
وبا کے دنوں میں محبت
بدھ 16 دسمبر 2020

مغیث اکرم
رحمان فارس کا شعر ہے :
سچ تو یہ ہے کہ محبت ایک آسمانی جذبہ ہے۔ یہ حاصل اور لا حاصل کی قید سے آزاد ہوتا ہے۔ یہ شوقِ سفر کا نام ہے۔ یہ سفر اتنا قلیل نہیں کہ سو ۱۰۰ برس کی زندگی میں طے ہو جائے۔ اس میں کسی کے آنے سے فرق پڑتا ہے نہ جانے سے۔ محبت کا ہو جانا ہی محبت کی تکمیل ہے۔ محبتوں میں کچی عمر کی لڑکیاں اور لڑکے اکثر یہ خیال کرتے ہیں کہ حاصل کا نام محبت ہے اور نا کامی کی صورت میں بے قیمت انسانوں کی بے وفائی کا ملبہ محبت پہ ڈال کر محبت کو گالی دیتے ہیں، محبت سے نفرت کرتے ہیں۔
میرا ان سب سے ایک سوال ہے کہ کاروباری مشن میں نا کام ہونے پر اپنی بد قسمتی کا ملبہ محبت پر کیوں نہیں ڈالتے ؟ یہاں تو یہ قسمت کو گالی دیتے ہیں.
ہم ہمیشہ یہ غلطی کرتے ہیں کہ محبت کو تقسیم در تقسیم کرتے چلے جاتے ہیں۔ بدلے میں محبت بھی ہمیں تقسیم کر دیتی ہے۔ کوئی کہتا ہے وہ روحانی محبت ہے، یہ مادی محبت ہے ، وہ آفاقی محبت ہے ، یہ عامی محبت ہے ، وہ حقیقی محبت ہے ، یہ مجازی محبت ہے۔ کوئی کہتا ہے مل جانا محبت ہے، کوئی کہتا ہے بچھڑ جانا محبت ہے۔ کوئی کہتا ہے یاد آنا محبت ہے، کوئی کہتا ہے یاد کرنا محبت ہے۔ کوئی کہتا ہے عبادت محبت ہے، کوئی کہتا ہے خدمت محبت ہے،کوئی کہتا ہے عزت محبت ہے، کوئی کہتا ہے ہجرت محبت ہے۔
سچ تو یہ ہے کہ سب محبت ہے۔
پھر کیوں جس نے محبت کو عبادت سمجھا وہ دین کا ٹھیکیدار بن گیا۔ صرف تسبیح اور نماز کرنے لگا۔ جس نے محبت کو خدمت سمجھا اس نے عبادت کو پسِ پشت ڈال دیا۔ جس نے حقیقی محبت کا دعویٰ کیا اس نے انسانوں سے منہ لگانا چھوڑ دیا اور جس نے محبت کو مجازی سمجھا اس نے دلوں میں الفت ڈالنے والے کو بھلا دیا۔ تقسیم کیا تو تقسیم ہوگیا۔
محبت تو علم کا نام ہے، ادب کا نام ہے، کئیر کا نام ہے، درد کا نام ہے، کسی کے لیے اپنی خدمات پیش کرنے کا نام ہے۔ محبت تو زعم کے رتبے پر فائز ہونے کے باوجود عاجزی کا نام ہے اور محبت تو بیوفائی کے بدلے میں وفا کا نام ہے۔ انسانی تاریخ میں محبت کے رنگوں اور زاویوں کو مکمل ڈیفائن کرنے والی واحد شخصیت کا نام سرکارِ دوعالم محمدؐ ہے۔
لوگ کہتے ہیں کاروبار اپنی جگہ، محبت اپنی جگہ عجیب منطق ہے عجیب دلیل ہے۔ کاروبار بھی محبت ہے۔ آئیے ! میں آپ کے ساتھ ایک واقعہ شیئر کرتا ہوں۔ یہ واصف علی واصف رحمتہ اللہ علیہ ہیں۔ آپ انگریزی کے استاد تھے۔ انگریزی سکھانے کے لیے آپ نے اکیڈمی کھول رکھی تھی۔ آپ صوفی آدمی تھے۔ اکثر وجد کی حالت میں رہتے تھے۔ اسی لیے تو ناقابلِ فراموش ادب ان کے ہاتھوں سے تخلیق ہوا۔ کرن کرن سورج، قطرہ قطرہ قلزم اور حرف حرف حقیقت۔ کیا معجزے ہیں۔ گہرائی ایسی کہ ڈوب کر بھی قرار نہیں ملتا۔ واصف صاحب ایک دن حالتِ وجد میں کھوئے ہوئے تھے کہ ان کے پاس ان کا کلرک آیا کہنے لگا آج مہینے کی چودہ تاریخ ہے بچے فیس نہیں دے رہے۔۔۔
یوں واصف صاحب کی تنہائی میں خلل آیا تو آپ نے پلٹ کر جواب دیا : ”میں جنازے کے بندے اکٹھے کر رہا ہوں اور تجھے فیس کی پڑی ہے۔“
حیرت کی بات ہے آج اس کو بڑا بزنس مین تصور کیا جاتا ہے جو دو نمبری کرنے کے گُر جانتا ہو۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ”جو خریدا ہوا مال واپس کر لے گا خدا قیامت کے روز اس کے گناہ واپس کر دے گا اور جو بغیر دیکھے خریدا ہوا مال واپس کر لے گا اس نے اپنے اوپر جنت واجب کر لی۔ یہ ہے محبت۔ بظاہر لاحاصل مگر جب اظہار میں آئے گی تو تم اسے حاصل پاو گے۔
میرا ایک دوست مجھ سے کہنے لگا یار محبت کا بس ایک پرابلم ہے۔
میں نے پوچھا وہ کیا ؟ کہنے لگا : اس میں ” تھلے“ لگنا پڑتا ہے۔ میں نے اس سے کہا : تم کیا چاہتے ہو کہ تم محبت میں اسسٹنٹ کمشنر لگ جاؤ۔
وبا کے دنوں میں اللہ محبت ہے۔ وہ جو امریکا اور یورپ سائنس اور ٹیکنالوجی کو محبت مانتے تھے۔ متکبرانہ لہجے میں کہتے تھے کہاں ہے اللہ کا عذاب ؟ ہم نے تو فحاشی کے اَڈے بند نہیں کیے۔ رقص و سرور کی محفلیں گرم ہیں۔ شراب سرِعام پی جا رہی ہے۔ ڈبلیو ایچ او کی ایک رپورٹ کے مطابق پچھلے دو مہینے میں پوری دنیا میں کرونا وائرس سے 22 ہزار جبکہ شراب نوشی سے ساڑھے سات لاکھ لوگ موت کی آغوش میں چلے گئے۔ دنیا نے شراب نوشی پر تو پابندی عائد نہیں کی۔ زلزلے آتے ہیں تو ٹوکیو اور سان فرانسسکو کی پچاس پچاس منزلہ عمارتیں تو مسمار نہیں ہوتیں، گرتی ہیں تو فقط افریقہ کی جھونپڑیاں۔ آج اللہ نے ان ممالک کو بچا لیا۔ میرا خیال ہے آج میرے اللہ نے ایک کورونا وائرس کے ذریعے ان کو بتا دیا کہ تمہاری محبت بے وفا نکلی۔ آج وقت ہے ہم اللہ کی طرف لوٹ جائیں۔ کسی سے محبت کریں تو اسی کی خاطر کسی سے بغض رکھیں تو اسی کی خاطر۔
نوٹ؛
وبا کے ان دنوں میں کسی خود دار آدمی کی مدد کریں یا اس کو راشن دیں تو سیلفی نہ بنائیں۔ آپ نے دیا زمین نے سیلفی بنا لی، آسمان نے بنا لی، اللہ کے فرشتوں نے بنا لی، درودیوار نے بنا لی اور تو اور جس کو دے رہے ہو قیامت کے دن وہ خود آپ کے لیے سیلفی بن جائے گا۔
اک دیوانے سے بھرے شہر کو جا لگتی ہے
یہ محبت تو مجھے کوئی وبا لگتی ہے
میں نے یہ عنوان ایک کولمبین رائٹر Gabriel Marquez کے ناول "Love in the time of cholera"سے چرایا ہے۔ اس ناول کی کہانی حیرت انگیز تو نہیں البتہ محبت کے اس زاویے کو پوٹرے کرتی ہے کہ ستر سالہ زندگی میں سے 55 برس کسی کے انتظار میں گزارے جاسکتے ہیں۔یہ محبت تو مجھے کوئی وبا لگتی ہے
سچ تو یہ ہے کہ محبت ایک آسمانی جذبہ ہے۔ یہ حاصل اور لا حاصل کی قید سے آزاد ہوتا ہے۔ یہ شوقِ سفر کا نام ہے۔ یہ سفر اتنا قلیل نہیں کہ سو ۱۰۰ برس کی زندگی میں طے ہو جائے۔ اس میں کسی کے آنے سے فرق پڑتا ہے نہ جانے سے۔ محبت کا ہو جانا ہی محبت کی تکمیل ہے۔ محبتوں میں کچی عمر کی لڑکیاں اور لڑکے اکثر یہ خیال کرتے ہیں کہ حاصل کا نام محبت ہے اور نا کامی کی صورت میں بے قیمت انسانوں کی بے وفائی کا ملبہ محبت پہ ڈال کر محبت کو گالی دیتے ہیں، محبت سے نفرت کرتے ہیں۔
(جاری ہے)
ہم ہمیشہ یہ غلطی کرتے ہیں کہ محبت کو تقسیم در تقسیم کرتے چلے جاتے ہیں۔ بدلے میں محبت بھی ہمیں تقسیم کر دیتی ہے۔ کوئی کہتا ہے وہ روحانی محبت ہے، یہ مادی محبت ہے ، وہ آفاقی محبت ہے ، یہ عامی محبت ہے ، وہ حقیقی محبت ہے ، یہ مجازی محبت ہے۔ کوئی کہتا ہے مل جانا محبت ہے، کوئی کہتا ہے بچھڑ جانا محبت ہے۔ کوئی کہتا ہے یاد آنا محبت ہے، کوئی کہتا ہے یاد کرنا محبت ہے۔ کوئی کہتا ہے عبادت محبت ہے، کوئی کہتا ہے خدمت محبت ہے،کوئی کہتا ہے عزت محبت ہے، کوئی کہتا ہے ہجرت محبت ہے۔
سچ تو یہ ہے کہ سب محبت ہے۔
پھر کیوں جس نے محبت کو عبادت سمجھا وہ دین کا ٹھیکیدار بن گیا۔ صرف تسبیح اور نماز کرنے لگا۔ جس نے محبت کو خدمت سمجھا اس نے عبادت کو پسِ پشت ڈال دیا۔ جس نے حقیقی محبت کا دعویٰ کیا اس نے انسانوں سے منہ لگانا چھوڑ دیا اور جس نے محبت کو مجازی سمجھا اس نے دلوں میں الفت ڈالنے والے کو بھلا دیا۔ تقسیم کیا تو تقسیم ہوگیا۔
محبت تو علم کا نام ہے، ادب کا نام ہے، کئیر کا نام ہے، درد کا نام ہے، کسی کے لیے اپنی خدمات پیش کرنے کا نام ہے۔ محبت تو زعم کے رتبے پر فائز ہونے کے باوجود عاجزی کا نام ہے اور محبت تو بیوفائی کے بدلے میں وفا کا نام ہے۔ انسانی تاریخ میں محبت کے رنگوں اور زاویوں کو مکمل ڈیفائن کرنے والی واحد شخصیت کا نام سرکارِ دوعالم محمدؐ ہے۔
لوگ کہتے ہیں کاروبار اپنی جگہ، محبت اپنی جگہ عجیب منطق ہے عجیب دلیل ہے۔ کاروبار بھی محبت ہے۔ آئیے ! میں آپ کے ساتھ ایک واقعہ شیئر کرتا ہوں۔ یہ واصف علی واصف رحمتہ اللہ علیہ ہیں۔ آپ انگریزی کے استاد تھے۔ انگریزی سکھانے کے لیے آپ نے اکیڈمی کھول رکھی تھی۔ آپ صوفی آدمی تھے۔ اکثر وجد کی حالت میں رہتے تھے۔ اسی لیے تو ناقابلِ فراموش ادب ان کے ہاتھوں سے تخلیق ہوا۔ کرن کرن سورج، قطرہ قطرہ قلزم اور حرف حرف حقیقت۔ کیا معجزے ہیں۔ گہرائی ایسی کہ ڈوب کر بھی قرار نہیں ملتا۔ واصف صاحب ایک دن حالتِ وجد میں کھوئے ہوئے تھے کہ ان کے پاس ان کا کلرک آیا کہنے لگا آج مہینے کی چودہ تاریخ ہے بچے فیس نہیں دے رہے۔۔۔
یوں واصف صاحب کی تنہائی میں خلل آیا تو آپ نے پلٹ کر جواب دیا : ”میں جنازے کے بندے اکٹھے کر رہا ہوں اور تجھے فیس کی پڑی ہے۔“
حیرت کی بات ہے آج اس کو بڑا بزنس مین تصور کیا جاتا ہے جو دو نمبری کرنے کے گُر جانتا ہو۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ”جو خریدا ہوا مال واپس کر لے گا خدا قیامت کے روز اس کے گناہ واپس کر دے گا اور جو بغیر دیکھے خریدا ہوا مال واپس کر لے گا اس نے اپنے اوپر جنت واجب کر لی۔ یہ ہے محبت۔ بظاہر لاحاصل مگر جب اظہار میں آئے گی تو تم اسے حاصل پاو گے۔
