اعلٰی ظرفی کا مظاہرہ کریں

بدھ 9 جون 2021

Mohammad Faizan Waris

محمد فیضان وارث

روزمرہ کی زندگی میں ہماری بہت سے لوگوں سے ملاقات ہوتی ہے اور بات چیت کا موقع ملتا ہے. جب ہم کسی سے ہم کلام ہوتے ہیں تو بیشتر اوقات ان کے لہجے, ان کی باتیں, ان کے رویے  ہمارے ذہنوں پر نقش ہو جاتے ہیں. ان کا طرزِ بیاں ہمارے ذہنوں پر نقش ہونے کی دو وجوہات ہیں. ایک تو یہ کچھ لوگ اتنے اسلوب زدہ ہوتے کہ ان کا لہجہ ہمیں بہت دلکش لگتا ہے .

اس کے بر عکس کچھ لوگ ایسے  بے ڈھنگے اور اکھڑے لہجے سے   بات کرتے ہیں جو دلی طور پر ہمیں ٹھیس پہنچاتا ہے اورایسے لہجے بھی  یقیناً یاد رہتے ہیں .خاص کر تب جب آپ کسی سے نہایت ادب و احترام سے  بات کریں اور جواب میں وہ آپ کو نہایت بد مزاجی  سے جواب دے.

(جاری ہے)

 
کچھ لوگ اس قدر خوش اخلاق ہوتے ہیں کہ اگر ان کے ساتھ بھلائی کی جائے تو وہ صدیوں تک یاد رکھتے ہیں اور کچھ لوگ اتنے ناقدرے ہوتے ہیں کہ لوگوں کی قدر کا جواب ناقدری میں دیتے.ایسے لوگوں کے بارے میں میاں محمد بخش فرماتے ہیں .


اصلاں  نال جے  نیکی کریے نسلاں تک نئیں بھلدے
بد نسلاں نال جے نیکی کرئیے پٹھیاں چالاں چلدے
  جب ہمارا ایسے لوگوں سے واسطہ پڑتا ہے تو اکثر ہم ان کے لہجے کا جواب انھی کے طریقے سے دینا چاہتے ہیں .مگر اس طرح جواب دینا باشعور انسان کو زیب نہیں دیتا  . پہلے پہل میں بھی  ایسے سوچتا تھا کہ ان لوگوں کو ان ہی کے حساب  سے جواب دینا چاہئے. مگر ایک دن میں کسی بڑے کے پاس بیٹھا تھا تو انہوں نے مجھے نصیحت کی کہ بیٹا  لوگوں کے رویوں سے پریشان نہیں ہونا. لوگ اپنے ظرف اور تربیت کے مطابق سوچتے ,بولتے اور عمل کرتے ہیں .

اس لیے ہمیشہ اعلٰی ظرفی کا مظاہرہ کرنا اور صبرو تحمل سے کام لینا .  اس دن میں یہ سمجھ گیا کہ یہ ان کا قصور نہیں بلکہ ان کا ظرف ہی ایسا ہے .اور تب سے   میں نے ان  کی نصیحت  پلے باندھی  اور یہ بات بالکل درست ہے اگر کوئی انسان بد مزاجی  سے بات کرتا ہے تو جواباً ہم نے اپنے غصے کے تابع ہو کر وہی روش اختیار کر لی  تو ہم میں اور ان میں کیا فرق رہ جائے گا .

ممکن ہے اگر ہم اس سے اچھے طریقے سے بات کریں  تو شاید وہ متاثر ہوجائے اور وہ اپنے اندازِ بیاں کو بدل لیں اگر وہ پھر بھی  متاثر نہیں ہوتا اور اپنا طریقہ نہیں بدلتا ہے تو  تب بھی ہمیں   یہ سکون حاصل  ہوگا کہ ہم  نے اپنی تربیت کا درست حق ادا کیا  اور اعلٰی ظرفی کا مظاہرہ کیا اور ایسے موقع پر ایک اور حل  یہ ہے کہ جب اکھڑا پن کا سامنا ہو تو   خاموشی اختیار کی جائے   کیونکہ بے ادبی سے خاموشی ہزار گنا بہتر ہے. اور ایک باشعور اور اعلٰی ظرف انسان بدلہ نہیں لیتا .


ایک دانشور کا کہنا ہے کہ اعلٰی ظرف کا غصہ اسے بنا جاتا ہے  اور کم ظرف کا غصہ اسے تباہ کر دیتا ہے .کیونکہ اعلٰی ظرف غصہ کے وقت صبر و تحمل کا مظاہرہ کرتا ہے اور اپنی تربیت کا مان رکھتا ہے .
اور  ایسے لوگوں سے بحث کرنا فضول ہے کیونکہ
جلال الدین رومی فرماتے ہیں
 چالیس عالموں کو دلیل سے ہرایا جاسکتا ہے مگر ایک ان پڑھ جاھل کو ہم دلیل سے نہیں ہرا سکتے.کیونکہ ایک جاہل صرف  اپنی جیت منوانے کے لیے ہی بحث کرتا ہے .


 تو اس لیے جب ایسا کبھی موقع آئے کوئی آپ کے ساتھ ایسا بے ڈھنگ لہجہ  اختیار کرے تو ایسے لوگوں کے ساتھ  خاموشی کا معاملہ اختیار  کریں.اعلٰی ظرفی اور صبر وتحمل کا دامن ہاتھ سے جانے نہ دیں اور بے شک اللہ پاک بھی دوسروں کی غلطیوں کو درگزر اور غصہ کے وقت خود پر قابو  پانے  والے کو پسند فرماتا ہے .

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :