
ہمیں فیصلہ کرنا ہو گا !
پیر 8 ستمبر 2014

محمد عرفان ندیم
(جاری ہے)
1850کی دہائی میں مارکس نے ہندوستانی سیاست پر ایک تاریخی کتاب لکھی۔”برٹش رولز ان انڈیا “ میں مارکس نے ہندوستانی عوام ،ہندوستانی کلچر اور ہندوستانی حکمرانوں کے حوالے سے خوبصورت تجزیہ پیش کیا ہے ،ہم آج تک اس سوال کا جواب ڈھونڈنے کی کوشش کر رہے ہیں کہ مٹھی بھر انگریزوں نے مغلیہ سلطنت جیسی عظیم طاقت کو کیسے پاش پاش کیا تھالیکن مارکس نے ڈیڑھ سوسال پہلے ہمیں اس سوال کا جواب دے دیا تھا اور آج میں آپ کو مارکس کے اسی جواب کی طرف لے جانا چاہتا ہوں ،مارکس نے چند جملوں میں ہمیں ہماری ناکامی کی وجہ بتا دی تھی ۔ وہ کہتا ہے کہ ہندوستان کے حکمرانوں اور راجوں کی اقتدار پرستی کا یہ عالم تھا کہ مغل اعظم کو مغل صوبے داروں نے پاش پاش کیا ،صوبے داروں کی قوت کو مرہٹو ں نے توڑا ،مرہٹو ں کی قوت کو افغانوں نے ختم کیا اور اس وقت جب یہ سب ایک دوسرے کے خلا ف لڑ رہے تھے برطانیہ عقاب کی طرح جھپٹا اور آن کی آن میں اس نے سارے ہندوستان پر قبضہ کر لیا ۔
کارل مارکس نے ہماری تباہی اور بربادی کے جو اسباب بیان کیئے تھے ہماری بدقسمتی ہے کہ ہم ڈیڑھ سو سال گزرنے کے باوجود آج بھی ان سے چھٹکارا حاصل نہیں کر پائے ،ہمارے سیاست دان آج بھی راجے اور مرہٹے بنے ہوئے ہیں ۔اقتدار کی اس جنگ نے ہمیں دنیا بھر میں رسوا کر کے رکھ دیا ہے ۔گزشتہ تین ہفتوں سے اسلام آباد میں جو ڈرامہ رچایا گیاآپ اسے اقتدار کی جنگ کے سوا کیا نام دیں گے ،یہ سب اقتدار کی جنگ ہے اور سب ایک دوسرے کی ٹانگیں کھینچ رہے ہیں اور رہے عوام تو دو ہاتھیوں کی جنگ میں کچلا گھاس ہی جاتا ہے ۔ہمیں اپنے حکمرانوں اور سیاست دانوں کو داد دینی چاہئے کہ انہوں نے ہمیں آج بھی وہیں کھڑا کیا ہوا ہے جہاں ہم ڈیڑھ سو سال پہلے کھڑے تھے ۔1850کے برصغیر اور 2014کے پاکستان میںآ پ کو کوئی خاص فر ق نظر نہیںآ ئے گا ،اس وقت بھی مرہٹے ،راجے اور صوبے دار آپس میں لڑ رہے تھے اور آج بھی ہمارے سیاست دان،انقلابی لیڈر اور تبدیلی کے علمبردار کرسی کے لئے لڑ رہے ہیں ،دنیا ان ڈیڑھ سو سالوں میں ترقی اور جمہوریت کی معراج پر پہنچ گئی اور ہمارے سیاستدان آج بھی جمہوریت کی تعریف پر لڑ رہے ہیں ۔خدارا اب اس ملک پر رحم کریں ،اس ملک کے لئے ایک ہو جائیں ،ہمارے اتحاد نے 1947میں یہ ملک تو بنا دیا تھا لیکن بعد میں ہم یہ اتحاد برقرار نہیں رکھ پائے اور اس اتحاد کی حدت کم ہو تی چلی گئی ،آج اتحاد کی یہ حدت بالکل ختم ہو چکی ہے یہی وجہ ہے کہ اپنے ملک میں ایک ڈیم بننے سے ملک ٹوٹنے کی باتیں تو ہوتی ہیں لیکن بھارت کی طرف سے پانی رو ک کر ہماری زمینوں کو بنجر کرنے کی سازش پر کسی کی آنکھ نہیں کھلتی ۔
یہ حقیقت ہے جب تک اس ملک کے حکمران اور سیاست دان نہیں سدھریں گے اس وقت تک یہ ملک آگے نہیں بڑھ سکے گا ،جب تک ہمارے حکمران اور سیاستدان مرہٹے اور اور راجے بننے سے باز نہیں آئیں گے تب تک اس ملک کا کچھ نہیں بنے گا ،ہمیں آج یہ فیصلہ کرنا ہو گا ہمیں 1850کا پاکستان چاہئے یا 2014کا ،اور اگر ہم نے آج یہ فیصلہ نہ کیا اورہم نے اپنی روش نہ بدلی تو پھر کم از کم ہم اپنی زندگی میں اس پاکستان کو ایک جمہوری اور ترقی یافتہ پاکستان بنتا نہیں دیکھ سکیں گے ۔
ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
تازہ ترین کالمز :
محمد عرفان ندیم کے کالمز
-
ہم سب ذمہ دار ہیں !
منگل 15 فروری 2022
-
بیسویں صدی کی سو عظیم شخصیات !
منگل 8 فروری 2022
-
میٹا ورس: ایک نئے عہد کی شروعات
پیر 31 جنوری 2022
-
اکیس اور بائیس !
منگل 4 جنوری 2022
-
یہ سب پاگل ہیں !
منگل 28 دسمبر 2021
-
یہ کیا ہے؟
منگل 21 دسمبر 2021
-
انسانی عقل و شعور
منگل 16 نومبر 2021
-
غیر مسلموں سے سماجی تعلقات !
منگل 26 اکتوبر 2021
محمد عرفان ندیم کے مزید کالمز
کالم نگار
مزید عنوان
UrduPoint Network is the largest independent digital media house from Pakistan, catering the needs of its users since year 1997. We provide breaking news, Pakistani news, International news, Business news, Sports news, Urdu news and Live Urdu News
© 1997-2025, UrduPoint Network
All rights of the publication are reserved by UrduPoint.com. Reproduction without proper consent is not allowed.