اسلام میں مرد کا مقام۔قسط نمبر1

جمعرات 8 اپریل 2021

Mohammad Burhan Ul Haq Jalali

محمد برہان الحق جلالی

اللہ رب العزت نے انسان کو اشرف المخلوقات پیدا کیا ہے مذہبِ اسلام جس کے ہم تابع فرمان ہیں۔ اس دین میں عبادات، نماز، روزہ،زکاة، حج وغیرہ سے لیکر کھانے، پینے، سونے جاگنے، شادی بیاہ بلکہ انسان کی پیدائش سے لے کر اس کی موت تک سب احکامات سب امور میں راہنمائی موجود ہے۔ حتی کہ جوبشری تقاضے ہیں، اسکی بھی ہدایات موجود ہیں۔ صرف کلمہ طیبہ لاالہ الا االلہ محمد رسول اللہ، پڑھ لینے سے کوئی انسان مکمل انسان نہیں بن جاتا، بلکہ مذکورہ تمام امور پر عمل بھی کرنا اُس انسان کے لئے بے حد ضروری ہے۔

اور یہ سب چیزیں بحکم خداوندی حضورپاک ﷺنے بتا دی ہیں۔ چنانچہ اسلام دوحصوں پرمحیط ہے۔ نمبر ایک حقوق اللہ۔یعنی نماز، روزہ، زکاة، حج وغیرہ۔ نمبر دوحقوق العبادیعنی بندوں پر ایکدوسرے کے کیا حقوق ہیں؟۔

(جاری ہے)


اسلام نے جہاں عورت کو مقام دیا ادھر ہی مرد کو مقام دیا ہے باپ بھائی شوہر کی حثییت سے جو مقام دین اسلام دیتا ہے کوئی مذہب نہیں دیتا
ا للہ تبارک وتعالیٰ نے سب سے پہلے والدین کے حق کو مقدم کیا ہے۔


بحیثیت باپ مقام
باپ دنیا کی وہ عظیم ہستی ہے جو کہ اپنے بچوں کی پرورش کے لئے اپنی جان تک لڑا دیتا ہے۔ ہر باپ کا یہی خواب ہوتا ہے کہ وہ اپنے بچے کو اعلیٰ سے اعلیٰ میعار زندگی فراہم کرے تاکہ وہ معاشرے میں باعزت زندگی بسر کرسکے صرف باپ ہی وہ ہستی ہے جس کی خواہش ہوتی ہے کہ میرا بیٹا میری بیٹی میری اولاد مجھ سے بھی زیاہ کامیاب ہو مجھ سے بھی بڑے مقام پر پہنچیاور معاشرتی ترقی میں اپنا کردار ادا کرسکے۔

والدین دنیا کی سب سے بڑی نعمت ہیں۔
والد انسان کو عدم سے وجود میں لانے والی ذات ہے یعنی اس کی پیدائش کا سبب ہے اس گلشن انسانیت کی ابتداء باپ (حضرت آدم علیہ السلام) سے ہوئی اور ان ہی سے عورت (حضرت حوا) کا وجود تیار کیا گیاہے۔ اولادکی تعلیم وتربیت میں والد کا کردار ضروری ہوتا ہے،جب کہ اس کے برعکس ماں کی حد سے زیادہ نرمی اور لاڈ پیارسے اولاد نڈراور بے باک ہو جاتی ہے جس کی وجہ سے اس کی تعلیم،تربیت اورکردار پر بُرا اثر پڑتا ہے،جب کہ والد کی سختی،نگہداشت اورآنکھوں کی تیزی سے اولاد کو من مانیاں کرنے کا موقع نہیں ملتا۔

شاید یہی وجہ ہے کہ اولاد باپ سے زیادہ ماں سے قریب ہوتی ہے، لیکن اولادیہ نہیں جانتی کہ اس کے والد کو گھر چلانے اور تعلیم وتربیت کا مناسب اہتمام کرنے کی لیے کتنے پاپڑ بیلنے پڑتے ہیں۔باپ ہی ہوتا ہے جو اپنے اہل وعیال اور اولادکو پالنے کے لیے خود بھوکا رہ کریا روکھی سوکھی کھاکرگزارہ کرتا ہے، لیکن پوری کوشش کرتا ہے کہ اس کے بچوں کو اچھاکھانا، پینا،تعلیم اور تربیت میسرہو۔


رب کائنات نے ارشاد فرمایااگر جنت کمانی ہوتو اپنے والدین کی خدمت کرو والدین جو حکم دیں ان کو بجالاؤ ان کے آگے اف تک نہ کرو جب وہ باہر سے آئیں تو ان کے استقبال کے لیے کھڑے ہو جاؤ جس طرح کئی مقام پر والدین کے ساتھ ادب سے پیش آنے اور ان کے سامنے عاجزی اختیار کرنے کا حکم دیا گیا ہے۔
باپ ایک عظیم محافظ ہے جو ساری زندگی اپنے خاندان کی حفاظت کرتا اور اپنی اولاد کا سب سے بڑا خیر خواہ اور سچا دوست ہے، پھر کیا و جہ ہے کہ اس کی تکریم کے بارے میں کم لکھا جاتا اور رتبے میں اسے کم سمجھا جاتا ہے۔

ماں کے لیے تو سبھی دعا کرتے ہیں اور کرنی بھی چاہیے۔ ماں کا پیار تو سب کو نظر آتا ہے کہ وہ عظیم ترین ہستی ہے، لیکن اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ والد کا رتبہ اور خدمات کم ہیں اور اسے نظرانداز کردینا چاہیے۔ ماں کی طرح باپ کو بھی اپنی اولاد سے پیار ہوتا ہے۔
والد کی قدر کرنی چاہیے۔ باپ کی کمائی اور ورثے کی تو اولاد حق دار بنتی ہے، مگر اس کے دیگر تجربات اور اصولوں سے کم ہی فائدہ اٹھاتی ہے۔

حالاں کہ باپ ایک ایسی کتاب ہے جس پر تجربات تحریر ہوتے ہیں۔ اپنے والد کو خود سے دور مت کریں بل کہ اس کے تجربات سے سیکھیں۔ ہم دیکھتے ہیں کہ نئی نسل والدین سے خود کو زیادہ عقل مند خیال کرتی ہے۔
والد ایک انتہائی ذمہ دار انسان ہے جو اپنی خون پسینے کی محنت سے گھر چلاتا ہے و الد ایک مقدس محافظ ہے جو ساری زندگی خاندان کی نگرانی کرتا ہے۔

والد کے آنسو تمہارے دکھ سے نہ گریں ورنہ اللہ تم کو جنت سے گرادے گا۔اوردوران حیات باپ کا ادب واحترام کرنا ان سے محبت کرنا اولاد پر لازم ہے ا سی طرح جب والدین دنیا سے رخصت ہوجائیں تو ان کے لیے سرمایہ آخرت نیک اولاد ہی ہوتی ہے جو ان کے لیے رحمت و مغفرت کی دعا کرتی ہے۔
اللہ تعالیٰ کی خوش نودی باپ کی خوش نودی میں اور اللہ تعالیٰ کی ناراضگی باپ کی ناراضگی میں مضمرہے۔

اللہ تعالیٰ نے اولاد کو اپنے والدین کے حق میں رحمت و مغفرت کی دعا بھی سکھائی ترجمہ اے میرے رب میرے والدین پر رحمت کاملہ نازل فرما جس طرح کہ انہوں نے میرے ساتھ رحمت کا معاملہ کیااوروالد کی خدمت و ا حترام سے د نیا اورآخرت میں کامیابی ملتی ہے۔والد اللہ تعالیٰ کی عظیم نعمت ہے اورباپ سچے جذبے اور صادق رشتے کا نام ہے،جس کا کوئی نعم البدل نہیں۔

باپ کی عظمت سے کوئی بھی انسان، دین، مذہب، قوم اور فرقہ انکار نہیں کر سکتا۔ باپ کا رشتہ ہر غرض بناوٹ اور ہر طرح کے تقاضے سے پاک ہوتاہے۔
جب اولاد والدین کی بخشش کے لیے دعا کرنا چھوڑ دے تو اس کا رزق روک لیا جاتا ہے۔ مطلب یہ کہ رزق میں برکت نہیں رہتی، رزق ہوتا ہے مگر کمی کا رونا روتے رہتے ہیں۔ اس میں برکت نہیں ہوتی، ہوس بڑھ جاتی ہے۔

بد نصیب ہے وہ شخص جو اپنے والدین کی خدمت کرکے ان کی دعا نہیں لیتا اور دوسرے لوگوں سے کہتا پھرتا ہے کہ میرے لیے دعا کرو۔ باپ ایک رحمت خداوندی ہے جو سدا ایک چادر کی طرح سر پر تنی رہتی ہے۔ جب کوئی اپنے والدین سے سختی سے بات کرتا اور اونچی آواز سے ان کو جھڑکتا ہے تو اس وقت اللہ اور اس کے فرشتے اس پر لعنت کرتے ہیں۔ تمہاری نماز، روزہ، حج، زکوة کس کام کا جب تم سے تمہارے والدین ہی خوش نہ ہوں۔


ایک شخص نبی کریمﷺکی خدمت میں حاضر ہوا اور شکایت کی کہ میرے والد نے میرا سب مال لے لیا ہے۔ نبی کریمﷺنے ارشاد فرمایا کہ اپنے والد کو بلا کر لاؤ۔ اسی وقت جبرئیل علیہ السلام تشریف لائے اور عرض کیا اے اللہ کے رسول ﷺ جب اس لڑکے کا والد آجائے تو آپﷺ اس سے پوچھیں کہ وہ کلمات کیا ہیں جو اس نے دل میں کہے ہیں۔ اس کے کانوں نے بھی ان کو نہیں سنا۔

”جب وہ نوجوان اپنے والد کو لے کر آیا۔ تو نبی کریمﷺنے فرمایا آپ کا بیٹا آپ کی شکایت کرتا ہے کیا آپ چاہتے ہیں کہ اس کا مال چھین لیں؟ والد نے عرض کیا یا رسول اللہﷺآپﷺ اسی سے پوچھ لیں کہ میں اس کی پھوپھی، خالہ یا اپنے نفس کے سوا کہیں خرچ کرتا ہوں۔ نبی کریم ﷺنے فرمایا کہ پس حقیقت معلوم ہو گئی۔ اس کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے والد سے دریافت فرمایا وہ کلمات کیا ہیں جو تم نے دل میں کہے اور تمہارے کانوں نے بھی نہیں سنا؟اس شخص نے عرض کیا یا رسول اللہ ﷺ یعنی جو بات کانوں نے سنی اس کی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو اطلاع ہو گئی پھر اس نے کہا کہ میں نے چند اشعار دل میں پڑھے تھے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا وہ اشعار ہمیں بھی بتاو۔

اس صحابی رضی اللہ عنہ نے عرض کیا میں نے دل میں یہ کہا تھا”میں نے تجھے بچپن میں غذا دی اور جوان ہونے کے بعد تمہاری ہر ذمہ داری اٹھائی تمہارا سب کچھ میری کمائی سے تھا۔ جب کسی رات تمہیں کوئی بیماری پیش آگئی تو میں نے رات نہ گزاری مگر سخت بیداری اور بیقراری کے عالم میں۔ مگر ایسے جیسے کہ بیماری تمہیں نہیں مجھے لگی ہوئی ہے جس کی وجہ سے تمام شب روتے ہوئے گزار دیتا۔

میرادل تمہاری ہلاکت سے ڈرتا رہا، اس کے باوجود کہ میں جانتا تھا کہ موت کا ایک دن مقرر ہے۔ جب تو اس عمر کو پہنچ گیا تو پھر تم نے میرا بدلہ سخت روئی اور سخت گوئی بنالیا، گویا کہ تم ہی مجھ پر احسان و انعام کر رہے ہو۔ اگر تم سے میرا حق ادا نہیں ہو سکتا تو کم از کم اتنا ہی کر لیتے جیسا ایک شریف پڑوسی کیا کرتا ہے۔ تو نے مجھے کم از کم پڑوسی کا حق ہی دیا ہوتا۔

میرے ہی مال میں مجھ سے بخل سے کام نہ لیا ہوتا۔نبی کریم ﷺ نے جب یہ سنا تو بیٹے کو فرمایا ”انت و مالک لا بیک ”کہ تو اور تیرا مال سب تیرے باپ کا ہے
آپ ﷺ نے فرمایا کہ اس کی ناک خاک آلود ہوئی، وہ ذلیل ہوا (یہ بات آپ نے تین مرتبہ ارشاد فرمائی) لوگوں نے پوچھا اے رسول اللہﷺ کون ذلیل ہوا۔۔۔۔؟
آپﷺنے فرمایا وہ شخص جس نے اپنے والدین کو بڑھاپے کی حالت میں پایا اور ان دونوں میں سے ایک یا دونوں کی خدمت کرکے جنت میں داخل نہ ہوا۔ (جاری ہے)۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :

متعلقہ عنوان :