لاک ڈاون میں نیکی کا قتل نہ کریں

پیر 4 مئی 2020

Mohammad Shahid Abbas

محمد شاہد عباس

کورونا وائرس اور لاک ڈاون کی وجہ سے صرف دیہاڑی دار طبقہ ہی متاثر نہیں ہوا بلکہ اس نے مڈل کلاس تاجر کو بھی تباہ کر دیا ہے۔ پاکستان میں زیادہ تر دکانداروں کی دکان ذاتی نہیں ہے اور درمیانے درجے کے کاروباری افراد ہر مہینے تقریبا 60 ہزار کے لگ بھگ کرایہ ادا کرتے ہیں اسی طرح اکثر لوگوں کا گھر بھی کرایہ کا ہے جو اوسط 35 سے 40 ہزار ہوتا ہے۔

یہ ہمارے ارد گرد بسنے والے خوشحال کاروباری افراد کی کہانی ہے یعنی اچھے کاروبار اور گھر کی وجہ سے انہیں کامیاب تاجر سمجھا جاتا ہے۔ اندازہ لگائیں کہ ہر ماہ 3 سے 4لاکھ کمانے والے چھوٹے کاروباری افراد کے پاس اخراجات نکال کر محض 50 سے 80ہزار تک ہی بچ پاتا تھا جس میں سے بچت کرنا ممکن نہیں ہے۔ اب اس طبقہ کے حالات یہ ہیں کہ کاروبار مکمل طور پر بند ہے لیکن ایک سے ڈیڑھ لاکھ روپے صرف کرایہ کی مد میں ادا کرنے پڑ رہے ہیں اور اگر کرایہ ادا نہیں کرتے تو محنت سے بنایا کاروبار تباہ ہو جائے گا ۔

(جاری ہے)

انسان کب تک ادھار مانگ سکتا ہے؟یہ معاشرے کا وہ طبقہ ہے جو کسی سے مدد یا امداد کا تقاضہ بھی نہیں کر سکتا۔ تاحال اس طبقہ کے بارے میں کسی نے نہیں سوچا کہ ان کا کیا بنے گا اور اگر صورت حال اسی طرح چلتی رہی تو یہ لوگ کیا کریں گے؟
لاک ڈاون کے دوران کئی امدادی تنظیمیں بھی فعال ہیں جن میں سے کچھ بہت اچھا کام کررہی ہیں لیکن کئی ایسی بھی ہیں جو فوٹو سیشن اور دیگر کاموں پر زیادہ زور دیتی نظر آرہی ہیں۔

مختلف قسم کے ڈیٹا فارم بھروانے کے ساتھ ساتھ تصدیق کروانے کا عمل ہی اتنا بھیانک ہے کہ انسان کی عزت نفس کچلی جاتی ہے۔ بہت سے لوگ کم از کم اپنے گھر والوں کے سامنے اپنا بھرم رکھنا چاہتے ہیں کیونکہ انہوں نے ہمیشہ کما کر کھایا ہے اور اپنے بچوں کو بھی محنت کر کے کھانے کا درس دیا ہے۔ اب حالات کی مجبوری کی وجہ سے جب وہ کسی سے مدد مانگ ہی رہے ہیں تو بچوں اور خاندان کے سامنے انہیں تصدیقی فارم یا ریسیونگ پر دستخط کرنے پڑتے ہیں۔

علاقے سے جس طرح تصدیق کی جاتی ہے وہ تو کسی کی بھی عزت نفس مکمل طور پر کچلنے کے لئے کافی ہے۔ہم یہ یقین کیوں نہیں کر لیتے کہ جو شخص آٹے کے ایک تھیلے کے لئے ہاتھ پھیلا رہا ہے وہ یقینی طور پر ضرورت مند ہی ہے، چند ایک اگر منفی کردار کے حامل اس بھیڑ میں شامل ہو بھی جائیں تو ان کی وجہ سے سب کی عزت نفس کچلنے کا حق ہمیں کون دیتا ہے؟
 اسی طرح ہم میں سے شاید ہی کسی نے یہ سوچا ہو کہ اس وقت سب کو صرف راشن کی ضرورت نہیں ہوتی بلکہ بہت سے خاندانوں کے پاس راشن تو موجود ہے لیکن کام نہ ہونے کی وجہ سے مکان کا کرایہ ادا نہیں کر پا رہے اور حالات ٹھیک ہونے پر بھی وہ اکٹھا کئی ماہ کا کرایہ ادا نہیں کر سکیں گے۔

ایسے ہزاروں افراد کو نقد رقم کی ضرورت ہے لیکن ابھی تک کوئی تنظیم ایسے افراد کے گھر کا کرایہ ادا کرنے کے لئے سامنے نہیں آئی۔ یہاں ایک اور بات بھی بہت اہم ہے۔ وہ یہ کہ بعض لوگ اپنے خاندان میں سے مالی طور پر کمزور لوگوں کی مدد کر رہے ہیں۔ یقینا یہ بہت ہی اچھا عمل ہے۔ ماضی میں نہ سہی لیکن ان حالات ہی میں لوگوں کو اپنے غریب بہن بھائیوں کی یاد تو آئی ہے لیکن المیہ یہ ہوا کہ کئی لوگ چند ہزار کی امداد دے کر یا تو پورے خاندان کو یہ خبر سنانے لگ جاتے ہیں یا پھر جس کی مدد کی ہو اس کی زندگی کے مالک بن کر روک ٹوک شروع کر دیتے ہیں۔

جنہوں نے پچھلے کئی سال سے اپنے رشتہ داروں کا حال تک نہ پوچھا اب چند ہزار کی مدد کر کے ان کی نجی زندگی کے فیصلے کرنا چاہتے ہیں تاکہ خاندانی چودھراہٹ قائم کر سکیں۔
ہمیں ان حالات میں سنجیدگی سے سوچنا ہو گا کہ ہم لوگوں کی مدد کس لئے کرتے ہیں۔ ذاتی شہرت کے لئے یا اللہ کی رضا کے لئے؟ اگر ہماری نیت اللہ کو راضی کرنا ہے تو پھر یاد رکھیئے مدد اس طرح کریں کہ کسی دوسرے کو تو دور کی بات خود اسے بھی آپ کا علم نہ ہو پائے جس کی مدد کی جا رہی ہے۔

نام نہاد شہرت کی بجائے انسانیت کو بیدار کریں۔ دلی سکون نصیب نہ ہو تو کوئی دوسری بات کیجئے۔ مصنوعی خوشیوں کے پیچھے بھاگنے کی بجائے قلبی سکون حاصل کرنے کا اس سے اچھا موقع شاید پھر نہ ملے۔ اپنے جاننے والوں کی فہرست بنائیں، رشتے داروں کے بعد اپنے گھر کام کرنے والی ملازمہ، محلے کا چوکیدار، امام مسجد اور ایسے کئی لوگ ہوں گے جن کی خاموشی سے مدد کی جا سکتی ہے۔ محلہ کمیٹی بنا کر محلے میں کرایہ پر رہنے والوں کا کرایہ ادا کیا جا سکتا ہے۔ اللہ نے نیکی کمانے کے کئی راستے پیدا کئے ہیں۔ جو راستہ پسند آئے اسے اپنا لیں۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :