پاکستان ریلوے کن گماشتوں میں پھنسی ہے

پیر 4 فروری 2019

Mohammad Waqar Aslam

محمد وقار اسلم

 شیخ رشید پبلک اکاوٴنٹس کمیٹی کے ممبر بھی نہیں بن سکے اور ان کا بیان کہ انہیں پی اے سی کا چیئر مین بنایا جائے۔ بہت مضحکہ خیز ہے اور ان کے محکمے ریلوے کی باقاعدہ تضحیک کی گئی ہے۔پاکستان میں متعلقہ وزیر اپنا کام چھوڑ کر دوسروں پر طنز و تشنیع کے نشتر چلاتا ہے اس کے پاس دوسرے محکموں کے لئے نت نئے مشورے اور تجاویز ضرور ہیں سچ بات تو یہ ہے کہ پاکستان میں ریلوے کا وزیر بننے کی پس پردہ وجہ اراضیوں پر قبضہ کرنا ہوتی ہے۔

 پاکستان کی ریلوے کس نہج پر آپہنچی ہے اس کا تخمینہ لگانا بھی مشکل ہے۔لگژری کے نام پر جو مذاق اس قوم کے ساتھ کیا جاتا ہے اس سے جذبات مجروح ہوتے ہیں دل خون کے آنسو روتا ہے۔معروف تجزیہ نگار اور صحافی مسعود چوہدری نے حقائق کو طشت ازبام کیا اور دنیا کی ریلوے کا پاکستان سے بہترین تقابلی جائزہ لیا۔

(جاری ہے)

وہ لکھتے ہیں کہ گوادر سے اسلام آباد تک ٹرین کا سفر تقریباً چھتیس گھنٹے کا ہے۔

اس جانے اور آنے کے تین دن کے سفر سے کتنے پیسے کمائے جا سکتے ہیں؟ سوچ ہے آپکی! اس سے بھی آگے کا تذکرہ ہے کہ اگر پٹریاں بیچ کر سڑکیں بنانے والوں کی نظروں سے کچھ بچ سکا تو تاشقند سے گوادر اور کراچی تک کے لکژری ریل ٹریول کے صرف ایک روٹ سے پورے ریلوے کا خسارہ ختم ہو سکتا ہے۔ اور اس سے آگے کی بات یہ ہے کہ اگر ٹورسٹ ویک ریل چلائی جائے تو یہ بھی ایک منافع بخش کام ہے۔

لیکن۔ ریل منسٹر صاحب کو جگتیں مارنے سے ، بیوروکریٹس کو ٹی سی کرنے سے اور نچلے عملے کو گندی سیاست کرنے سے فرصت ملے گی تب ہی کوئی اسطرف بھی سوچے گا! بیان کردہ پراجیکٹس آنے والے پچاس سال کی منصوبہ بندی کے تحت بنائے جائیں گے تو کامیاب رہیں گے۔ یعنی آج جو سہولیات دینے کی پلیننگ کی جائے وہ اگلے پچاس سال تک اپگریڈیبل ہوں اور معمولی اخراجات کی مدد سے انکو درست انداز میں دیا جاتا رہے۔

دس بیس سال کو ذہن میں رکھا گیا تو ان پراجیکٹس کی پٹریاں ہی بمشکل قائم رہ پائیں گی۔ لیکن یہاں ہو گا کیا۔۔۔ کچھ بھی نہیں۔۔۔ ٹورازم ڈویلپمنٹ کے لیئے دو چیزیں انتہائی اہم ہیں۔ وقت اور انوسٹمنٹ! وقت ہمارے پاس ہے نہیں اور انوسٹمنٹ کمیشن کی نظر ہو جاتی ہے۔ لہذا ٹورازم سے کمائی ہونا کہنے میں۔ بہت آسان کام ہے لیکن درحقیقت واقعی ایک کام ہے۔

جو بے وقوف سوئٹزرلینڈ اور برطانیہ کی مثالیں دیتے ہیں وہ پاکستان کے زمینی حقائق اور معروضی حالات کو یکسر نظر انداز کر دیتے ہیں۔ یہ دنیا کی چند مثالیں۔
جنہیں ابھی بھی کچھ سمجھ نہیں آئی وہ مہاراجہ ایکسپریس کے یہ پیکج اور فیچرز چیک کریں۔تقریبا 6000$ میں آٹھ دن اور سات راتیں یہ ہے ٹورازم آرگنائزیشن کی پوٹینشل جسے ایکسپلور کرنا درحقیقت ایک خواب ہے! 
 پیرو بیلمومونڈ ٹرین نے 2018 کا سب سے بہترین لکژری ٹریول اینڈ ٹورز کا ایوارڈ جیتا ہے۔

