فِکرِآزادی

منگل 14 اگست 2018

Mohammad Waqar Aslam

محمد وقار اسلم

میرا رب عزتوں اور بڑی شان والا ہے اور جس کے پاس جو ہوتا وہی دیتاہے اور وہ اپنے بندے کو جو اسکے احکام بجا لاتا ہے بہت نوازتاغیب سے اس کے خزانوں کی کنجیاں اس کے محبوب ﷺ کے پاس ہیں ان سے لَو لگانے سے تمام مرادیں پوری ہوتی ہیں صفینہ پار ہوتا ہے الحاوزاری اور تیقن انسان کو بڑی مصیبت سے باہر نکال دیتے ہیں بس ایک وقفہ آتا درمیان میں سوالات کا۔

۔۔جہاں وہ ہمیں ٹیسٹ کرتا۔۔کہ یہ کتنے ثابت قدم ہیں۔۔یہ دنیاوی اغراض کے لیے کہاں تک جاتے ہیں۔۔۔زاویہ نظر بدلنے سے منظر بدل جاتا ہے۔۔۔استغفار۔۔۔۔اس سے بڑھ کر دنیا میں کوئی عمل اس شدت سے مقرب الہی تک نہ پہنچا۔۔۔رب تعالی۔۔۔خود اسے وظیفہ بتاتا ہے اللہ کے رسول ﷺ اور پھر شیر خدامولا علی کثرت سے استغفار کو پسند فرماتے تھے، یہ وہ الفاظ تھے جو بزلہ سنجی اور شگفتگی میں اپنا معیار رکھتے تھے انہوں نے میری روح کو جنجھوڑ ا اور پُرامید رہنے کا جذبہ سینچ دیا۔

(جاری ہے)

بے شک انسان غلطیوں خامیوں کوتاہیوں کا پُتلا ہے لیکن پروردگار کی ربوبیت انسان کی دھارس بندھانے اور اسے صحیح راستے کا مسافر بننے میں بہت مدد کیا کرتی ہے۔ پاکستان فقیدالمثال ہوجائے گا پاکستانی نوکری کرنے باہر نہیں جائیں گے بلکہ انفراسٹرکچر اتنا خوبرو اور لائق تحسین ہوجائے گا کہ بیرونِ ممالک سے پاکستان آنے کو لوگ ترجیح دیں گے کشکول نہیں رہے گا سب بہتر ہوجائے گا پاکستان کو منتیں کر کے عالمی اداروں کی بھاری بھرکم شرطوں کا وزن اب نہیں اٹھانا ہوگا یہ خوشنما آرزو کو تھامے پاکستانی چاہتے ہیں کہ اگر دھاندلی زدہ حکومت بھی ہے تو اسے چلنے دیا جائے موقع فراہم کیا جائے مگر کتنا دھچکا لگے گا انہیں جب عملی طور پر آئین سازی، پالیسی سازی میں کثیف الجھاو دکھائی دے گا او رمملکت خداداد پاکستان کو مسائل سے دوچار رہنا ہوگا۔


جب عشق سکھاتا ہے انداز خود آگاہی
کھلتے ہیں غلاموں پر اسرارِ شہنشاہی
 جشن آزادی کے ساتھ کرب وسو ز کی ہولناک داستانیں بھی جڑی ہوئی ہیں۔ تقریباًدو صدی سے زائد انگریزوں سے معرکہ آرائی اور سیاسی اتھل پتھل کے بعد15 ء اگست 1947ء میں ہندوستان کو دو حصوں میں تقسیم کردیا گیا۔یہ تقسیم ایک ملک کی نہیں تھی بلکہ ایک جسم کی تھی، جس کے کرب و سوز سے آج بھی لوگ تڑپ رہے ہیں۔

