بات تو سچ ہے مگر بات ہے ’’رسوائی ‘‘کی

منگل 30 اپریل 2019

Mirza Rizwan

مرزا رضوان

گذشتہ دنوں وطن عزیز پاکستان کے ’’ہونہار‘‘وزیراعظم جناب عمران خان صاحب پاکستان کے ’’قدیمی ‘‘ لاہور ریلوے اسٹیشن پر لاہور سے کراچی چلنے والی تیز ترین ’’جناح ایکسپریس ‘‘کا افتتاح کرنے کیلئے تشریف لائے ۔ لاہور ریلوے اسٹیشن کی اس سڑک سے میری ’’یاری‘‘بہت پرانی ہے ، آتے جاتے اسی سڑک سے گزرہوتا ہے کہ اس دن یہ سڑک ’’پروٹوکول ‘‘کے حصار میں تھی جسکی وجہ سے میری ملاقات ادھوری رہی ، خیر افتتاحی تقریب کے اگلے دن جب اس سڑک سے گزرا تو میں یقین سے کہہ سکتا ہوں کہ گاڑی کی سیٹ پر اگر پانی بھر ا گلاس رکھ کر اس سڑک سے گزرا جائے تو پانی گلاس سے باہر نہیں آسکتا ۔


واہ جی واہ ، یہ وہی سڑک ہے کہ جس سے گزرتے ہوئے کبھی ایک وقت کا کھانا ہضم ہوجاتا تھا اور اب اس قدر آرام دہ سڑک ۔

(جاری ہے)

۔۔کیا بات ہے ۔ یہ وہی سڑک ہے جو گذشتہ کئی سالوں سے ٹوٹ پھوٹ کا شکار رہی مگر لاہور ریلوے اسٹیشن کی اس سڑک کی قسمت کہ ’’وزیراعظم صاحب‘‘کے قدم مبارک پڑنے سے پہلے ہی اس کی مرمت کردی گئی ۔ خیر اچھی بات ہے ، ترقیاتی کام ہونے سے عوام بھی سکھ کا سانس لیتی ہے ۔

ورنہ ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہونے کی وجہ ٹریفک بلاک رہنا اور لمبی لمبی لائنیں معمول کی بات ہے، اور اس کے ساتھ ساتھ پھر وقت کا ضیاں ۔۔۔
مگر میں سوچتا ہوں کہ کہاں کہاں ’’وزیراعظم صاحب ‘‘کو مدعو کروں اور ویسے بھی میری کیا مجال کہ میں ’’وزیراعظم صاحب ‘‘کوکسی جگہ مدعو کرسکوں ۔۔۔اور پھر میری دعوت پر کون سے ’’وزیراعظم صاحب ‘‘آنے والے ہیں ۔

جناب ’’وزیراعظم صاحب ‘‘کہاں اور ’’میں ‘‘کہاں ۔۔۔بلاشبہ اس بات میں کوئی شک نہیں جناب ’’وزیراعظم صاحب ‘‘میں نے تو ایک سڑک کا تذکرہ کیا ہے یہاں تو بہت کچھ درست ہونے والا ہے اور پھر کہاں کہاں آپ قدم ’’رنجا‘‘فرمائیں گے ۔۔۔؟میں یہ جانتا بھی ہوں اور مانتا بھی ہوں کہ آجکل تو ’’آپ ‘‘پاکستان کو ترقی و خوشحالی کی راہ پر گامزن کرنے کیلئے بے حد ’’مصروف‘‘ہیں اور میں یہ بھی سوچتا ہوں کہ شاید ’’آپ‘‘صرف 3یا 4گھنٹے سوتے ہونگے باقی سارا وقت تو آپکا اس ملک وقوم کی خدمت میں گزر جاتا ہوگا ، اور آپ کا فوکس بھی ایک ’’مستحکم پاکستان ‘‘پر ہے ۔

محترم قارئین!میرے ’’آباو اجداد‘‘  تو ’’روٹی ، کپڑا، اور مکان ‘‘کا نعرہ سنتے اس دنیا سے چلے گئے اور اسی نعرے میں 2چیزیں مزید’’Add‘‘کردی گئیں ، چونکہ یہ نعرہ عوام کو بنیادی سہولتیں فراہم کرنے کیلئے ہی لگایا گیا تھا ، خداجانے میرے ’’بڑوں ‘‘کو اس نعرے کی وساطت سے کچھ ملایا نہیں ۔۔۔اور اب’’وزیراعظم صاحب ‘‘کے حکم پر روٹی ، کپڑا، مکان کے ساتھ صحت اور تعلیم بھی غریب عوام کو میسر آئیگی ۔

اور ان بنیادی حقوق کے ’’حصول ‘‘ کیلئے ’’شہری ‘‘اب ’’عدالت ‘‘سے بھی رجوع کرسکے گا۔جبکہ اسی صورتحال پر جناب ’’وزیراعظم صاحب ‘‘کا یہ بھی 
کہنا ہے کہ یہ ضروریات عوام کا ’’بنیادی حق‘‘ہیں اور اس حوالے سے ہم آئین کے آرٹیکل 138ڈی میں ترمیم کرنے کے بھی خواہاں ہیں ۔۔۔جی جی ضرورکریں جناب ’’وزیراعظم صاحب ‘‘ضرورکریں ۔

لیکن کیا یہ باتیں صرف ’’ترامیم ‘‘کی ہی حد تک محدود رہیں گی یا پھر غریب عوام کو اس نیک ’’جدوجہد‘‘سے کچھ عملی طور پر ملنے والابھی ہے ۔۔۔؟غربت کے خاتمے کو ’’جہاد‘‘قرار دینے کے عزم پر پوری قوم آپ کو ’’سلام ‘‘پیش کرتی ہے مگر ذرادھیان رہے کہ آپ کے دورحکومت کا اب تو ’’ہنی مون ‘‘بھی گزر چکا ہے ۔لیکن ’’مہنگائی ‘‘ہے کہ کم ہونے کا نام ہی نہیں لے رہی ، پٹرول ، گیس ، بجلی سمیت دیگر تمام بنیادی ضروریات زندگی رفتہ رفتہ غریب عوام کی ’’دسترس ‘‘سے دور تر ہوتی جارہی ہیں لیکن پھر یہ بچاری غریب عوام ’’آپ جناب ‘‘ سے بہت سے ’’امیدیں ‘‘لگائی بیٹھی ہے ۔

اور اپنا منہ ’’لٹکائے ‘‘اور ’’اٹھائے ‘‘آپ کی جانب دیکھ رہی ہے ۔
یقینا ’’احساس اور کفالت ‘‘کا عزم بھی قابل تعریف ہے اور غربت کے خاتمے کیلئے ہماری ’’محب وطن اپوزیشن ‘‘آپ کے ہر اقدام پر قدم بہ قدم آپ کا ساتھ دینے کو تیار ہے اور ساتھ دینا بھی چاہئے کیونکہ عوام کو غربت کی ’’دلدل‘‘سے نکالنے اسی ’’محب وطن اپوزیشن ‘‘نے ماضی میں اور اپنے ’’دورحکومت‘‘میں عوام کیلئے جو بھی اقدامات کئے وہ کسی سے ڈھکے چھپے نہیں ہیں ۔

جناب ’’وزیراعظم صاحب ‘‘گستاخی معاف ۔۔۔میرے خیال سے غربت کے خاتمے کیلئے بیان بازی اور ترامیم کی بجائے اگر عملی اقدامات کا آغاز کردیا جائے بھلے چھوٹے چھوٹے اقدامات سے ہی کیوں نا ہوتاکہ غریب عوام کو کچھ ناکچھ ’’ریلیف‘‘ملنا تو شروع ہو۔اور اس میں ہماری عوام کا آپ پر ’’اعتماد ‘‘بھی بڑھے گا ، کیونکہ ہم پہلے غربت کی چکی میں پسی اس عوام سے بہت سے وعدے کرچکے ہیں ۔