اس ٹرین میں ایک وقت میں صرف 48 لوگ سفر کرتے ہیں اور اس کا کرایہ کم از کم چار سو ڈالر اور زیادہ سے زیادہ سینتیس سو ڈالر ہے۔ جی ہاں ٹورازم ٹرین ہے جس میں تمام لوازمات آپکے انتخاب کردہ پیکج کے مطابق شامل ہوتے ہیں۔ ہمیں اپنی ترجیحات کے ساتھ ساتھ سٹینڈرڈز بھی ٹارگٹ کرنے کی ضرورت ہے۔ دنیا کے ساتھ مقابلہ صرف پاکستان سٹینڈرڈ کی مہر لگا کر نہیں کیا جاسکتا۔

 
ایک بات رہ گئی۔۔۔صرف اس ٹرین نے گورنمنٹ کو تین سو ملین ڈالر کا منافع کما کر دیا۔ ایوارڈ کی رقم علیحدہ ہے۔ پیرو کے بیوقوف لوگوں نے یہ تین سو ملین ڈالر ایک نئی ٹورسٹ سائٹ کی تعمیر پر لگا دیئے ہیں جس میں ایک فاؤ سٹار ہوٹل بھی شامل ہے۔ اس ساری ایکٹیویٹی سے اس سال چار سوپچاسی ملین ڈالر اور دوہزار بیس میں چھ سو ملین ڈالر کی کمائی کا تخمینہ لگایا گیا ہے۔

اسی طرح اگر سفر جاری رہا تو دوہزار پچیس میں پیرو ٹورازم انڈسٹری کے صرف اس ایک سیکشن سے ایک بلین ڈالر کی کمائی کا ہدف حاصل کر کے اسے مینٹیننس کرنے میں کامیاب ہو جائے گا۔ 
انڈویڑول کیٹیگری میں پہلے پر پیرو کی بیلمومونڈ ون ٹرین، دوسرے پر بھی پیرو بیلمومونڈ ٹو ٹرین اور تیسرے نمبر پر انڈیا کی دکن اوڈیسی رہی تھی۔ مہاراجہ ساتویں نمبر پر تھی۔

 
دنیا کی سب سے مہنگی ٹرین رائل پیسفک ٹرین کینیڈا ہے۔ یہ پوری ٹرین چارٹر ہوتی ہے۔ تیس مسافروں کے لیئے ہے۔ کم از کم کرایہ ستائیس ہزار ڈالر اور زیادہ سے زیادہ پچپن ہزار ڈالر فی ٹرپ فی پرسن ہے۔پنجابی زبان کے عظیم صوفی شاعر بلھے شاہ کہتے ہیں۔
’منہ آئی بات نہ رہندی اے‘
یہاں جس طرف اور جس بھی محکمہ کو اٹھا لیں ہر طرف ہی شیدے ، ماجھے، گامے، اور صرف ٹلی ہی ٹلی نظر آتے ہیں جن کو شام کا سورج غروب ہونے کے بعد اپنی ہوش نہیں رہتی ان سے انسان کیا امید رکھ سکتا ہے۔

ہم تو بھائی اپنے دل کا بوجھ ہلکا کر لیتے ہیں آپ قارئین کے سامنے اپنا دکھ رو کر وگرنہ یہ تو سب کو پتہ ہے کہ یہاں ہونا کچھ بھی نہیں ہے! جو دن رات ایک دوسرے کے ساتھ لڑتے نظر آتے ہیں، کیمرہ لائٹ آف ہوتے ہی لطیفے سناتے اور خوش گپیوں میں مصروف پائے جاتے ہیں۔
کوئی ان افلاطون نما فلسفیوں کو سمجھائے کہ لایعنی اور غرور و تکبر سے بھرپور تقاریر سے آگے نکل کر کچھ عملی اقدامات کی جانب پیش قدمی کریں۔اگر دنیا قومی اداروں سے پیسے کما رہی ہے تو ہمیں کیا عسرت میں گھرے رہنے کا ں ہت شوق ہے؟

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :