نہتی لڑکی،پولیس اور وزیر اعلیٰ بزدار

منگل 24 اگست 2021

Mohsin Goraya

محسن گورایہ

کیا ہم جنگل کے مکین ہیں یا تہذیب و تمدن اور  شائستگی سے عاری قوم ہیں،وہ قوم جس کو خالق کائنات نے اصول معاشرت دیے ہوں اور کائنات کی عظیم ہستی نے اخلاق و کردار کا عملی نمونہ اسوۂ حسنہ کی شکل میں دیا ہو اس قوم کے نوجوانوں نے مینار پاکستان پر ایک نہتی اکیلی لڑکی کے ساتھ جو سلوک روا رکھا اور جس طوفان بد تمیزی کا مظاہرہ کیا اس نے  میرا اور آپکا ہی نہیں پوری قوم کا  سر عالمی برادری میں جھکا دیا ہے ،ایسی شرمندگی اور خفت کا سامنا شائد کبھی کسی ایسی قوم کو بھی نہ کرنا پڑا ہو جو غیر مہذب اور غیر شائستہ کہلاتی ہے،مینار پاکستان کے وسیع و عریض میدان میں سر عام اور دن دیہاڑے عائشہ کیساتھ جو ہواء اس پر پوری قوم معذرت اور معافی کی طلبگار ہونی چاہئے تھی  مگر اس پر آنے والے رد عمل میں بھی ہمارا رویہ معذرت خواہانہ نہیں جو  شرمندگی در شرمندگی ہے  اور  قوم کے اجتماعی ضمیر کو جھنجھوڑنے کیلئے کافی ہے، مگر  اس  واقعہ پر جس تیزی اور سرعت کیساتھ  وزیر اعلیٰ عثمان بزدار نے  ایکشن لیا وہ قابل تعریف ہے،عثمان بزدار کو میں تو اس موقع پر سلام کروں گا  ، میری نظر میں انکی عزت دو چند ہو گئی ہے ، کم از کم کسی نے تو اس حیوانی فعل کی مذمت کی اور اس کیخلاف سخت ایکشن لے کر آئندہ ایسے واقعات کی روک تھام کی کوشش کی۔

(جاری ہے)


 افسوس کی بات ہے کہ جس پولیس کا کام عوام کی جان ،مال اور عزت کو تحفظ دینا ہے اس کا سربراہ  اس لڑکی کو تحفظ دینے کی بجائے اپنے  افسروں کو  تحفظ دینے میں لگا رہا،ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ آئی جی پولیس  ،وزیر اعلیٰ کے پوچھنے   سے پہلے ہی اس واقعہ پر نوٹس اور ایکشن لیتے ،واقعہ  کے ذمہ داروں کو پکڑتے  اور پولیس کی غفلت پر ذمہ داری کا تعین کرتے  مگر انہیں تو کئی روز اس واقعہ کا علم ہی نہ تھا  اور ذمہ داری  کے تعین پر  وہ پولیس کا مورال  بچانے  کی باتیں کرتے رہے ،بھاڑ میں گیا ایسا پولیس مورال جو  بہن بیٹی کی عزت سے زیادہ ہو،  لگتا ہے انکی نظر میں  قوم کا مورال ، بہنوں بیٹیوں کی عزت  سے زیادہ اپنے پیٹی بند بھائیوں کی پوسٹنگ ، نوکریاں  اور اپنی انا کا مورال ہے۔

پولیس کے سربراہ کو تو  اس پر قوم سے معافی مانگنی چاہئے تھی مگر وہ  اپنے  چہیتے پولیس افسروں  کو تحفظ دینے میں مصروف رہے،یہ کس قسم کی فورس ہے جو کئی گھنٹے تک لاہور جیسے شہر میں ایک لڑکی کو تحفظ نہ دے سکے ،انعام غنی  کا رویہ بھی ایک روایتی پی ایس پی کا رہا کہ ایس ایچ او ،ڈی ایس پی کو معطل کر دو یا زیادہ سے زیادہ ایس پی کو ہٹا دو، حیرت  ہوتی ہے ایسی سوچ پر ،  کیا  ایس ایس پی اور ڈی آئی جی کے عہدے  نمود و نمائش کے لئے ہیں، انکی کوئی ذمہ داری نہیں ہوتی تو  ایسے عہدوں کی  فوج ظفر موج رکھنے کا کیا فائدہ ہے، لاہور  پولیس کے موجودہ سیٹ اپ میں ڈی آئی جی آپریشن اور ڈی آئی جی انوسٹی گیشن اپنے اپنے ونگز کے سربراہ اور ان کے کاموں پر  جوابدہ ہیں  اور سی سی پی او سپر وائزری رول کے حامل ہیں  مگر  آئی جی ،اپنے ایس ایس پی اور ڈی آئی جی کو بچانے  میں لگے رہےاور   بعد ازاں  سی سی پی او   پر ذمہ داری ڈالتے رہے ،پتہ نہیں کیوں؟      
     مینار پاکستان  واقعہ کے  ساتھ ساتھ ایک اور ویڈیو کلپ بھی وائرل ہوتا ہے کہ   شہر لاہور میں پر رونق اور مصروف سڑک پر چنگ چی رکشہ میں جاتی لڑکیوں کا متعدد موٹر سائیکل سوار نوجوانوں نے تعاقب کیا،ایک نوجوان نے تو کمال دیدہ  دلیری کا مظاہرہ کرتے ہوئے موٹر سائیکل رکشہ پر چھلانگ لگائی اور لڑکی کو ہراس کیا  اور اس کا ساتھی اس سارے بے شرمانہ واقعہ کی وڈیو بناتا رہا،مینار  پاکستان پر حواکی ایک بیٹی کو  سینکڑوں  نوجوانوں نے گھیرے میں لیا تو وہاں کوئی صاحب ضمیر نہ تھا جو ان بے غیرتوں کو روکتا اور لڑکی کو تحفظ دیتا،ادھر جس مصروف سڑک پر ٹریفک کی روانی کے دوران ایک لڑکی کو بے عزت کیا گیا وہاں بھی کسی نے اس اخلاق باختہ نوجوان کو روکا ، پکڑا نہ اس کا تعاقب کیا،اور وہ دندناتا ہواء وہاں سے ایک پورے خاندان کو احساس عدم تحفظ کا شکار کر کے چلتا بنا۔

