الفاظ آپکی شخصیت کے آئینہ دار

پیر 11 اکتوبر 2021

Muhammad Hassan Mukhtar

محمد حسن مختار

انسان کی پہچان کپڑے اور جوتے سے زیادہ اس کے بولنے سے ہوتی ہے۔  انسان کے بولنے کے انداز اور لہجہ سے پتہ چل جاتا ہے وہ کس  طرح کا انسان ہے۔   کپڑے اور جوتے اپنا تعارف خود کرواتے ہیں کیوں کہ یہ بیرونی طرف موجود ہیں  لیکن آپ کو اپنا تعارف کروانے کے لیے اندر سے ہی الفاظ نکالنے ہوں گے کہ جو آپ کا تعارف کروائیں۔  اس لیے کہا جاتا ہے کہ خاموشی بھی ایک پردہ ہے خاموشی نے آپ کے اوپر پردہ کیا ہوا ہے  لیکن جوں ہی انسان بولتا ہے یہ پردہ ہٹ جاتا ہے اور انسان کی حقیقت عیاں ہو جاتی ہے ۔


صحیح مقام پر صحیح گفتگو کرنا بہت بڑا ہنر ہے اس ہنر پر محنت بھی بہت زیادہ لگتی ہے کیونکہ پانی کی طرح الفاظ کو بھی روکنا مشکل ہوتا ہے جو انسان صحیح مقام  پر صحیح بات کرتا ہے وہ فلاح میں رہتا ہے۔

(جاری ہے)


انسان کو صرف اتنا ہی بولنا چاہیے جتنی ضرورت ہو فضول بول کر اپنی اور اپنے الفاظ کی اہمیت کو کم مت کریں۔  فضول بحث سے اجتناب کرنا چاہیے اور خاص طور پر طالبعلم کو  کیوں کے فضول بحث وقت کے ضیاع کے علاوہ کچھ بھی نہیں ہے ۔


فضول بحث اس طرح ہیں جیسے تلوار ہے وہ آپ کے دشمن کے اوپر بھی چل سکتی ہے  رشتے کے خاتمے کی صورت میں اور آپ پر بھی چل سکتی ہے شرمندگی کی صورت میں۔
ایک اچھا انسان کبھی فضول بحث میں حصہ نہیں لیا کرتا وہ اپنے آپ ہی میں رہتا ہے اور اگر اس سے کوئی فضول بات کرے بھی تو وہ کنارہ کشی کرلیتا ہے۔
فضول بحث کے ایک انسان پر درج ذیل نقصانات ہوتے ہیں :  
1.وقت ضائع ہوتا ہے
2.جھگڑے  کا خدشہ
3. کسی کی دل آزاری کا بھی خدشہ ہوتا ہے.
4.پریشانی کا سبب
5. دوستی یا رشتے کمزور ہوتے ہیں
اس لیے ایک انسان کو ہرگز بھی فضول بحث نہیں کرنی چاہیے بلکہ وہ جتنا وقت فضول بحث پر ضائع کرے گا اتنی دیر میں کچھ ایسا بھی کرسکتا ہے جس سے اس کو بہت فائدہ ہو مثلاً :  مطالعہ ،ضروری کام اور ذکر وغیرہ ۔


فضول بحث سے بچنے کے بعد ایک انسان کو درج ذیل فوائد ہوں گے :
* ذہن پرسکون رہے گا
* اپنا قیمتی وقت بچا سکے گا
اور جس شخص کو یہ دو چیزیں میسر ہو جائیں وہ دنیا کا عظیم شخص ہوگا کیوں کہ ساری دنیا سکون کے پیچھے دوڑتی ہے ۔
اب ہمارا یہ المیہ بن چکا ہے کہ ہم اپنے کام کے علاوہ دنیا کے تمام کاموں میں اپنی مداخلت ضروری سمجھتے ہیں ۔
جیسے کچھ لوگ ایک کرکٹ میچ پر تبصرہ کر رہے تھے کہ اگر یہ کھلاڑی اس میچ میں اتنے رنز کرتا تو اس کی ٹیم میں جگہ بن جاتی ۔

دوسرا کہنے لگا تو بے وقوف ہے اس سے بہتر یہ کھلاڑی ہے اور پھر دونوں کی بحث شروع ہوگئی ہے۔ دونوں فریقین کی جانب سے ایسے دلائل پیش کیے گئے اگر کرکٹ کی سلیکشن کمیٹی کو یہ دلائل پیش کیے جاتے تو وہ ضرور ان دونوں کھلاڑیوں کو ٹیم میں رکھ سکتی تھی ۔
تقریبا دو گھنٹے مسلسل بحث چلتی رہی بات جھگڑے تک پہنچی ہی تھی کہ لوگوں نے آکر انہیں چپ کروایا اور دونوں منہ بنا کر گھر چلے گئے۔


اب ایک بندہ ٹھنڈے دماغ سے سوچے کہ کرکٹ کھیلنے والوں کو پیسے ملتے ہیں ، کروانے والوں کو پیسے ملتے ہیں ، دکھانے والوں کو پیسے ملتے ہیں اس میچ پر تبصرہ کرنے والوں کو پیسے ملتے ہیں لیکن ہم جو گلی میں اتنی طویل بحث و مباحثہ کرتے ہیں ہمیں پریشانی کے سوا کیا ملتا ہے ؟
فضول بحث انسان کو نقصان کے علاوہ کچھ نہیں دے سکتی اس لیے خوش رہیں اور فضول بحث سے کنارہ کشی کر لیں اگر کوئی کوشش بھی کرے تو اسے کہیں آپ ٹھیک کہہ رہے ہیں ۔ جو شخص جتنی کم بحث کرتا ہے اتنا زیادہ  خوش رہتا ہے ۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :

متعلقہ عنوان :