افسوس سے احتیاط بہتر ہے

جمعرات 21 اکتوبر 2021

Muhammad Hassan Mukhtar

محمد حسن مختار

ایک ٹی ٹونٹی میچ کا دورانیہ  تقریباً چار 4 گھنٹے تک کا ہوتا ہے ۔ اگر ایک شخص فرض کیا ایک ماہ میں پندرہ 15 میچ دیکھے تو اس کا مطلب اس نے اپنی زندگی کے ساٹھ 60 گھنٹوں کو برباد کر دیا جو بہت زیادہ وقت ہے کیونکہ ان ساٹھ 60 گھنٹوں میں تین ہزار چھ سو  3600 منٹ اور دو لاکھ سولہ216000 ہزار سیکنڈز تھے ۔
''زندگی ایک لمحہ میں بدل جاتی ہے''
یہ فقرہ اکثر ہم نے سنا ہے اور حقیقت بھی یہی ہے انسان کی زندگی میں کئی ایسے لمحات آتے ہیں جو انسان کی زندگی کو بدل کر رکھ دیتے ہیں ۔


اس لیے انسان کو ہمیشہ اپنا ایک ایک لمحہ سوچ سمجھ کر استعمال کرنا چاہیے کیونکہ یہی لمحے ہوتے ہیں جو بعد میں منٹ پھر گھنٹے  پھر دن پھر ہفتے پھر مہینے پھر سال اور پھر یہی سال مل کر زندگی بنتے ہیں ۔

(جاری ہے)


جو شخص اپنے ایک لمحے کی حفاظت نہیں کر سکتا وہ اپنی زندگی کی کیسے حفاظت کر سکتا ہے ؟
لمحات سے زندگی بنتی ہے اگر ہم لمحات کو سنوار لیں تو زندگی خود ہی سنور جائے گی ۔


اب اگر ایک شخص ہر ماہ دو لاکھ سولہ ہزار سیکنڈز ضائع کر رہا ہو تو وہ اپنی زندگی کو کہاں لے کر جا رہا ہے ۔جو وقت گزر گیا وہ ہرگز واپس نہیں آئے گا ۔ اس دنیا نے کئی لوگ ایسے دیکھیں ہیں جو کہتے تھے ۔۔۔۔۔۔۔۔ کچھ نہیں ہوتا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ بعد میں ۔۔۔ کاش ۔۔۔اگر۔۔۔مگر۔۔۔ کرتے رہ گئے۔ جس طرح وقت کی اہمیت کامیابی کا راستہ ہے اسی طرح وقت کا ضیاع ناکامی کا راستہ ہے۔


دنیا میں آج تک کوئی ایسا شخص نہیں دیکھا گیا جس نے وقت کی قدر کی ہو اور برباد ہو گیا ہو۔  کبھی ایسا ہو نہیں سکتا کہ آپ وقت کو قیمتی  سمجھیں  اور وقت آپ کو  قیمتی نہ بنائے ۔  وقت صرف ان لوگوں کا ساتھ دیتا ہے جو وقت کے ساتھ چلتے ہیں اور اس کی قدر کرتے ہیں وقت برباد کرنے والوں سے وقت کو کئی غرض نہیں ہے وہ ہارے یا جیتے ۔
یہ کیسے ہوسکتا ہے کہ ایک سخت شخص  محنت کرے دوسرا شخص  سست  بیٹھا  رہے  اور وقت دونوں کو ایک جیسا پھل دے ، کوئی بھی پھل پانے کے لیے محنت اور کوشش ضروری ہے۔

جو شخص کوشش کرتا ہے وہ اپنا مطلوب پا ہی لیتا ہے یہ قانون کبھی بدل نہیں سکتا ۔
زند گی کی مثال  ایک پودے جیسی ہے کبھی اس کا وجود ہی نہیں ہوتا پھر کبھی سرسبز ہوتا ہے اور سب لوگ رشک کرتے ہیں پھر آخر میں وجود ختم ہو جاتا ہے جیسے کچھ تھا ہی نہیں  پھر اس کی جگہ کوئی اور پودا لے لیتا ہے ۔
پھر وہ سرسبز ہوتا ہے  اور ختم ہو جاتا ہے یہ سلسلہ چلتا رہتا ہے۔  ہم سے پہلے بھی لوگ تھے پھر ہم آئے  اور ہمارے بعد پھر لوگ آ جائے گیں جس طرح ہم پیچھے والوں کو بھول گئے  آنے والے ہمیں  بھول جائیں گے۔  رہتی دنیا میں نام صرف اسی کا زندہ رہتا ہے جو دوسروں کے لیے جیتے ہیں اور وقت کے قدردان ہوتے ہیں ۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :

متعلقہ عنوان :