آخر ہم غلطی تسلیم کیوں نہیں کرتے ؟

بدھ 8 ستمبر 2021

Mohammad Faizan Waris

محمد فیضان وارث

گزشتہ روز ایک بازار سے میرا گزر ہوا تو میں نے وہاں دیکھا دو   افراد کے مابین سخت مکالمہ جاری تھا۔  ان دونوں  میں ایک دکان دار اور دوسرا گاہک تھا ۔ دیکھتے ہی دیکھتے  وہ مکالمہ جھگڑے کی شکل اختیار کر گیا  اور گالم گلوچ تک معاملہ آ پہنچا ۔ان میں سے دکان دار کی غلطی واضح عیاں ہو رہی تھی تمام تر شواہد اس کی طرف ہی اشارہ کر رہے تھے  مگر وہ ہٹ دھرم تھا اور ڈٹا ہوا تھا کہ میں غلط نہیں ہوں اور اس لڑائی کی وجہ دوسرے کو ٹھہرا رہا تھا جبکہ حقیقت کچھ اور تھی۔

اگر وہ دکان دار غلطی مان لیتا تو شاید یہ معاملہ اتنا نہ بڑھتا ۔
  کچھ دیر بعد جب میں گھر واپس آیا تو  خود کلام ہوا کہ ہم غلطی ہونے پر بھی اپنی  غلطی تسلیم کیوں نہیں کرتے ،آخر ہم غلط کیوں نہیں ہو سکتے ؟؟
دیکھیں اس بات میں کوئی دو رائے نہیں کہ ہم اولاد آدم ہیں اور انسان ہیں ۔

(جاری ہے)

انسان لفظ نسیان سے نکلا ہے جس کا مطلب بھولنے والا ہے  تو اس کا مطلب ہے انسان بھول کر سکتا ہے ،انسان سے غلطی سرزد ہو سکتی ہے ،انسان غلطیوں کا پتلا ہے۔

جب حضرت آدم سے غلطی ہو سکتی  ہے تو ہم سے کیوں نہیں۔ لیکن یہ سب جانتے ہوئے بھی ہم اپنی غلطی کو ماننے کو تیار نہیں ہوتے ۔ہم سمجھتے ہیں کہ ہم سے غلطی نہیں ہو سکتی۔ جب کسی معاملے میں غلطی نہ ہو تب تو غلطی نہ ماننا سمجھ آتا ہے  مگر جب ہم غلط ہوں پھر بھی  اس پر ڈٹ جانا کہ ہم غلط نہیں ہیں یا اپنے کیے  کا قصوروار کسی اور کو ٹھہرانا اخلاقیات اور انسانیت کی سراسر  توہین ہے۔


کیونکہ ہمارا دین بھی یہی کہتا ہے کہ اگر آپ غلط ہوں تو غلطی قبول کریں اور معافی مانگ لیں ۔
جب انسان غلطی نہیں مانتا تو وہ انا اور مغروری کا شکار ہو جاتا ہے اور یہ دونوں صفات شیطان کی ہے ۔اور جب تک انسان شیطان کی روش اختیار کیے ہوئے ہے تو کیسے ممکن ہے کہ وہ فلاح پائے ۔
ہمارا المیہ بن چکا ہے کہ اگر غلطی سر زد ہو جائے تو ہم نے ماننی نہیں ہوتی اور دوسری بات اگر کبھی تھوڑی سی اخلاقیات جاگ اٹھے تو پھر بھی آخر پر اپنی غلطی کا سارا ملبہ ہم نے کسی اور کو یا حالات یا  زمانے پر ڈالنا  ہوتا ہے ۔


اس بات کی عکاسی شاعر کچھ یوں کرتا ہے
ڈال کے اپنے عیبوں پہ پردہ اقبال
ہر کوئی کہہ رہا ہے زمانہ خراب ہے ۔
مثال کے طور پر اگر کوئی طالب علم امتحان میں ناکام ہو جاتا ہے تو وہ کبھی بھی اپنی غلطی نہیں مانتا ۔وہ ہمیشہ ناکامی کی وجہ مشکل پیپر ،استاد ،بورڈ کو ٹھہراتا ہے ۔اگر کچھ نہ کہنے کو رہے تو وہ سارا معاملہ قسمت پر ڈال دیتا ہے ۔

جالانکہ ایسا نہیں ہے ۔جو انسان پوری محنت اور کوشش کرتا ہے اللہ پاک اس کا اجر ضرور دیتا ہے ۔
صرف طالب علم ہی نہیں بلکہ ایک کثیر تعداد کے لوگ  خواہ وہ  کسی بھی شعبے سے ہو اپنی غلطی ماننا انھیں گوارہ نہیں ہوتا اور وہ ہمیشہ اپنی ناکامی اور نا اہلی کی وجہ دوسروں کو ٹھہراتے ہیں ۔
کسی دانشور نے اس کے بارے میں کیا خوب کہا ہے
"اپنی غلطیوں سے سیکھنے کا بہترین طریقہ یہ ہے کہ کسی اور پر الزام لگانے کے بجائے ان کو تسلیم کیا جائے "
کوئی شازو ناظر ہی لوگ ہوتے ہیں کہ اگر ان سے غلطی سر زد ہو جاتی ہے تو وہ اس کو تسلیم کرتے ہیں اور پھر اس کو سدھارتے ہیں کیونکہ بغیر غلطی تسلیم کیے ہم سدھار نہیں سکتے اور جب تک سدھارے گے نہیں کامیاب نہیں ہو سکتے ۔


کافی عرصے کی بات ہے ایک شخص ایک کمپنی میں کام کرتا تھا ۔پہلے پہل تو اس نے کمپنی میں بہت ترقی کی مگر کچھ ہی دیر بعد  اس شخص کے کام میں  بہتری نہیں آرہی تھی ۔جب اس سے پوچھا گیا تو اس نے اپنی نا اہلی کا ذمہ دار اپنے ساتھیوں اور اپنی ٹیم کو ٹھہرایا ۔جبکہ اصل غلطی اس کی اپنی سستی اور نا اہلی تھی ۔
ایک دن جب وہ دفتر میں آیا تو اسے کمپنی کی طرف سے خط ملا ۔

جب اس شخص نے خط کھولا اور پڑھنا شروع کیا ۔اس خط میں یہ لکھا تھا کہ  جو آپ کو ترقی نہیں کرنے دیتے تھے انھیں ہم نے بر خاست کر دیا ہے اور اس خط میں ایک ایڈریس قلم بند تھا کہ وہاں جا کر ان لوگوں کو دیکھ سکتے ہیں ۔
یہ سب پڑھ کر وہ خود سے باتیں کرنے لگا کہ دیکھا جو میں کہتا تھا سچ ہوا اور لکھے ہوئے ایڈریس کی جانب چل نکلا ۔جب وہ اس ایڈریس پر پہنچا تو وہ دیکھتا ہے کہ وہاں ایک کمرہ ہے جب وہ کمرے میں داخل ہوتا ہے تو وہاں آئینہ ہوتا ہے اور اس آئینے میں وہ خود کو دیکھتا ۔

اس وقت اسے احساس ہوتا ہے کہ میری ناکامی کا ذمہ دار کوئی اور نہیں بلکہ میری اپنی ذات ہے ۔
اور وہ کمپنی بھی اسے اس کی نا اہلی باور کروانے کے لیے یہ خط لکھا تھا ۔
ایسی بہت سی مثالیں ہیں کہ لوگ اپنی غلطی نہیں مانتے اور اپنی ناکامیاں دوسروں کے سر ڈال دیتے ہیں ۔
ہم معاشرے کو چھوڑ کر  صرف اپنے گھر کی بات کریں تو وہاں بھی کوئی غلطی ماننے کو تیار نہیں ہوتا ہے چاہے کسی بڑے سے ہو جائے یا چھوٹے سے غلطی ہوئی ہو ۔


غلطی نہ ماننے کی بہت سی وجوہات ہو سکتی ہیں مگر میرے نزدیک غلطی نہ ماننے کی دو اہم  وجوہات ہیں ۔
سب سے پہلے تو جب غلطی سرزد ہو جاتی ہے تو ہم ماننے کی بجائے بحث یا مکالمے کو ترجیح دیتے ہیں ۔وہ اس لیے کہ ہماری شروع دن  سے ذہن سازی ایسی ہوتی ہے کہ اگر ہم غلطی مان لیں گے تو ہماری شان وشوکت میں کمی آجائے گی اور لوگ ہمیں نا اہل سمجھیں گے ۔

بلکہ حقیقت میں وہ انسان کی عزت نفس نہیں انا ہوتی ہے ۔جو انسان کو مغرور بنا دیتی ہے اور غلطی پر بھی ڈٹے رہنے کا سبق دیتی ہے ۔حالانکہ انسان کو یہ معلوم ہونا چاہیئے کہ میں خطا کا پتلا ہوں اگر مجھ سے غلطی ہو جائے تو مان لینی چاہیئے اس سے انسان کو سدھرنے کا موقع ملتا  ہے اور اخلاقیات فروغ پاتی ہے اور انسان میں عاجزی پروان چڑھتی ہے جو اللہ پاک کو بہت پسند ہے ۔


اس کے بارے میں رائے ٹی بینیٹ کہتے ہیں کہ
"غلطیوں کو تسلیم کرنے میں ہمت اور عاجزی درکار ہوتی ہے۔ اپنی غلطی اور کوتاہی  کو تسلیم کرنا کمزوری  نہیں ہمت کی بات ہے "
دوسری اہم وجہ یہ ہے کہ ہمارے معاشرے کے اکثر لوگوں کا المیہ بن چکا ہے اگر کوئی غلطی مانتا ہے تو اس پر آوازیں کسیں جاتیں ہیں ،طعنے دئیے جاتے ہیں ،اس کو سدھرنے کی بجائے اس کو تذلیل کا نشانہ بنایا جاتا ہے ۔

اس کو ہر موقع پر احساس دلایا جاتا ہے کہ تم نا اہل اور نکمے ہو وغیرہ وغیرہ ۔اس وجہ سے بھی  لوگ غلطی ماننے کی بجائے تردید کرنے  کو زیادہ ترجیح دیتے  ہیں ۔
ہم انسان ہیں  پرفیکٹ کوئی نہیں ہوتا ،ہر کسی میں غلطی کی گنجائش ہے اس لیے اگر غلطی ہو جائے تو اخلاقیات کا مظاہرہ کرتے ہوئے غلطی کو تسلیم کر لینا چاہیئے اور اسے سدھارنا چاہیئے کیونکہ جب حضرت آدم سے غلطی ہوئی تھی تو انھوں نے اس بات کو تسلیم کیا تھا اور پھر اس کی تلافی کی تھی ۔

ہمارا دین بھی یہی کہتا ہے کہ اگر ہم سے غلطی ہو جائے تو اسے تسلیم کر لینا چاہیئے اور معافی مانگ لینی چاہیئے اس سے عاجزی پروان چڑھتی اور اللہ پاک عاجز بندے کو بہت پسند کرتا ہے.
بروس لی نے کیا خوب کہا ہے
"غلطیاں ہمیشہ قابل معافی ہوتی ہیں شرط یہ ہے کہ  اگر کسی میں ان کو تسلیم کرنے کی ہمت ہو"
 اور دوسری طرف جو لوگ غلطی ہونے پر دوسروں کو تذلیل کا نشانہ بناتے ہیں انھیں بھی چاہیئے کہ اگر کوئی  غلطی تسلیم کر لیتا ہے تو اس صورت میں آوازیں کسنے اور طرح طرح کی باتیں کرنے کی بجائے سامنے والے انسان کو نہایت ہی شائستگی سے  سمجھانا چاہیئے  اور بڑا پن دکھاتے ہوئے معاف کر دینا چاہیئے کیونکہ ہمارا دین جتنی جلدی غلطی مان کر معافی مانگنے کا درس دیتا اتنی ہی جلدی سامنے والے کو معاف کرنے کا بھی درس دیتا ہے ۔


ایک بڑا انسان  وہی ہوتا ہے جو غلطی کی صورت میں اعتراف کرے اور اسے سدھارے ۔
کامیاب لوگ ہمیشہ خود سے مخلص رہتے ہیں اور مخلص ہونے کی نشانی یہ ہے کہ جب غلطی سر زد ہو جائے تو اس کو مان کر سدھارا جائے ۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :

متعلقہ عنوان :