وزیراعظم عمران خان کے نام کھلا خط

منگل 12 اکتوبر 2021

Mian Muhammad Nadeem

میاں محمد ندیم

محترم وزیراعظم صاحب آپ کی وزارت خزانہ‘وفاقی ادارہ شماریات‘ اسٹیٹ بنک اورعالمی مالیاتی ادارے متفق ہیں کہ ملک میں مہنگائی کی شرح میں بے پناہ اضافہ ہوا ہے اقوام متحدہ نے ہمیں پچھلی کئی دہائیوں سے ان ملکوں کی فہرست میں رکھا ہوا ہے جو بدترین فوڈ سیکورٹی کا شکار ہیں ایک زرعی ملک ہوتے ہوئے ہم اس حال کو کیسے پہنچے ؟ پچھلے تین سال میں آپ کی حکومت نے اس اہم ترین بنیادی مسلہ سے نمٹنے کے لیے کیا منصوبہ بندی کی؟وزیراعظم صاحب!کرپشن صرف مالی نہیں ہوتی اس کی اور بھی کئی شکلیں ہیں جن میں بدترین شکل ملٹی نیشنل کمپنیوں کو فائدہ پہنچانے کے لیے اپنے ہی شہریوں کے خلاف” غداری“ سرفہرست ہے چینی بحران ہو یا آٹا بحران آج تک ان کی رپورٹس مکمل طور پر منظرعام پر کیوں نہیں لائی جاسکیں؟شوگر کارٹیل ہو یا آٹا کارٹیل ان کی اجارہ داری کے خاتمے کے لیے کیا اقدامات کیئے گئے ہیں؟حکومت کے اندر بیٹھے ان مافیازکے نمائندے حکومت کو بلیک میل کرکے عام شہری کی زندگیاں اجیرن کررہے ہیں مگر حکومت خاموش تماشائی بنی بیٹھی ہے کسی جگہ حکومتی رٹ نظرنہیں آتا-گرمیاں آئیں تو چند پیسے گیس سستی کردیں اور سردیاں آئیں تو پیٹرول یہ کھیل تو 73سالوں سے جاری ہے آپ کی حکومتی نے کیا نیا کارنامہ انجام دیا ہے؟ ناچیزکئی بار بنیادی مسلہ کی نشاندہی کرچکا ہے کہ ملک میں 73سالوں سے رائج برطانوی طرزجمہوریت اور افسرشاہی پاکستان اور پاکستانیوں کے سب سے بڑے دشمن ہیں ملک کو پونے دو سو یا دو سو سال پرانے قوانین کے تحت چلانے کے لیے ہر حکومت زور لگاچکی ہے مگر ناکامی اس کا مقدر بنی آپ کی آج تک کی ناکامیوں کے پیچھے بھی آپ کو یہی وجہ ملے گی -وزیراعظم صاحب!اگر حکومت چاہیے تو چھ ماہ کے مختصرعرصے میں ان کارٹیل کو توڑا اور ملک کودوبارہ خوراک ‘ لائیواسٹاک اور ڈیری میں خودکفیل بنایا جاسکتا ہے مگر اس کے لیے سب سے پہلے ان شعبوں سے غلامانہ کالونیل سوچ رکھنے والی بیوروکریسی کو نکالنا ہوگا ‘خوراک نہیں ہوگی تو کیا قوم ان عمارتوں کو چاٹے گی جس پر حکومت کی تمام تر توانائیاں صرف ہورہی ہیں ؟زراعت ہماری معیشت میں ریڑھ کی ہڈی ہے مگر آج تک ہم نے اسے انڈسٹری ڈکلیئرنہیں کیا ہاؤسنگ نہ کبھی پاکستان کا مسلہ تھا نہ ہے اسے صرف ضلعوں کی سطح پر زمینوں کی قیمتوں کو عام شہریوں کی پہنچ میں لاکر اور مشترکہ خاندانی نظام کی حوصلہ افزائی کرکے حل کیا جاسکتا ہے مگر حکومت جس ایجنڈے پر عمل پیرا ہے اس سے ہاؤسنگ کا مسلہ تو حل نہیں ہوگا صرف چند خاندانوں ‘سیاست دانوں‘بیوکریٹس اور حکومتی عہدیداروں کی دولت کے انباروں میں اضافہ ہوگا جبکہ عام شہری خوراک کے دانے دانے کو ترستا مرجائے گا اس کی ہمیں کتنی بڑی قیمت چکانا پڑے گی اس کا اندازہ بھی شاید آپ کو یا آپ کی حکومت کو شہ دماغوں کو نہیں ہوگا تین سال میں خوراک میں خود کفالت کے لیے کتنے منصوبے بنائے گئے ہیں؟- وزیراعظم صاحب !تقاریربہت ہوچکیں اب قوم عمل چاہتی ہے دلفریب تقریروں سے اب لوگ بیزار ہوچکے ہیں آج تحریک انصاف کے حامی شرمندہ منہ چھپاتے پھر رہے ہیں جنہوں نے شہریوں کو تحریک انصاف کو ووٹ دینے کے لیے آمادہ کیا قوم نے بھی ٹوپارٹی سسٹم ٹوٹنے سے انقلاب آنے کی امید لگائی مگر آج تمام امیدیں دم توڑرہی ہیں جناب عوام گاہک نہیں ہوتے نہ حکومتیں دوکاندار جوسلوک عوام کے ساتھ نون لیگ اور پیپلزپارٹی کررہی تھیں آج اس سے بدترین سلوک شہریوں کے ساتھ ہورہا ہے ملک میں کرپشن اپنی انتہاؤں کو چھورہی ہے ‘غربت ‘بیروزگاری اور مسائل میں اضافہ ہورہا ہے آج لوگ اس عمرا ن خان کو یاد کررہے ہیں جو کہتے تھے میں مستعفی ہونا منظور کرونگا مگر عوام کے مفادات پر کمپرومائزنہیں کرونگا جناب آپ تو سب کچھ کمپرومائزکرگئے خارجی محاذپر آج ہم دنیا میں ایک تنہاجزیرے کی سی حیثیت اختیار کررہے ہیں آپ کے Absolutely not کا شہرہ چار دن کی چاندنی ثابت ہوا آج دنیا میں ہماری حیثیت کیا ہے؟کیا دفتر خارجہ اور سفارت خانوں میں بیٹھے ”بابوؤں“سے کوئی جواب طلبی کی گئی‘آپ ایکسپورٹ بڑھانے کی بات کرتے ہیں تو حضور ہم تو اپنے کھانے کے لیے گندم‘دالیں‘ٹماٹر‘ادرک‘پیاز تک درآمدکررہے ہیں-شوکت نام میں ایک قدرمشترک ہے کہ ماضی میں شوکت عزیزہواکرتے تھے وہ موبائل فونوں اور لگژری گاڑیوں کی درآمدمیں اضافے کو معاشی ترقی قراردیتے تھے آج شوکت ترین صاحب یہ ”خدمت“انجام دے رہے ہیں ویسے شوکت ترین ہوں یا حفیظ شیخ انہوں نے سابقہ حکومتوں میں وزارت خزانہ کے لیے ایسے کون سے کارنامے انجام دیئے تھے کہ ان کے علاوہ کوئی اور وزیرخزانہ نہیں ملتا؟ایسی بھی کیا مجبوری ہے کہ پوری حکومت کونسلرکا انتخاب جیتنے کی صلاحیت نہ رکھنے والے شوکت ترین صاحب کو سینیٹربنوانے کی سرتوڑکوششوں میں ہے ؟قوم کو بھی اس بارے میں اعتماد میں لیںآ پ انتخابی اصلاحات اور شفافیت کی بات کرتے ہیں تو سب سے بڑا چور دروازاہ سینیٹ کے انتخاب کا طریقہ کار ہے سب سے پہلے اسے بند کریں اور جس کو بھی سینیٹربننے کا شوق ہو وہ عوام کے براہ راست ووٹ سے منتخب ہوکرآئے-جناب وزیراعظم!آپ اختیارات کی نچلی سطح پر منتقلی کے بھی حامی رہے ہیں وزیراعظم منتخب ہونے سے پہلے تک مگر حکومتی میں آتے ہی نجانے ہماری جمہوری جماعتوں کو کیا ہوجاتا ہے کہ وہ بلدیاتی اداروں کے انتخابات تو دور کی بات ان کا نام تک نہیں لیتے تحریک انصاف یونین کونسل کی سطح پر ”کوآرڈنیٹرز“کے ذریعے کام چلا رہی ہے جوکہ پارٹی کے نامزدکردہ ہیں ناں کہ عوام کے منتخب کردہ وزیراعظم صاحب!اپنی جماعت کے ان ”کوآرڈنیٹرز“کے بیک گراؤنڈ چیک کروائیں تو آپ کو پتہ چلے گا کہ ہر حلقے میں آپ کی جماعت کی مقبولیت میں کمی کی ایک بڑی وجہ ”کوآرنیٹرز“بھی ہیں این اے126میرا آبائی حلقہ ہے کئی پشتوں سے ہم اس علاقے کے مکین ہیں لہذا اپنے حلقے کی حد تک میں ”کوآرڈنیٹرز“کے بیک گراؤنڈ سے مکمل طور پر واقف ہوں ان سے زیادہ خراب شہرت کے کارکن شاید پیپلزپارٹی کے پاس بھی نہیں ہونگے کوئی سرکاری یا عوامی عہدہ نہ ہونے کے باوجود یہ کوآرڈنیٹرزاتنے طاقتور کیسے ہوگئے کہ علاقوں کے سرکاری محکموں کے افسران اور اہلکار ان کی مرضی سے لگائے اور ہٹائے جارہے ہیں؟