دن کے لیے بھی ایسی صورتحال نہیں پیدا ہوئی تو یہ عمران خان حکومت کی ایک بڑی کامیابی ہے -میرے نزدیک خان صاحب کی کابینہ کے کچھ اراکین کے بیانات سے عوام میں ایک ردعمل پیدا ہوا جس کا ازالہ انتہائی ضروری ہے کئی سنیئروزراء تیل اور کھانے پینے کی اشیاء کی قیمتوں کا موازانہ ایسے ممالک سے کرتے رہے جو معاشی طور پر دنیا کے مضبوط ترین ملک سمجھے جاتے ہیں جن کی فی کس آمدن ‘مجوعی قومی پیدوار اور برآمدات پاکستان سے سینکڑوں گنا زیادہ ہیں جن کی کرنسی کی ویلیو روپے کے مقابلے میں انتہائی مضبوط ہے لہذا ان ملکوں کے ساتھ ہمارا موازانہ کسی بھی طور پر درست نہیں- عمران خان حکومت نے ملک سے غربت کے خاتمے کے لیے متعددپروگرام شروع کررکھے اور خود وزیراعظم عمران خان اس کا اظہار کرتے رہتے ہیں کہ وہ ملک میں معاشی اور معاشرتی مساوات قائم کرنا چاہتے ہیں یقینی طور پر اس کے لیے بہت زیادہ وسائل درکار ہیں حال ہی میں چینی صحافیوں کے ایک گروپ سے انٹرویومیں وزیر اعظم کا کہنا تھا کہ ساری دنیا نے تسلیم کیا ہے کہ چین نے 35 سے 40 سال میں اپنے ملک کو غربت سے نکالا ہے، یہ انسانی تاریخ میں کبھی نہیں ہوا اور یہی اقدام چین کے حوالے سے ساری دنیا کو متاثر کرتا ہے ان کا کہنا تھا کہ میرا اہم مقصد لوگوں کو غربت سے نکالنا ہے، جب میں چین گیا تو میں نے غربت ختم کرنے کا طریقہ جاننے کی کوشش کی اور یہی وجہ ہے کہ ہم پاکستان میں چین کے ترقیاتی ماڈل کی تقلید کرنا چاہتے ہیں، کیونکہ اس کے ذریعے چین نے ترقی میں وسیع حصہ شامل کیا ہے-عمران خان کا کہنا تھا کہ چین نے ایسی ترقی کی کہ اس کے ساتھ تمام آبادی کو بھی ترقی ملی، وہاں باقی دنیا کی طرح نہیں ہوا جس میں امیر امیر تر ہوتے ہیں اور غریب غریب تر ہوتے جاتے ہیں، اور غریبوں اور امیروں کے درمیان خلا بڑھتا جاتا ہے عالمی وبا کے دوران بھی غریب مزید غریب ہوئے اور امیر مزید امیر تر ہوئے تو چین ان تمام ممالک کے لیے رول ماڈل ہے جو اپنے لوگوں کو ترقی دینا چاہتے ہیں-سی پیک اور چینی تعاون کے حوالے سے وزیر اعظم کا کہنا تھا کہ دراصل سی پیک کے پہلے مرحلے میں روابط بڑھانے اور توانائی کی پیداوار پر توجہ دی گئی، اب سی پیک دوسرے مرحلے میں داخل ہوگیا ہے جس کے تحت صنعتوں کو منتقل کرتے ہوئے زونز بنائے جارہے ہیں ان کا کہنا تھا کہ ہم خاص طور پر زرعی شعبے کی پیداوار میں اضافے کے لیے مدد چاہتے ہیں، کیونکہ چین میں زرعی پیداوار پاکستان سے کئی گنا زیادہ ہے، چین میں کپاس کی نئی اقسام تیار کی گئی ہیں اور ہمارے پاس بے شمار اراضی موجود ہے جہاں کپاس اگائی جاتی ہے، اس لیے زرعی پیداوار میں ہمیں چین کی مدد درکار ہے وزیر اعظم کا کہنا تھا کہ ٹیکنالوجی کے شعبے میں بھی ہمیں چین کی معاونت کی ضرورت ہے، ٹیکنالوجی کا انقلاب دنیا کا مستقبل ہے اور اس تناظر میں چین نے بہت ترقی کی ہے، اس لیے اس شعبے میں ہم چین کی مدد چاہتے ہیں-کشمیر پر عالمی برادری کے دوہرے معیار کو انہوں نے ایک مرتبہ پھر شدید تنقید کا نشانہ بنایا ہے عمران خان کا کہنا تھا کہ مغرب نے سنکیانگ پر ایغور کے ساتھ چین کے رویے پر تنقید کی جو زمینی حقائق کے مخالف ہے لیکن کشمیر میں ہونے والے بھارتی مظالم پر سب نے خاموشی اختیار کی ہوئی ہے عمران خان کا کہنا تھا کہ چین میں ایغور کے ساتھ ہونے برتاوٴ پر مغرب کی جانب سے چین کو تنقید کا نشانہ بنایا گیا ہم نے اپنے سفیر معین الحق کو وہاں بھیجا، انہوں نے معلومات حاصل کی تو پتا چلا کہ زمینی حقائق اس سے مختلف ہے مغرب ایغور کے حوالے سے چین کو دباؤ میں لانے کے لیے بات کرتا ہے لیکن کشمیر کے حوالے سے بات نہیں کرتا جہاں بھارت کی جانب سے انسانی حقوق کی شدید خلاف ورزی کی جارہی ہے جہاں 90 لاکھ لوگوں کو بھارت نے کھلی جیل کی طرح قیدی بنایا ہوا ہے ان کا کہنا تھا کہ عالمی برادری دونوں معاملات پر دوہرا معیار اپنا رہی ہے۔

(جاری ہے)

وزیراعظم کا یہ موقف سوفیصد درست ہے کیونکہ مغربی دنیا کشمیر‘فلسطین جیسے اہم ترین معاملات پر خاموشی رکھتی ہے اور انسانی حقوق کو ہتھیار کے طور پر ایسے ملکوں کے خلاف استعمال کرتی ہیں جنہیں وہ اپنا مخالف خیال کرتی ہے ‘انسانی حقوق کے ہتھیار کو بعض ملکوں کو بلیک میل کرنے کے لیے بھی استعمال کیا جاتا ہے جو شرمناک ہے یعنی حقیقت میں مغربی دنیا کو انسانی حقوق کی پامالی سے کوئی سروکار نہیں یہ محض بلیک میلنگ کا ایک ہتھیار ہے -

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :