"ہائے پاکستان کا عدالتی نظام"

جمعہ 11 ستمبر 2020

Mohammad Shahmeer Mughal

محمد شاہ میر مغل

آج انتہائی دکھ اور غم کے ساتھ مجھے یہ الفاظ تحریر کرنے پر گئے ہیں کہ "ہائے پاکستان کا عدالتی نظام" اس قدر گھٹیا ہے کہ یہاں مجرم قانون کے رکھوالوں کو منہ چڑھا کر نکل جاتے ہیں اور یہ نام نہاد قانون کے رکھوالے منہ دیکھتے رہ جاتے ہیں۔ میں اپنے ان الفاظ سے پاکستان کی عدالتی سطح پر بیٹھے ان قانون کے نام نہاد رکھوالوں کا گریبان پکر کر جھنجھوڑنا چاہتا ہوں کہ وہ دیکھو کس طرح مجرم تمہاری آنکھوں میں دھول جھونک کہ بھاگ گیا۔

تم بے سود بیٹھے ہو ابھی تک جی ہاں میرا اشارہ موٹروے پہ ایک بچے کے  سامنے اس کی ماں کے ساتھ ہونے والی اجتماعی زیادتی کی طرف ہے کہ کس طرح ان درندوں نے بچوں کے ساتھ اجتماعی زیادتی کی اور  بات  صرف یہاں تک ہی نہیں رہتی  ماضی کی طرف چہرے کا رخ موڑ کر دیکھیں تو کس طرحپشاور کے ایک MPA نے نشے میں دھت ہوکر روزے دار ٹریفک سارجنٹ پہ گاڑی چڑھا دی، 50 لوگ عینی شاہد، سی سی ٹی وی ویڈیو وائرل ہوئی۔

(جاری ہے)

متاثرہ خاندان کو ڈرایا دھمکایا گیا۔ پیسوں کی پیشکش کی۔
ضمانت ہوئی تو قاتل پہ پھولوں کی برسات ہوئی، کچھ مدت بعد "عدالت عالیہ" نے قاتل کو "ثبوت" نہ ملنے پہ باعزت بری کردیا۔
ایسے ججوں اور عدالتوں پہ اللہ کا قہر نازل ہو اورقصور میں آٹھ سالہ زینب کو بھی ہم بُھلا نہیں سکتے۔
کس طرح اے ٹی ایم سے معمولی چھیڑچھاڑ کر کے چوری کرنے والے کی اس قدر  تذلیل کی اور بے رحمی سے اسے پیاسہ مار ڈالا۔


ساہیوال میں بچوں کے سامنے ان کے والدین کو گولیوں سے اڑا دیااور یونیورسٹی کے طالب علم نقیب اللہ مسعود پر گولیوں کی بوچھاڑ کی گئی۔
آخر کب تک ہم ان مشکلات کا سامنا کرتے رہیں گے کہ کیا ہم اپنے اس نام نہاد آزاد ملک میں آزادی کی زندگی بھی نہیں گزار سکتے  کے پتا نہیں کوئی ہمیں گولیوں سے مار ڈالیں اور پھر کوئی ایم این اے یا ایم پی اے ہمیں سڑک پر کچھ ڈالے یا پھر کوئی ہماری ماؤں بہنوں کو زیادتی کا نشانہ بنا ڈالے۔


آزاد پاکستان میں اب ہمیں آزادی سے سانس لینے کا بھی کوئی حق نہیں کہ ہمارے آباؤ اجداد نے اپنی جانیں قربان کی صرف اپنی نسلوں کو آزاد کروانے کے لیے۔ کیا ہمارے ملک کا قانون ہمارے ہی پیچھے پڑ گیا؟  اور یہی وجہ ہے کہ پاکستان میں قانون کی کوئی عزت نہیں کیوں کہ یہاں نیشنل اسمبلی کے ممبر کی گاڑی کے نیچے آکر ایک اون ڈیوٹی پولیس آفیسر اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھا اور وہ ایم این اے آج بھی آزاد سڑکوں پر گھوم رہا ہے آخر کب تک زینب جیسی بچیاں قتل ہوتی رہیں گی۔

یہ تمام کیسز ہمارے عدالتی نظام پر ایک سوالیہ نشان لگاتے ہیں "؟" کہ کیا ہمارا قانون مجرموں کو سزا نہیں دے سکتا؟ میں ایک مرتبہ پھر سے عدالتی نظام کو متوجہ کر کے کہنا چاہتا ہوں کہ برائے مہربانی اس عدالتی نظام کو بدلہ جائے اس قانون کو اس قدر سخت کیا جائے کہ آئندہ کوئی کسی کی ماں بہن کی طرف گندی آنکھ سے نہ دیکھ سکے۔ اور ایسا کوئی نظام لایا جائے کہ کسی ماں بہن کو اپنی عزت لٹنے کا ڈڑ نہ ہو۔
حالیہ واقع ہم سے یہ ہی توقع رکھتا ہے کہ ان گینگ ریپرز (GANG RAPPERS) کو گرفتار کرکے سر عام پھانسی دی جائے تاکہ کوئی آئندہ ایسی حرکت نہ کرسکے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :