استاد لائقِ تعظیم ہے

جمعہ 15 اکتوبر 2021

Mohammad Faizan Waris

محمد فیضان وارث

اللہ تعالٰی نے انسان کو اس دنیا میں تنہا رہنے کے لیے نہیں چھوڑا بلکہ بہت سے رشتوں اور ناتوں کی ڈور میں باندھ دیا .جو خوشی اور غمی میں اس کے ساتھ ہوتے ہیں .جن میں کچھ رشتے خونی اور سگے ہوتے ہیں اور بہت سے رشتے اخلاقی ,معاشرتی اور روحانی طور پر بنتے ہیں .
ان میں سے ایک رشتہ *استاد* کا بھی ہے .اسلام میں استاد کو روحانی والدین کا درجہ حاصل ہے .

کیونکہ ایک استاد وہ ہستی ہے جو ہماری روحانی تربیت کرتا ہے .ہمیں اچھے ,برے میں تمیز کرنا سکھاتا ہے ,اخلاقیات سکھاتا ہے ,زندگی جینے کے آداب سکھاتا ہے .اسلام میں استاد کا رتبہ والدین سے کم نہیں ہے کیونکہ والدین کے بعد بچے کی تربیت کی ذمہ داری کسی پر عائد ہوتی ہے تو عظیم ہستی *استاد* ہے .اس دنیا میں  بچے کو لانے والے والدین ہوتے ہیں مگر استاد اسی بچے کو  اپنی  قابلیت سے زمین سے آسمان کی بلندیوں تک پہنچا دیتا ہے .


استاد معاشرے میں ریڑھ کی ہڈی کی حثیت رکھتا ہے .استاد کسی بھی قوم یا معاشرے کا معمار ہوتاہے .والدین بچے کی جسمانی پرورش کرتے ہیں جبکہ استاد بچے کی ذہنی پرورش کرتا ہے اور اسے معاشرے کے سامنے ایک مضبوط انسان بنا کر کھڑا کرتا ہے .استاد کامیابی کی سیڑھی ہے . ایک وقت تھا جب استاد کی بات پتھر کی لکیر ہوا کرتی تھی .وہ وقت جب لوگ ہزاروں میل سفر کر کے علم سے فیض یاب ہونے کے لیے اپنے استاد پاس جاتے تھے .

اس وقت استاد بہت کم ہوتے تھے .اس وقت لوگ استاد کی بات خاموشی اور صدقِ دل سے سنتے تھے .اور وہ کامیاب بھی ہوتے تھے .ان کی کامیبابی کا راز صرف ان کی محنت نہیں تھی بلکہ استاد کا احترام تھا .
مشہور مقولہ ہے
 *با ادب با نصیب*
اُس وقت کا طالب علم استاد کے قدموں میں بیٹھنے کو اپنا شرف سمجھتا تھا جب استاد سامنے آجاتا ان پر کپکی طاری ہو جاتی اور ان کے احترام میں آنکھیں جھک جاتیں.
مگر جیسے وقت نے اڑان بھری استاد کے رتبہ کے تقاضے بدل دئیے گئے .

آج کا طالب علم استاد کے برابر بیٹھتا ہے .استاد کو مذاق کرتاہے اور استاد کا ادب بھول گیاہے .اور اس وجہ سےہی  آج کالج ,یونیورسٹیز زیادہ ہونے کے باوجود بھی حقیقی علم ختم ہو گیا ہے .
اسلام میں جہاں حصولِ علم لازم ہے وہاں علم سکھانے والے کا  ادب و احترام بھی  لازم ہے .استاد تو علم کی وہ بارش ہے جہاں گرتی ہے سیراب کر دیتی ہے .استاد تو وہ انسان ہے جو اپنے طالب علم کو خود سے زیادہ ترقی کرتا ہوا دیکھ کر جلتا نہیں بلکہ خوش ہوتا ہے اور اس کے لیے خیر کی دعا کرتا ہے .


استاد خود بادشاہ نہیں ہوتا مگر دوسروں کو بادشاہ بنا دیتا ہے .
جتنے بھی پیشے ہیں وہ سب استاد کے مرہون منت ہیں کیونکہ استاد طالب علم کو پڑھاتا ہے تو بعد میں اپنی زندگی میں ڈاکٹر ,انجنیئر وغیرہ بنتا ہے .اگر استاد نہ ہو تو کوئی پیشہ ممکن نہیں .استاد لوہے کو کندن بنا دیتا ہے .استاد پتھر کو تراش کر ہیرا بنا دیتا ہے .استاد لوہار بھی ہے ,معمار بھی ہے .

کسان بھی ہے .
استاد لائقِ تعظیم ہے .استاد ایک مقدس پیشہ ہے .اس پیشے کی نسبت تو دنیا کے سب سے بڑے معلم حضرت محمد صل اللہ علیہ والہ وسلم سے ملتی ہے .
آپ کا فرمان ہے .
(بے شک مجھے معلم بنا کر بھیجا گیا ہے .)
جب آپ صحابہ کو کچھ بھی سکھاتے تو وہ اس قدر خاموشی سے سنتے جیسے ان کے سروں پر کوئی پرندہ بیٹھا ہوا ہے اگر وہ سر ہلائیں گے تو اڑ جائے گا .


استاد کی اہمیت تو اس قدر ہے کہ حضرت علی نے فرمایا
(جس سے میں نے ایک لفظ بھی پڑھا وہ بھی میرا استاد ہے .)
ڈاکڑ علامہ محمد اقبال نے اس وقت تک "سر" کا خطاب لینے سے انکار کر دیا تھا جب تک ان کے استاد میر جسن میر کو "شمس العلماء " کا خطاب نہیں مل جاتا .
دنیا میں وہی قوم کامیاب ہے جو استاد کا ادب واحترام جانتی ہے .اس کے بر عکس جو کہتے ہیں کہ علم کتابوں سے ملتا ہے استاد سے نہیں تو وہ لوگ بہت ہی بد قسمت ہیں .


استاد تو وہ موم بتی کی مانند ہے جو دوسروں کو روشن کرنے کے لیے خود کو جلا رہی ہوتی ہے. استاد اپنی زندگی اپنے لیے نہیں بلکہ اپنے طالب علم کی زندگی بنانے کیے لیے وقف کر دیتا ہے. استاد تو کبھی اپنے طالب علم کی پنسل ,پیپر ,اور کتابیں ڈھونڈنے میں مدد کرتا ہے اور کبھی اس کی زندگی میں حوصلہ ,لگن اور اس کے چہرے پر خوشی لانے میں اس کی مدد کرتا ہے .
ان تمام باتوں سے واضح ہوتا ہے کہ *استاد واقعی لائق تعظیم ہے*
اے میرے اللہ مجھے اور میرے سمیت تمام طلباء کو اساتذہ  کا صدقِ دل  سے احترام کرنے کی توفیق دے اور تمام اساتذہ کو درست معنوں میں طلباء کو اپنے علم.سے  فیضیاب کرنے کی ہمت حوصلہ اور نیت عطا فرما�

(جاری ہے)

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :

متعلقہ عنوان :