ان دو  واقعات سے ہر وہ شہری عدم تحفظ کا شکار ہو گیا ہے جس کے گھر میں جوان بیٹیاں ہیں،صورتحال اگر یہاں تک آ پہنچی ہے کہ راہ چلتی،سفر کرتی  لڑکیاں بھی محفوظ نہیں تو یہ لڑکیاں گھر کی چار دیواری میں کیسے محفوظ رہ سکتی ہیں ،سچ یہ کہ آج ساحر لدھیانوی کی زبان میں ہر لڑکی فریاد کناں ہے،
مدد چاہتی ہے یہ حوا کی بیٹی
یشودھا کی ہم جنس رادھا کی بیٹی
یہ بیوی بھی ہے اور بہن بھی ہے ماں بھی
ثناء خوان تقدیس مشرق کہاں ہیں
 پیمبر کی امت زلیخاکی بیٹی
ثناء خوان تقدیس مشرق کہاں ہیں؟
یہ مملکت خداداد کا اصل  چہرہ نہیں مگر بد قسمتی سے کچھ لوگ اس عظیم تحفہ خداوندی کا چہرہ بگاڑنے کی سرتوڑ کوشش میں مصروف کار ہیں،اور بد قسمتی سے ہر جرم کی سزا آخر کار عورت کو ہی بھگتنا پڑتی ہے،بد نصیبی سے جو کیس میڈیا میں آجائے اس پر انصاف ملنے کی امید پیدا ہو جاتی ہے مگر ہزاروں کیس جو میڈیا کی آنکھ سے محفوظ رہیں وہ زندہ ہی دفن ہو جاتے ہیں ۔


اس واقعہ کے بعد وزیر اعلیٰ عثمان بزدار کی  فوری ایکشن اور ملزموں کی گرفتاری کی ہدائت اور غفلت کے مرتکب پولیس افسروں کیخلاف ایکشن سے امید کی کرن جاگی ہے کہ اب حوا کی بیٹی محفوظ ہو جائیگی ڈی آئی جی ،ایس ایس پی،ایس پی سمیت  افسروں کو فارغ کرنا اور ڈی ایس پی،ایس ایچ او کو معطل کر کے انہوں نے فرائض سے غافل افسروں کو تنبیہ کر دی ہے کہ اب پولیس کو  کام کرنا ہو گا عوام کو تحفظ دینا ہو گا ورنہ ان کی سرکاری ملازمت میں جگہ نہیں،ماضی میں بھی میڈیا میں آنے والے ایسے جرائم پر حکمران حرکت میں آتے تھے مگر صرف فوٹو سیشن تک،مظلوم کا ساتھ دینے کا دعویٰ اور ظالم کو کیفر کردار تک پہنچانے کی یقین دہانی تک محدود رہتے تھے،مگر حالیہ واقعہ میں فوٹیج کی مدد سے ملزموں تک رسائی حاصل کر کے نادرا کے تعاون سے اکثر ملزموں کی گرفتاری عمل میں آ گئی ہے جبکہ باقیوں کا پیچھا کیا جا رہا ہے ، ایک اطلاع کے مطابق اب تک سو سے زائد مشکوک افراد کو گرفتار کیا گیا ہے جس سے امید پیدا ہوئی ہے کہ قانون نافذ کرنے والے ادارے نادرا کے تعاون سے اصل ملزموں کی گردن تک پہنچ کر ان کو قانون کے شکنجے میں لے آئیں گے،اس کا کریڈٹ  وزیر اعلیٰ عثمان بزدار کو جاتا ہے،اگر اسی طرح مجرموں کی سرکوبی کا عمل جاری رہا تو امید ہے ایک روز ایسے واقعات کا  خاتمہ  ہو جائے گا۔

دوسری  طرف  سخت قوانین کیساتھ ساتھ  نوجوانوں کی اخلاقی تربیت کی بھی ضرورت ہے،آنے والے دنوں  میں  یکساں تعلیمی نصاب میں اس کمی کو پورا کرنے کی بھی  ضرورت ہے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :