ہمارے معاشرے میں عورت کے کردار

منگل 9 جون 2020

Mohammad Hanif Abdul Aziz

محمد حنیف عبدالعزیز

ہمارے معاشرے میں عورت کے چار کردار جانے جاتے ہیں ماں، بیٹی،بہن اور بیوی لیکن اس کے علاوہ چار کردار اور بھی ہیں ساس، نند، بھابھی اور نو ح ہے ۔ جب لڑکی پیدا ہوتی ہے تو والدین کے گھر رہتی ہے بھائی ہوتے ہیں بڑا پیار کرتے ہیں وہ بھی گھر میں سب کی اپنی وسعت سے زیادہ خدمت کرتی ہے جب جوان ہو جاتی ہے تو شادی کر دی جاتی ہے وہ دنیا اس کے لئے نئی ہو تی ہے ۔

اس دنیا میں اس کا شوہر جس کے ساتھ اس کی شادی ہوتی ہے اس کے علاوہ شوہر کی ماں یعنی ساس جس کی وہ نوح ہوتی ہے ، ایک شوہر کی بہن جسے نند کہتے ہیں کی بھا بھی ہوتی ہے۔اس کا واسطہ ان سب سے پڑتا ہے ہر کسی کی خواہش ہوتی ہے کہ وہ ہماری خدمت کرے ۔نند صاحبہ جو بھابھی کے آنے سے پہلے سب کام کر رہی ہوتی ہے اس کی ماں اسے کام سے الگ کر دیتی ہے اگروہ سکول یا کالج میں زیر تعلیم ہے پھر تواسے اب پوری توجہ تعلیم پر دینی ہے ۔

(جاری ہے)

البتہ ایک ڈیوٹی اس کی ما ں اسے سونپ دیتی ہے کہ جب کوئی گھر میں مہمان آئے تو اپنی بھابھی کی نگرانی کرنا کہ بھا بھی صاحبہ مہمانوں کے ساتھ کیا گفتگو کر تی ہے اس کی رپورٹ وہ اپنی ما ں کو دیتی ہے یا اگر بھا بھی اپنے میکے جائے ماں اسے اپنی بھابھی کے ساتھ ارسال کر دیتی ہے تاکہ پتہ کیا جا سکے کہ بھابھی کس کس سے ملتی ہے کیا بات چیت کر تی ہے اس کی رپورٹ واپس آ کر اپنی ماں کو دیتی ہے ۔

یہ کام اگرچہ غیر اخلاقی ہے پھر بھی کئی گھروں میں کیا جاتا ہے۔
 ساس کا بھی اہم کردار ہے نوح لانے سے پہلے سارے کام ساس یعنی بچوں کی ماں کر تی ہے لیکن یونہی نوح گھر میں آتی ہے ساس کے گھٹنے تقریباً خراب ہو جاتے ہیں اور وہ ہائے ہائے کر کے چلنا شروع کر دیتی ہے تاکہ نوح سمجھ جائے کہ اب کا م کی ذمہ داری اسی کی ہی ہے۔اکثرساسوں کی خواہش ہوتی ہے کی اس کا بیٹا اپنے سسرال میں ا پنی بیوی کو لے کر نہ ہی جا ئے اگر جائے بھی تو ان کے ساتھ واجوی سا تعلق رکھے یا نہ ہی جا ئے لیکن اس کا جوائی اس کی بیٹی کو اکثر اس کے پاس لاتا رہے اور ان کا ہی کہا مانے اپنے والدین سے زیادہ تعلق نہ رکھے اپنی ساس کا کہنا مانے کو شش کرے کہ اپنے والدین اور بہن بھائیوں سے جدا ہی رہے ۔

ایسی ساسیں اپنی بیٹی کے گھر اکثر چکر لگاتیں رہتیں ہیں اور بیٹی کے گھر میں جا کر مداخلت کرتیں رہتیں ہیں جس سے اکثر بیٹی کا گھر خراب ہو جاتا ہے اور بیٹی لڑ جھگڑ کرمیکے واپس آجاتی ہے ۔اس کے بعد اگر وہ منانے کے بعد اپنے سسرال واپس بھی آ جاتی ہے تووہ با ت نہیں بنتی جو پہلے ہو تی ہے ۔
 جس گھر میں بیٹی اپنے سسرال سے روٹھ کر یا بیوہ ہو کر آتی ہے اور وہ چند دن سے زیادہ ٹھہرتی ہے اس سے پورے گھر کا ماحول خراب ہو جاتا ہے یہ مسلہ اس لڑکی کی بھابھیوں کے لئے بنتا ہے بھابھیاں اسے اپنے اوپر بھار سمجھتیں ہیں اس کی ما ں کا خیال ہوتا ہے کہ اس کی بیٹی بیچاری دکھی ہے اس کا پورا پورا خیال رکھا جائے اور اس کو ہر کام کر کے دیا جائے اور گھر کے معاملات میں دخل اندازی کا پورا حق دیا جائے ۔


ماں اور باپ دونوں مل کر اپنے بچوں کو پالتے ہیں ان کی رہائش کھانا پینا اور تعلیم کا خیال رکھتے ہیں جب سب بچوں کی شادیاں ہو جاتیں ہیں اور والدین بوڑھے بھی ہو جاتے ہیں تو ان کو سمبھالنے کا معاملہ زیرے غور آتا ہے کئی گھروں میں ایسا بھی ہوتا ہے کہ ایک بیٹا والدہ کو رکھتا ہے اور دوسرا بیٹا والد کو کیونکہ کوئی بھی بیٹا دونوں کا خرچہ اور دیکھ بھال برداشت نہیں کر سکتا ۔

والدین میں سے اگر ایک فوت ہو جائے میں یا باپ، اس کو کچھ عرصہ کے لئے ایک بیٹے کے پاس پھر دوسرے کے پاس جانا پڑتاہے ۔ اگر ایک بیٹا اور ایک یا ایک سے زیادہ بیٹیاں ہیں تو اسے بیٹیوں کے پاس بھی رہنے کے لئے جانا پڑ سکتا ہے کیونکہ ان کی نوح ہی کہ دیتی ہے کہ ان کے بھی والدین ہیں وہاں جانے میں کیا ہرج ہے۔
 جن گھروں میں مرد کی حکمرانی کمزور اور عورت کی زیادہ ہو ان گھروں کے حالات اکثر خراب رہتے ہیں ۔
یہ سارے معاملات بے شک کم ہیں لیکن معاشرے میں موجود ہیں۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :

متعلقہ عنوان :