-محترم خان صاحب !احتساب اور شفافیت آپ کا نعرہ تھا پھر یہ کیونکرہوا کہ لیسکو کا چیف ایگزیکٹیو اپنے عہدے سے مستعفی ہوتا ہے اور اگلے ہی دن کئی گنا زیادہ تنخواہ اور مراعات پر انہی صاحب کو کنٹریکٹ پر چیف ایگزیکٹیو لیسکو لگا دیا جاتا ہے کیا یہ سب کچھ متعلقہ وزارت کے علم اور مرضی کے بغیرہوگیا خصور والا کیا انہی لوگوں کی عیاشیوں کے لیے گھنٹوں کے حساب سے بجلی کی قیمتیں بڑھائی جاتی ہیں؟اگر آپ کی جماعت کا آئندہ انتخابات میں بھی آنے کا ارادہ ہے تو ان ”کوآرنیٹرز“کے کرتوتوں پر بھی نظررکھیں اور لوفراور لفنگوں کی بجائے اچھی شہرت کے حامل پڑھے لکھے سنجیدہ اور سلجھے ہوئے لوگوں کو آگے لے کرآئیں-وزیراعظم صاحب!جیسا کہ میں نے اوپرعرض کیا ہے کہ صرف چھ ماہ میں ملک کو خوراک ‘لائیواسٹاک اور ڈیری میں خودکفیل کیا جاسکتا ہے اس کے لیے ہمیں سب سے پہلے دوسال پرانے قوانین سے نجات حاصل کرنا ہوگی ان شعبوں کو کالونیل سوچ رکھنے والی بیوروکریسی کے چنگل سے نکالنا ہوگا ہاؤسنگ پراجیکٹس کے نام پر زرعی زمینوں پر حملہ آور مافیا کوآہنی ہاتھوں کو روکنا ہوگا ایسی قانون سازی کرنا ہوگی جس میں آباد زرعی زمین زراعت کے علاوہ کسی اور مقصدکے لیے استعمال نہ کی سکے ‘ملٹی نیشنل کمپنیوں کے کردار کو محدودکرنا ہوگا زرعی یونیورسٹیوں اورویٹرنری سائنس کالجوں اور یونیورسٹیوں سے فائدہ اٹھانا ہوگا - ہمارے ہاں جنوبی پنجاب ‘سندھ ‘بلوچستان اور کے پی کے میں بے شمار زمینیں موجود ہیں جنہیں دالوں کی کاشت کے لیے استعمال میں لایا جاسکتا ہے اس وقت ہمارے ایکسپورٹ بل میں ایک بڑا حصہ دالوں کی درآمد کا ہے اسی طرح پھل دار درختوں کو فروغ دے کربھی ہم آنے والے اس خوفناک وقت کے لیے خود کو تیار کرسکتے ہیں جس کے لیے ہمیں اقوام متحدہ وارننگ جاری کررہا ہے خوراک کا شعبہ فوری توجہ کا مستحق ہے اور اگر حکومت نے اس جانب توجہ نہ دی تو سمجھا جائے گا حکومت عالمی ایجنڈے پر کارفرما ہے جس کے تحت خوراک اور پانی کا کنٹرول چند ہاتھوں میں دینا ہے -شوگر مافیا اور آٹا مافیا کی اجارہ داری کو توڑنے کے لیے حکومت کسانوں کو اجازت دے کہ وہ چاہیں تو اپنے گنے کا گڑبنا کرفروخت کریں یا شوگر ملوں کو فروخت کریں اسی طرح عہد غلامی کے قائم کردہ ملوں کے لائسنس نظام کو ختم کردیا جائے جو بھی شہری چھوٹا یا بڑا یونٹ لگانا چاہے وہ صرف ایک کمپنی رجسٹرڈ کرواکر فیکٹری لگالے اس کے لیے مشنری کی درآمد پر ڈیوٹی کو ختم کردیا جائے یا مقامی طور پر مشنری تیار کرنے کی حوصلہ افزائی کی جائے کرپشن کے خاتمے کے لیے سزائے موت مقررکی جائے جس پر کرپشن ثابت ہوجائے اس کی تمام تر جائیداداور اثاثے ضبط کرکے راشی کو سزائے موت دی جائے اس کے علاوہ کرپشن کے خاتمے کا کوئی امکان نہیں چند افراد کو جب لٹکایا جائے گا تو کرپشن کا یہ عفریت اپنی موت خود مرجائے گا اس کے علاوہ سارے اقدامات کرکے دیکھے جاچکے ہیں مگر نتیجہ صفر ہی رہا ہے- جناب وزیراعظم!عام شہری کے صبر کا پیمانہ لبریزہورہا ہے کیا ہم اس انتظارمیں ہیں کہ خونخواستہ عام شہری سول نافرمانی یا بغاوت پر اتر آئے؟ بارہ ارب روپے روازانہ کی کرپشن کا انکشاف آپ نے فرمایا تھا اگر آپ کویاد ہوتو آج وہ کرپشن تین گنا نہیں تو دوگنا یعنی کم ازکم 24ارب روپے روزانہ پر پہنچ چکی ہے ناچیزنے مئی میں اپنے ایک مضمون میں ڈالروں اور سونے کی افغانستان اسمگلنگ کا ذکرکیا تھا مگر حکومت نے اس حقیقت کو اس وقت مانا جب ڈیمج ناقابل کنٹرول ہوچکا تھا آج ڈالربے قابو ہے اسٹاک مارکیٹ کا دلیوالہ نکلنے والا ہے معیشت نام کی کوئی چیزنہیں بچی تو ایسے میں حکومت کے ”درآمدشدہ“معاشی منیجروں کولٹکانا نہیں بنتا کہ جنہوں نے بڑی ”محنت“سے پاکستان کی معیشت کا جنازہ نکالا ہے ان کی جگہ پاکستان کے اندر بڑے اچھے ماہرمعاشیات ہیں انہیں ذمہ داریاں سونپی جائیں یونیورسٹیوں کے ماہرین معاشیات پر مشتمل ایک بورڈ تشکیل دیا جائے جو ملکی معاشیات کے رخ کا تعین کریں قرضوں کی ادائیگی کے لیے مزیدقرضوں کا حصول کونسی معاشی پالیسی ہے؟وزیراعظم صاحب!آپ ایک طرف ریاست مدینہ کی بات کرتے ہیں اور دوسری طرف بطور ریاست اور حکمران اللہ اور اس کے رسولﷺ کے ساتھ جنگ کررہے ہیں سود ی معیشت کی صورت میں آپ سے گذارش ہے کہ قرآن کی سود کی حرمت پر وعید کو دوبارہ پڑھیں اللہ سبحان وتعالی نے قتل اور زنا جیسے جرائم کو کبیرہ گناہ قراردیا مگر ان کے لیے حدودجاری فرما دیں مگر ذرا سوچیں سود پر حد یعنی سزا مقررنہیں فرمائی بلکہ اسے اللہ اور اس کے رسولﷺ کے خلاف جنگ قراردے کر اس کا معاملہ روزمحشرتک کے لیے اٹھا رکھا ہے یعنی یہ حدود میں اللہ میں آنے والے جرائم میں سب سے اوپر ہے-خدارا یا تو اس ملک کے ساتھ اب مذاق بند کیا جائے73سالوں سے اسلام کے نام پر اس ملک اور اس کے لوگوں کے ساتھ مذاق ہورہا ہے اگر ہم نے ایک سیکولر ریاست ہی بننا تھا تو 14لاکھ جانوں کی قربانی کیوں دی گئی؟ کیا یہ 14لاکھ شہدا ہمیں روزمحشرسوال نہیں کریں گے کہ ہم نے ان کے خون کا سودا چند ٹکوں کے عوض کیوں کیا؟آج قرآن‘اسلام اور دین کی بات کرنے والا بنیاد پرست‘دقیانوسی اور انہتا پسند قرارپاتا ہے جناب وزیراعظم ہم سب نے ایک دن اپنے رب کے حضور پیش ہونا ہے اور اپنے اعمال کا حساب دینا ہے یہ زندگی تو ایک دن ختم ہوجائے گی مگر ہمیشہ کی زندگی کے لیے ہم اپنے لیے کیا پسند کریں گے ؟ اللہ سبحان وتعالی نے آپ کو اقتدار اور اختیار سے نوازاہے ریاست مدینہ کے اپنے نعرے کو عمل سے ثابت کریں دلفریب تقریروں سے بات بہت آگے جاچکی ہے یہ موقع شاید آپ کو دوبارہ نہ ملے تین سال تو ضائع ہوچکے اب باقی کے دو سال عام شہریوں کو زندہ رہنے کا حق دیا جائے ناکہ انہیں خودکشیوں پر مجبور کیا جائے-

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :