
تعلیم اور ہماری ترجیحات
جمعرات 28 نومبر 2019

محمد اکرم اعوان
تعلیم ایک ایسی بنیا د ہے ۔ جو کسی بھی قوم اور ملک کی ترقی اور سلامتی کی ضامن ہے ۔ چین کے ماؤ نے تعلیم کو پہلی ترجیح دی اور گزشتہ دو دہائیوں میں چین نے اعلیٰ تعلیم کے شعبے میں جو ترقی کی ہے دُنیا میں اس کی مثال نہیں ملتی۔
(جاری ہے)
چین کی ترقی کا راز تعلیم، سائنس اور ٹیکنالوجی کی تعلیم ہے اور یہی وجہ ہے کہ آج امریکہ جیسی پاور بھی چین کی قدرکرنے اورہرمعاملے میں چین کو اہمیت دینے پر مجبور ہے،اپنی مصنوعات کی بنیادپرچین کوعالمی تجارت میں نمایاں مقام حاصل ہے اورپوری دُنیا چین کی اُبھرتی ہو ئی طاقت کی معترف ہے۔
چین کے لوگوں کوزندگی بسرکرنے کے بہترین مواقع مل رہے ہیں۔1981میں10میں سے9چینی غربت اورشدیدافلاس کا شکار تھے ،آج حالات اس قدربدل چکے ہیں کہ 10میں سے صرف ایک چینی کوغربت کاسامنا ہے۔تاریخ بتاتی ہے کہ جس ریاست اور معاشرے نے علم کی ترویج کو اپنا مقصد بنایا۔اُس نے ہمیشہ ہرمیدان میں کامیابی حاصل کی ہے۔ علم نے ہمیشہ معاشرے اور قوم کو نئی قوت و توانائی بخشی ہے۔دوسری بات اسلام اس دُنیاوی زندگی کو دارالاعمل قراردیتا ہے۔صرف مدرسہ کالج اور یونیورسٹی آنے جانے سے علم حاصل نہیں ہوتا یا صرف تعلیمی ڈگریوں اور اعلیٰ تعلیمی اداروں سے سندیں حاصل کرکے لوگ ملکی حالت بہتر نہیں بنا سکتے۔ اس کے لئے ذوق اورلگن کی ضرورت ہوتی ہے۔ علم اور عمل میں اگر فرق ہو تو یہ ایک طرح کی منافقت ہے۔ علم سکھاتا ہے اللہ سے ڈرو۔ علم مزاج میں انکساری اور بُردباری پیدا کرتا ہے۔امریکہ کے سابق صدر کیلوِن کُولج نے کہا تھا۔ "ذہین و عقل مند ہونا زندگی میں کامیابی کی ضمانت نہیں ہے اس لئے یہ ضروری ہے کہ جوعلم آپ حاصل کریں ا س کا عملی استعمال کریں"
علم دھوکے اور ریاکاری سے روکتا ہے۔ حضرت عکرمہ فرماتے ہیں کہ__نیت ہمیشہ نیک رکھو ! دکھاوا یا ریا کاری نیت میں داخل نہیں ہوتی۔ جس کی نیت نیک ہوگی اُس کا عمل بھی ویسا ہوگا۔ علم وہ جوہر ہے جو نیت کو نیک اورعمل کو بہتر بناتا ہے۔
جوصاحب ِ علم ہوتا ہے اس کی ذمہ داریاں بھی زیادہ ہوتی ہے۔پیغمبروں کی ذمہ داریاں اس لئے زیادہ ہوتی تھیں ۔ کہ انھیں علم دیا گیا تھا۔ کوئی پیغمبر ایسا نہیں جس نے اپنے علم پرعمل کر کے نہ دکھلایا ہو۔ اس لئے علم حاصل کرو تواُس پر عمل کرو۔ اگر علم حاصل کیا اور اس پر عمل نہ کیا تو ایسے علم کا کیا فائدہ؟انسان کا اصلی زیور مال و دولت کی بجائے علم ،عمل اور اعلیٰ کردار ہے۔ قانون ضابطے اور اصول عمل کرنے کے لئے ہوتے ہیں۔ یہ اور بات ہے کہ ہم یا تو اصول ضابطے ہی ایسے بنائیں گے جو ہمارے اغراض ومقاصدپورے کریں یا پھربنے بنائے ضابطوں میں ردوبدل کی کوشش کریں گے۔ تاکہ اپنا مطلب نکال لیں۔ اسی منفی سوچ اورخود غرضی کے سبب بُری اور گھٹیا تعلیم دے کر ایک پُوری نسل کو تباہ کردیا ہے۔
انسان کی منفی سوچ اجتماعیت ، اتفاق واتحاد ختم کرکے نفاق نفرت اور شدت پسندی کی طرف لے جاتی ہے اور بالآخر معاشرے کی تباہی کاسبب بنتی ہے۔یہی سوچ خواص میں پیدا ہوجائے تو پھرتباہی بربادی کا دائرہ کار بھی اسی اعتبار سے وسیع اورزیادہ نقصان دہ ہوجاتاہے، جو معاشرے سے بڑھتا ہوا ملکوں اورقوموں کی تقدیرکے بگاڑاورتباہی تک جاپہنچتاہے۔
جب قوم اور معاشرہ بے ضابطگیوں پراُترآئے ۔ ترقی کا معیاردولت و ثروت بن جائے ۔علم وعمل زندگیوں سے نکل جائے تو ذلت اور رسوائی اُس قوم اور معاشرہ کا مقدر بن جاتی ہے۔پروفیسر ٹائن بی نے کہا تھا۔" قوموں کی تباہی اور زوال میں سب سے پہلے ان کے ادارے تباہ ہوتے ہیں۔انتظامی اور علمی ادارے ختم ہونے سے اس معاشرے کی روح نکل جاتی ہے۔ پھرجسد ِخاکی کو بھربھرا ہوکر ڈھیرہوتے دیرنہیں لگتی۔
ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
تازہ ترین کالمز :
محمد اکرم اعوان کے کالمز
-
آوارہ کتے شہریوں کے لئے وبال جان !
منگل 28 جنوری 2020
-
کہیں پرندے بھوکے نہ رہ جائیں!
جمعرات 23 جنوری 2020
-
وحشی معاشرہ!
بدھ 15 جنوری 2020
-
بادشاہ رعیت سے ہی تاجدارہوتا ہے!
بدھ 8 جنوری 2020
-
اے عقل تم ہمیشہ دیرسے کیوں آتی ہو !
بدھ 1 جنوری 2020
-
ہمارا مسئلہ کیا ہے !
جمعرات 26 دسمبر 2019
-
حکمران اورعوام
جمعرات 12 دسمبر 2019
-
ہمارے تعلیمی مسائل اورسرکاری و نجی تعلیمی ادارے
جمعرات 5 دسمبر 2019
محمد اکرم اعوان کے مزید کالمز
کالم نگار
مزید عنوان
UrduPoint Network is the largest independent digital media house from Pakistan, catering the needs of its users since year 1997. We provide breaking news, Pakistani news, International news, Business news, Sports news, Urdu news and Live Urdu News
© 1997-2025, UrduPoint Network
All rights of the publication are reserved by UrduPoint.com. Reproduction without proper consent is not allowed.