
ریاست ِ مدینہ کی عدالت کا مثالی فیصلہ !
بدھ 6 نومبر 2019

محمد اکرم اعوان
(جاری ہے)
ہرکسی کامطالبہ تھا کہ قاتل کوفی الفورپھانسی دی جائے۔
اسلام زندگی کے ہرمعاملہ میں عدل وانصاف اورحق وصداقت کی تعلیم دیتا ہے۔عدل کسی بھی معاشرے کے استحکام،تحفظ اورترقی کی بنیاد ہے۔ اسلام میں دوسروں کی خیرخواہی سب سے اہم اوربنیادی چیزہے ۔ امیرالمومنین سیدناحضرت علی کرم اللہ وجہہ کی خدمت میں حاضری کے بعد محافظ دستہ کے امیرنے بیان دیا ہے،ہم نے اس شخص کومقتول کے قریب کھڑااس حالت میں دیکھا کہ اس کے ہاتھ میں چھری تھی جس سے خون ٹپک رہا تھا اورمقتول کے جسم سے خون بہہ رہاتھا۔ہم نے موقع پراس شخص کے علاوہ کسی دوسرے شخص کونہیں دیکھا۔تحقیق کی گئی تومعلوم ہومقتول ایک عام ساآدمی تھا،جس کی کسی سے کوئی دُشمنی تھی اورنہ ہی اس کا کسی سے کوئی ایسا معاملہ چل رہاتھا۔وہ شخص اپنے گھر جا رہاتھا امکان یہی ہے کہ مقتول کا اس شخص سے کسی بات پر جھگڑا ہو گیا ہو اوراس شخص نے غصہ میں آکراس کاقتل کردیاہو۔
امیرالمومنین سیدناحضرت علی کرم اللہ وجہہ نے گرفتارکئے گئے شخص سے اس قتل کی بابت دریافت فرمایا تواس شخص نے اعتراف تو کرلیا، مگر اس حوالہ سے کسی قسم کی تفصیل بتانے کی بجائے بالکل خاموشی اختیارکرلی اورقتل کے اقرارکے علاوہ کچھ بھی نہ کہا۔اگرچہ اس کی تفصیلات جاننے کے بارے میں امیرالمومنین سیدناحضرت علی کرم اللہ وجہہ سمیت مجلس میں موجوددیگرحضرات کی طرف سے حتی الامکان کوشش کی گئی تاکہ معاملہ کی تہہ تک پہنچا جاسکے مگراس شخص نے مسلسل خاموشی اختیارکئے رکھی۔
امیرالمومنین سیدناحضرت علی کرم اللہ وجہہ نے ظاہری دلیلوں اورملزم کے اعتراف جرم کے بعداس شخص کاقصاص میں قتل کافیصلہ فرمایاکہ عصرتک اسے جیل میں رکھا جائے اور عصرکے بعدمجمع کے سامنے اس فیصلہ پرعملدرآمدکیا جائے گا۔محافظ اس شخص کولے کرجانے ہی لگے تو مجمع میں سے ایک شخص نے امیرالمومنین سیدناحضرت علی کرم اللہ وجہہ کی جانب بڑھتے ہوئے بلند آوازسے کہایہ شخص بے قصورہے ،قتل اس شخص نے نہیں کیا ۔پھر امیرالمومنین سیدناحضرت علی کرم اللہ وجہہ کے سامنے کہنے لگا ،میں ایک غریب اورمفلس آدمی ہوں،میرے پاس گزر بسر کے لئے کچھ بھی نہیں۔میں پریشانی اوربھوک سے تنگ آچکاتھا۔میں نے اس شخص کوصبح سویرے دیکھاتوشیطان نے میرے دل میں وسوسہ ڈالا اوربہکایا کہ یہ شخص جواتنی سویرے سفرپرجا رہا ہے ،ضروراس کے پاس مال ہوگا،لہٰذامیں نے سوچا کیوں نہ اس اندھیرے اورسناٹے میں اسے قتل کرکے اس سے اس کی دولت چھین لی جائے ،اس کا کسی کوعلم ہی نہیں ہوگا۔انہی خیالات اورلالچ میں آکرمیں نے اپنے خنجر سے اس ویرانے اسے قتل کردیااورابھی تلاشی کاسوچ ہی رہاتھا کہ مجھے آہٹ محسوس ہوئی تومیں وہاں سے بھاگ کرکھنڈر میں جاکرچھپ گیا۔میں کیا دیکھتا ہوں کہ محافظوں نے اس شخص کواس جگہ کے قریب سے گرفتارکرلیا ہے۔وہاں سے نکل کرمیں بھی اس مجمع میں شامل ہوگیا۔اب جب آپ نے اس بے قصورشخص سے قصاص لئے جانے کا فیصلہ فرمایاتومیں نے سوچا اس طرح تومیں دوآدمیوں کے قتل کامرتکب ہورہا ہوں۔روز ِ قیامت مجھ سے دواشخاص کے خون ناحق کا حساب لیا جائے گا۔میرے دل میں یہ سوچ کرخوف پیداہوا ہے اس لئے میں اپنے قتل کااعتراف کرتاہوں یہ گرفتارکیا گیا شخص بالکل بے قصورہے۔
امیرالمومنین سیدناحضرت علی کرم اللہ وجہہ نے پہلے سے گرفتارکئے گئے شخص سے فرمایا کہ اس قتل کا جھوٹا اعتراف کیوں کیا ،توملزم نے جواب میں عرض کیاامیرالمومنین میں قصاب ہوں،صبح اندھیرے میں اپنے کام پرآیا،گائے ذبح کی اوراس کی کھال اُتارنے لگا۔اسی دوران مجھے قضائے حاجت کے لئے اس طرف آنا پڑااورجلدی میں اپنی چھری بھی میرے ہاتھ میں رہ گئی۔میں وہاں سے واپس مڑا تواچانک میری نظرخون میں ڈوبے ہوئے اس شخص پرپڑی ،میں قریب ہوکراسے دیکھ ہی رہاتھا کہ اسی اثناء میں محافظوں کا دستہ میرے پاس آپہنچا اوریہ سب دیکھ کرمجھے اس جائے واردات پرگرفتارکرلیا،اس وقت مجھے جلدبازی میں کی گئی غلطی کا احساس ہوا،مگر اب میں گرفتارکیا جاچکا تھا،میرے ہاتھ میں چھری تھی،جس پرخون لگا ہوا تھا،جیسے ہی آبادی کے قریب پہنچے لوگ مجھے مقتول سمجھتے ہوئے میرے قتل کے نعرے لگا نے۔مجھے اس بات کا یقین ہوگیا کہ اب ان حالات میں میری بات کا کوئی یقین نہیں کرے گا،اب میں بچ نہیں سکتا۔لہٰذامیں نے اس قتل کا اعتراف کرلیا۔
امیرالمومنین سیدناحضرت علی کرم اللہ وجہہ نے ایک بارپھر اس شخص سے دریافت کیا،غلط بات کوتم نے کیوں تسلیم کیا،جس پراس شخص نے کہا،اے امیرالمومنین میں مجبورتھامحافظ دستہ نے مجھے اس حا ل میں گرفتارکیاکہ میں مقتول کے پاس تھا،اس کے جسم سے خون بہہ رہاتھا اور میرے ہاتھوں میں خون بھری چھری تھی،دوسری اہم بات یہ کہ میرے علاوہ کوئی دوسراشخص جائے واردات پر موجود نہیں تھا۔مجھے یقین ہوگیا کہ میری بات کاکوئی یقین نہیں کرے گا،چناچہ مجھے اس مجبوری میں اعتراف کرنا پڑا۔اس کے بعدمیں اللہ کی بارگاہ میں حفاظت وپناہ اوراس مشکل سے نکلنے کی دعاکرنے لگا۔
عجیب صورتحال تھی دواشخاص تھے اوردونوں نے قتل کااعتراف بھی کیا،اس مجلس میں نواسہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم حضرت حسن ابن علی بھی موجودتھے۔ امیرالمومنین سیدناحضرت علی کرم اللہ وجہہ نے حضرت حسن سے دریافت فرمایا کہ اس حوالہ سے آپ کی رائے کیا ہے؟ حضرت حسن نے تھوڑی دیر سوچنے کے بعدعرض کیا،امیرالمومنین اس دوسرے شخص نے اگرچہ ایک آدمی کوقتل کیا ہے،مگراپنے اعتراف سے دوسرے ایک آدمی کی جان بچا لی ہے۔اللہ رب العزت کا ارشادہے۔ ترجمہ:(جس شخص نے ایک نفس کوزندہ کیاگویا اس نے تمام انسانوں کوزندگی عطاء کی)۔ امیرالمومنین سیدناحضرت علی کرم اللہ وجہہ نے سیدناحضرت حسن کی اس رائے کوپسندفرمایااوراس کی توثیق کرکے دونوںآ دمیوں کورہا کردیااوربیت المال سے مقتول کی دیت ادا کردی۔
ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
تازہ ترین کالمز :
محمد اکرم اعوان کے کالمز
-
آوارہ کتے شہریوں کے لئے وبال جان !
منگل 28 جنوری 2020
-
کہیں پرندے بھوکے نہ رہ جائیں!
جمعرات 23 جنوری 2020
-
وحشی معاشرہ!
بدھ 15 جنوری 2020
-
بادشاہ رعیت سے ہی تاجدارہوتا ہے!
بدھ 8 جنوری 2020
-
اے عقل تم ہمیشہ دیرسے کیوں آتی ہو !
بدھ 1 جنوری 2020
-
ہمارا مسئلہ کیا ہے !
جمعرات 26 دسمبر 2019
-
حکمران اورعوام
جمعرات 12 دسمبر 2019
-
ہمارے تعلیمی مسائل اورسرکاری و نجی تعلیمی ادارے
جمعرات 5 دسمبر 2019
محمد اکرم اعوان کے مزید کالمز
کالم نگار
مزید عنوان
UrduPoint Network is the largest independent digital media house from Pakistan, catering the needs of its users since year 1997. We provide breaking news, Pakistani news, International news, Business news, Sports news, Urdu news and Live Urdu News
© 1997-2025, UrduPoint Network
All rights of the publication are reserved by UrduPoint.com. Reproduction without proper consent is not allowed.