کون نہیں جانتا کہ روٹی ، کپڑااور مکان آج کی بات تو نہیں ۔لیکن پاکستان میں کوئی غریب شہری ایسا نہیں کہ جس نے ایک یا دو ماہ سے زیادہ بجلی ، گیس یا پھر پانی کا ’’بل ‘‘نہ دیا ہو اور متعلقہ ادارے نے اس کی سپلائی برقرار رکھی ہو، غریب شہری کو فوری طور پر نوٹس موصول ہو جاتاہے ۔ بجلی چوری ایس ڈی او ، لائن مین اور ایکسیئن کی سربراہی میں کروائی جاتی ہے لیکن اس کا خمیازہ غریب شہری کو بھگتنا پڑتا ہے چاہے وہ خود ساختہ لوڈ شیڈنگ سے ہی کیوں نا ہو ۔

بلکہ یوں کہنا ہوگا کہ بچارے غریب شہری ہر ماہ باقاعدگی سے لائن میںلگ کر بل بھی ادا کرتے ہیں اور ملکی خزانہ لوٹنے والے ’’راہ فرار‘‘اختیار کرجاتے ہیں ۔اور بعدازاں اس لوٹ مار کا جواب بھی ’’بچاری‘‘عوام کو دینا پڑتا ہے ۔روزبروز بڑھتے ٹیکس اور منہگائی نے عوام کی چیخیں نکال دی ہیں ۔
پٹرول ، گیس ، بجلی سمیت روزمرہ کی ضروریات زندگی کی آسمان کی چھوتی قیمتوں کو ’’زمین ‘‘پر لانے کیلئے شائد کسی ’’آئینی ترمیم ‘‘کی ضرورت نہ پڑے ۔

جناب ’’وزیر اعظم صاحب ‘‘سکولوں کی فیسیں ، مریضوں کیلئے ہسپتالوں میں بہترین طبی سہولیات ، سبزیاں ، دالیں اور پینے کیلئے صاف پانی ۔۔۔یہ سب وہ چیزیں ہیں جو’’ آپکی‘‘ اور ’’آپکے‘‘کے ایم این ایز کی ’’دسترس ‘‘میںتو ہیں مگرغریب عوام کی ’’دسترس‘‘ میں نہیں ہیں اور ان کیلئے 2وقت کی روٹی کا حصول بھی ناممکن ہوتا جارہاہے ۔ آپ ذرا معلوم کروائیں کہ ایسے کتنے اور کون سے علاقے ہیں جہاں پینے کا ’’صاف ‘‘پانی باآسانی غریب عوام کو مل رہاہے ۔

بلاشبہ یہ بھی ایک تلخ حقیقت ہے کہ غریب کو جو ’’سرکاری ‘‘پانی فراہم کیا جارہاہے ا س سے شائد ’’غسل ‘‘کرنا بھی ممکن نہیں تو پھر اس پانی کو انسانی صحت کیلئے کیسے موضوع قرار دیا جاسکتان ہے ۔ ’’آپ‘‘نے غریب عوام کیلئے جو بھی فیصلے کئے ہیں بلاشبہ وہ قابل ستائش ہیں لیکن اب عملی اقدامات کا آغاز فوری طور پر شروع ہونا چاہیے تاکہ ہماری غریب عوام بھی اپنی زندگی میں ایک مستحکم اور ترقی یافتہ ’’نیاپاکستان ‘‘دیکھ سکیں ۔ آخرمیں دعا ہے کہ اللہ رب العزت وطن عزیز پاکستان کو اندرونی و بیرونی دشمنوں سے محفوظ رکھے (آمین)  

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :