شکر گزاری نعمتوں کو دوام بخشتی ہے

منگل 4 جنوری 2022

Mohammad Faizan Waris

محمد فیضان وارث

اللہ تعالٰی نے انسانوں کو پیدا کیا اور اسے اشرف المخلوقات بنایا   اور اس کی فطرت و جبلت  میں طرح طرح کی صفات اور عادات رکھیں ۔ان صفات میں ایک اہم اسلامی صفت شکر گزاری ہے ۔
شکر گزاری کا مطلب کہ اللہ پاک کی نعمتوں کا شکر ادا کرنا ۔ان کا زبان سے ،دل سے اور عمل سے اظہارِ تشکر کرنا ۔
حالات جیسے بھی ہوں آپ مشکلات کے دلدل میں پھنسے ہوں یا برکتوں اور رحمتوں سے لطف اندوز ہو رہے ہوں  شکر کرنا واجب ہیں ۔

کیونکہ اگر آپ مشکلات میں اللہ کا شکر ادا کرتے ہیں تو اللہ پاک آپ کی پریشانی اس لیے دور کر دے گا کہ میرا بندہ اس حالت میں بھی میرا شکر گزار ہے
کیونکہ
بے شک اللہ ہر چیز پر قادر ہے ۔
اگر آپ خوشیوں ، آسانیوں میں رب کا شکر بجا لاتے ہیں اور ممنون رہتے ہیں  تو  ذاتِ باری تعالٰی اپنے بندے سے راضی ہوتی  ہے کہ میرا بندہ میرا ممنون ہے   اور اللہ پاک اسے اور زیادہ نوازتا ہے کیونکہ شکر گزاری نعمتوں کو دوام بخشتی ہے ۔

(جاری ہے)


ارشاد ربانی ہے
"اگر تم شکر کرو گے تو میں اور زیادہ دوں گا ۔"
 شکر کی اہمیت سنت نبوی   سے واضح ہے کہ حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم   رات بھر شکر کرتے رہتے یہاں تک کہ آپ کے پاؤں سوجھ جاتے ۔جب اللہ پاک نے اپنے محبوب کی یہ کیفیت دیکھی تو فرمایا اے نبی راتوں کو قیام کیا کریں مگر کم ۔
اس کے بعد بھی آپ قیام کرتے رہے اور رات بھر شکر کرتے رہے ۔


تو پھر ام الموئمنین حضرت اماں عائشہ نے فرمایا اے اللہ کے برگزیدہ نبی اللہ نے آپ کو معصوم بنایا تو پھر آپ  راتوں کو اس قدر تکلیف کیوں اٹھاتے ہیں تو اس پر میرے نبی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم   نے جو جواب دیا  لکھنے والے انھیں سنہری حروفوں میں تحریر کرتے ہیں  اور جواب کچھ یوں تھا کہ اے عائشہ کیا میں اللہ کی عنایتوں کا شکر گزار نہ بنو ۔


اس بات سے شکر گزاری کی اہمیت اور بڑھ جاتی ہے کہ جو اللہ کا محبوب ہو کر اس قدر شکر ادا کرتا ہے تو ہم پر بھی لازم ہے کہ ہر حال میں اللہ کا شکر ادا کریں ۔
کیونکہ شکر شکوے سے بہتر ہے ۔
اظہارِ تشکر  کے تین طریقے ہیں ۔
زبان سے شکر ادا کرنا ۔
جیسے جب ہم پر کوئی رحمت کوئی آسانی آتی ہے تو ہم زبان سے الحمداللہ کہتے ہیں ۔جس اظہار تشکر اور طریقِ ممنون  میں زبان بروئے کار لائی جائے اسے زبان سے شکر ادا کرنا کہتے ہیں ۔


اس کے بعد اظہارِ تشکر کا دوسرا طریقہ دل سے شکر ادا کرنا ہے ۔اس سے مراد اللہ پاک کی دی گئی نعمتوں کو دل سے محسوس کرنا اور اپنے اندرونی خالص جذبات سے اللہ کے احسان مند اور ممنون  ہونا ۔
اور شکر کا سب سے بہتریں طریقہ اپنے عمل سے اظہار کرنا ہے ۔عمل سے اظہار کرنے کا مطلب یہ ہے کہ جو نعمتیں اللہ پاک نے آپ کو دی ہیں ان نعمتوں کو صرف خود تک محدود نہ رکھنا بلکہ ان سے مخلوقَ خدا کو آسانیاں پہنچانا اور ان میں بانٹنا ۔


اس کے بارے میں اشفاق احمد صاحب  اپنی کتاب زاویہ میں لکھتے ہیں کہ ایک بار میں گھر میں بیٹھا اپنی والدہ کے ساتھ کھانا کھا رہا تھا۔ کھانے میں مٹن شلجم (گونگلو مٹن)  بنے ہوئے تھے اور روٹی بھی مکھن کی جو پڑی ہوئی تھی آپ کہتے ہیں کہ میں نے اس کے ساتھ دو روٹیاں کھائیں  اور پھر اللہ کا شکر ادا کیا تو آپ کی والدہ نے آپ کو رب کا شکر بجا لاتے دیکھا  تو پھر  وہ بے دھڑک بول اٹھی  ( اے پتر کی کیتا ای)  اے بیٹا یہ کیا  کیا  ہے تو آپ نے کہا ماں جی میں نے رب کا شکر ادا کیا ہے تو آپ کی والدہ نے کہا بیٹا ایسے شکر ادا نہیں کرتے اصل شکر  تب ہوتا جب تم ایک روٹی آپ کھاتے اور ایک بانٹ دیتے ہیں ۔


تو آپ نے کہا اس دن میں سمجھ گیا کہ اصل شکر تب ہے جو رب نے ہمیں نعمت عطا کی اسے آگے بانٹیں ۔
ہمیں بھی چاہیئے جن نعمتوں سے اللہ پاک نے ہمیں نوازا ہے ہم ان کا عملی شکر کا مظاہرہ کرتے ہوئے آگے بانٹیں ۔خواہ وہ علم ہو ،دولت ہو ،عقل ہو ،محبت ہو ۔
جو لوگ بانٹنے کا طریق  رکھتے ہیں اللہ پاک ان پر مہربان ہو جاتا ہے اور اس بات پر خوش ہوتا ہے کہ بندے نے میرے دئیے میں سے آگے دیا ۔

اور پھر بطورِ انعام   بے شمار نعمتیں اسے عطا کرتا ہے اور روحانی سکون بھی دے دیتا ہے جو سب سے بڑا خزانہ ہے ۔
اس کے بر عکس بہت سے لوگ ہوتے ہیں جو ہر وقت اپنے نصیب کو کوستے رہتے ہیں ،انھیں لگتا ہے باقی سب کی زندگی بہتر گزر رہی ہے مگر ہماری ہی قسمت  خراب ہے ۔بڑے بد بخت ہوتے ہیں ایسے لوگ جو اپنے پاس موجود نعمت کی نا شکری کرتے ہیں ۔ناشکرا انسان مایوسی ،حسد جیسی کیفیت کا شکار ہو جاتا ہے ۔


آئیے ذرا خود کا محاسبہ  کریں جو  نعمت صحت کی صورت میں  اللہ پاک نے ہمیں عطا کی ہے بہت سے بیمار پڑے لوگ ایسی صحت مند زندگی کو ترستے رہتے ہیں ۔
جن جامعیات میں ہم زیر تعلیم ہیں بہت سے لوگوں کا ان تعلیمی اداروں کو دیکھنا صرف خواب ہوتا ہے ۔جس ریسٹورنٹ میں اعلٰی قسم کے پکوان کھانا ہمارا معمول ہے وہاں بہت سے لوگوں کا جانا بھی ایک سہانا خواب ہوتا ہے ۔

ریسٹورنٹ میں جو پیزا ،برگر ہم پلیٹ میں چھوڑ کر آ جاتے ہیں کچھ لوگ انھیں کچرے کے ڈھیروں میں تلاش کرتے ہیں ۔اتنی ساری نعمتوں کے باوجود بھی اگر ہم اپنے رب کے ممنون  نہیں ہیں  تو ہم کتنے بد نصیب ہے ۔
اگر یہ تمام نعمتیں ہمیں میسر ہیں تو ان میں ہمارا کوئی کمال نہیں بلکہ اللہ پاک کا کرم ہے جس پر ہمیں رب کا ضرور شکر ادا کرنا چاہیئے اور جن کو یہ نعمتیں میسر نہیں تو ان میں ان کا کوئی قصور نہیں بلکہ ان کے لیے آزمائش ہے اور رب اپنے پیاروں کو ہی آزمائش میں ہی ڈالتا ہے۔

اس پر مایوس ہونے کی بجائے اللہ پاک سے امید اور یقین کے ساتھ خیر کی دعا کرنی چاہیئے ۔کیونکہ میرا رب فرماتا ہے کہ میری رحمت سے مایوس نہ ہو ۔
اس لیے ہمیں چاہیئے کہ اللہ پاک کی دی گئی نعمتوں کا شکر ادا کریں اور اپنے سوشل سرکل میں  جہاں تک ہو سکے سب میں بانٹنے کا رویہ اختیار کریں ۔
زندگی میں اگر سکون چاہتے ہو تو الحمد اللہ اور انشاء اللہ کہنا سیکھیں ۔


الحمداللہ اور انشاء اللہ فقط دو الفاظ نہیں بلکہ دو اصول ہیں ۔الحمد اللہ سے مراد یہ ہے کہ ہر حال میں اللہ پاک کا شکر ادا کیا جائے ۔کیونکہ جب ہم شکر ادا کریں تو اللہ پاک ہم پر اپنا خاص کرم کرے گا ۔اور بلاشبہ شکر گزاری نعمتوں کو دوام بخشتی ہے ۔اور انشاء اللہ سے مراد ہے کہ ہمیں اللہ پاک کی ذات پر امید ہے جو ہوگا ہمارے حق میں موزوں اور بہتر ہو گا  اور یقین ہے کہ اگر حالات برے بھی ہیں تو وہی ذات اس کو ٹھیک کرنے پر قادر ہے اور اس سے انسان مایوسی ،ناشکری سے بچ جاتا ہے ۔

اور اللہ کی طرف سے دی گئی آزمائش میں کامیاب ہو جاتا ہے ۔اور جو لوگ اللہ سے امید رکھتے ہیں ،شکر گزار رہتے ہیں اور ناشکری سے بچیں رہتے ہیں اللہ پاک انھیں اپنا قرب بھی عطا کرتا ہے اور ان کو قلبی اور روحانی اطمینان بھی بخش دیتا ہے ۔
اس لیے خود بھی شکر گزار بنیں اللہ کی نعمتوں کا اقرار کریں ،ان کے ممنون بنیں اور آنے والی نسلوں کو بھی شکر گزاری کا سبق دیں ۔
اللہ پاک ہم سب کو شکر ادا کرنے کی توفیق عطا فرمائے ۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :

متعلقہ عنوان :