میرا ایک دوست مجھ سے کہنے لگا یار محبت کا بس ایک پرابلم ہے۔
میں نے پوچھا وہ کیا ؟ کہنے لگا : اس میں ” تھلے“ لگنا پڑتا ہے۔ میں نے اس سے کہا : تم کیا چاہتے ہو کہ تم محبت میں اسسٹنٹ کمشنر لگ جاؤ۔
وبا کے دنوں میں اللہ محبت ہے۔ وہ جو امریکا اور یورپ سائنس اور ٹیکنالوجی کو محبت مانتے تھے۔ متکبرانہ لہجے میں کہتے تھے کہاں ہے اللہ کا عذاب ؟ ہم نے تو فحاشی کے اَڈے بند نہیں کیے۔ رقص و سرور کی محفلیں گرم ہیں۔ شراب سرِعام پی جا رہی ہے۔ ڈبلیو ایچ او کی ایک رپورٹ کے مطابق پچھلے دو مہینے میں پوری دنیا میں کرونا وائرس سے 22 ہزار جبکہ شراب نوشی سے ساڑھے سات لاکھ لوگ موت کی آغوش میں چلے گئے۔ دنیا نے شراب نوشی پر تو پابندی عائد نہیں کی۔ زلزلے آتے ہیں تو ٹوکیو اور سان فرانسسکو کی پچاس پچاس منزلہ عمارتیں تو مسمار نہیں ہوتیں، گرتی ہیں تو فقط افریقہ کی جھونپڑیاں۔ آج اللہ نے ان ممالک کو بچا لیا۔ میرا خیال ہے آج میرے اللہ نے ایک کورونا وائرس کے ذریعے ان کو بتا دیا کہ تمہاری محبت بے وفا نکلی۔ آج وقت ہے ہم اللہ کی طرف لوٹ جائیں۔ کسی سے محبت کریں تو اسی کی خاطر کسی سے بغض رکھیں تو اسی کی خاطر۔
نوٹ؛
وبا کے ان دنوں میں کسی خود دار آدمی کی مدد کریں یا اس کو راشن دیں تو سیلفی نہ بنائیں۔ آپ نے دیا زمین نے سیلفی بنا لی، آسمان نے بنا لی، اللہ کے فرشتوں نے بنا لی، درودیوار نے بنا لی اور تو اور جس کو دے رہے ہو قیامت کے دن وہ خود آپ کے لیے سیلفی بن جائے گا۔
ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
تازہ ترین کالمز :
ABOUT US
Our Network
Who We Are
Site Links: Ramadan 2025 - Education - Urdu News - Breaking News - English News - PSL 2024 - Live Tv Channels - Urdu Horoscope - Horoscope in Urdu - Muslim Names in Urdu - Urdu Poetry - Love Poetry - Sad Poetry - Prize Bond - Mobile Prices in Pakistan - Train Timings - English to Urdu - Big Ticket - Translate English to Urdu - Ramadan Calendar - Prayer Times - DDF Raffle - SMS messages - Islamic Calendar - Events - Today Islamic Date - Travel - UAE Raffles - Flight Timings - Travel Guide - Prize Bond Schedule - Arabic News - Urdu Cooking Recipes - Directory - Pakistan Results - Past Papers - BISE - Schools in Pakistan - Academies & Tuition Centers - Car Prices - Bikes Prices
UrduPoint Network is the largest independent digital media house from Pakistan, catering the needs of its users since year 1997. We provide breaking news, Pakistani news, International news, Business news, Sports news, Urdu news and Live Urdu News
© 1997-2025, UrduPoint Network
All rights of the publication are reserved by UrduPoint.com. Reproduction without proper consent is not allowed.