آزادی کا ماہ ہمیں شکر گزار بننے اور سجودِ شکر میں مستغرق ہونے کا میسیج دیتا ہے لیکن ہم ہلڑ بازی اور سبز رنگ میں رنگ کر اپنی ذات کو میسر عرفان کی عکاسی کر دیتے ہیں ۔ انسان غلامی کو ناپسند کرتا ہے اور آقا بننے کو پسند کرتا ہے لیکن ان دونوں باتوں میں کوئی فرق ہی نہیں، اس لیے غلامی سے نجات کا تصور آزادی کا ناقص تصور ہے لیکن حقیقی معنوں میں ایک آزاد انسان کا تصور کیا ہے؟ مذہبی تناظر میں دیکھا جائے تو آزاد انسان وہ ہے جس کے بارے میں کہا گیا ہے کہ جو خوف، حزن اور ملال سے بے نیاز ہے، اس کی ایک وضاحت نفس کی مختلف کیفیتوں اور درجوں کے حوالے سے سامنے آتی ہے۔

ایک نفس امارہ ہے، ایک نفس لوامہ اور ایک نفس مطمئنہ نفس مطمئنہ گویا آزاد انسان کا طرہ امتیاز ہے۔ دیکھا جائے تو اسلام کا سارا فلسفہ ہی وسیع تر معنوں میں ”آزادی“ کا فلسفہ ہے۔ یہاں تک کہ دُعا بھی ”آزادی“ ہی کا ایک ذریعہ ہے۔ یہ تصور ہر سطح پر کلام کرتا ہے۔ ایک سطح یہ ہے کہ تمہیں قبائل اور گروہوں میں اس لیے تقسیم کیا گیا کہ شناخت ہوسکے۔

ایک سطح یہ ہے کہ کسی عربی کو کسی عجمی پر اور کسی گورے کو کسی کالے پر کوئی فوقیت نہیں۔آج ہم دھوم دھڑکا یا آزادی میں دھُن رہ کر کونسی گھمسان کی جنگ جیت لی ہے ہمیں اپنے مسائل کو سمجھنا ہوگا نہ کہ باتونی اور خوابیدہ توقعات میں گڑھے رہ کر خود ہی سب ٹھیک ہونے کا انتظار کرنا ہوگا۔اکہتر سالوں سے کوئی اور ہی ہمیں ڈکٹیٹ کرتا ہے اور ہم ویسا ہی کرتے ہیں اور یہ شاید ہماری مجبوری بھی ہے ڈوریاں کہیں اور ہی سے ہلائی جاتی رہی ہیں اور عوام دلفریب خیالات میں دھنسی جاتی ہے پِستی جاتی ہے۔

جو بڑی بڑی بانگیں اور طلسماتی چراغ رکھنے دعویدار تھے ان کی بھی ہوا نکل چکی ہے۔
دنیا میں قتیل اس سے منافق نہیں کوئی
جو ظلم تو سہتا ہے بغاوت نہیں کرتا
 پی ٹی آئی کی کابینہ کا فیصلہ کرنا تک ان کے لیڈران کے لئے محال ہوا ہے کیونکہ پارٹی رہنماوں کے مشورے دینے اور ان کے اہم سمجھے جانے پر عمران خان کی سادگی کا گوشہ ان کو حاصل ہے۔

وزارتِ اعلیٰ کا قلمندان اب تک نہیں سونپا گیا پارٹی کے بڑوں کی آپس میں ٹھن گئی ہوئی ہے اور من مرضی کرنے پر زور آزمائی جاری ہے۔احتمال یہ بھی ہے کہ اہم امور کوسُلجھانے میں بھی خاصی سست روی کا سامنا ہو سکتا ہے جو کہ گورننس پر واقعی ایک بہت بڑا سوالیہ نشان کھڑا کردے گا کیونکہ غیر تجربہ کار ی بھی ایک بڑا مسئلہ ہے جو اس سسٹم کے خلاف کارکردگی دکھانے سے حکمران جماعت کو قاصر رکھے گی ۔

نیک تمنائیں توان کے ساتھ رہنی چاہییں لیکن تفکر بجا لانا بھی بہرکیف بڑا ضروری واقع ہوا ہے اور چاہیے کہ آئینہ دیکھ لیا جائے اگر عمران خان اپنی لیڈرشپ میں اپنے کئے ہوئے دعووں کا نصف بھی کر گئے تو ان کے چاہنے والے اور ناقدین دونوں انہیں یاد رکھیں گے مورخ ان کی مداح سرائی کریں گے وہ تاریخ کے سنہرے باب میں درج ہوجائیں گے اور واقعی ویژن والے لیڈر کہلائیں گے ان سے وابسطہ امیدیں پوری ہونگی ۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :