
تاریخ کا سبق !
اتوار 11 ستمبر 2016

محمد عرفان ندیم
(جاری ہے)
تاریخ بڑی ظالم ہوتی ہے اور یہ کبھی کسی کو معاف نہیں کرتی مگر ہمارے حکمران شاید تاریخ سے سبق سیکھنے کے لیے تیار نہیں ، آپ تاریخ کا انتقام ملاحظہ کریں ۔قائد اعظم محمد علی جناح کی وفات ہوئی تو خواجہ ناظم الدین کو گورنر جنرل بنا دیا گیا ۔ابھی دو سال بمشکل گزرے تھے کہ لیاقت علی خان کو راوالپنڈی میں گولی مار دی گئی ۔خواجہ ناظم الدین نے گورنری چھوڑ کر وزارت عظمی کے پیچھے دوڑ لگا دی ،تقدیر نے ساتھ دیا اور خواجہ صاحب وزیر اعظم بن گئے ۔غلام محمد کو ان کی جگہ گورنر جنرل بنا دیا گیا۔غلام محمدگورنری ملنے کے بعد ”بادشاہ“بن گئے اور انہوں نے خواجہ ناظم الدین کو برطرف کر دیا ،خواجہ صاحب اس وقت جمعے کی نماز کے لیئے جا رہے تھے جب انہیں ان کی برطرفی کی خبر دی گئی ،خواجہ صاحب پر یہ خبر بجلی بن کر گری اور وہ چند لمحوں کے لیئے زمین میں گڑ کر رہ گئے ۔خواجہ صاحب نے گورنر جنرل سے شکوہ کیا ”سر!جب میں گورنر جنرل تھا اور لیاقت علی وزیراعظم تو میں نے تو ایسا کوئی قدم نہیں اٹھایا تھا “غلام محمدنے بڑی حقارت سے خواجہ صاحب کی طرف دیکھا اور بولے ”نا تم لیاقت علی خان ہو اور نا میں خواجہ ناظم الدین“ اور اس کے بعد خواجہ ناظم الدین کبھی وزیراعظم ہاوٴس میں نظر نہیں آئے۔غلام محمد نے محمد علی بوگرہ کو نیا وزیر اعظم مقرر کیا،کچھ ہی عرصے بعد غلام محمد بیمار ہوئے اور ان کے نامزد کردہ وزیر اعظم نے انہیں دو ماہ کے لیئے رخصت پر بھیج کر ان کے سیاسی کردار کا ہمیشہ کے لیئے خاتمہ کر دیا ،گور نر جنرل جب ایوان اقتدار سے نکلے تو ان کی بے بسی کا کوئی ٹھکانہ نہیں تھا اور وہ ایوان صدر سے نکلتے ہو ئے پاگلوں کی طرح چیخ و پکار کر رہے تھے ۔غلام محمد کے بعد اسکندر مرزا کو گورنر جنرل بنایا گیا ،اسکندر مرزاکو اقتدار کی شراب بہت اچھی لگا اور انہوں نے اپنے اقتدار کو دوام بخشنے کے لیئے مختلف حیلے بہانے شروع کر دیے ،اس کے لیئے اسکندر مرزا نے ایوب خان کا سہارا لینے کی کوشش کی اور انہیں اپنی کابینہ میں شامل کر لیا ،ایوب نے صرف تین دن بعد اسکندر مرزا کو ایوان اقتدار سے رخصت کر کے ملک میں مارشل لاء لگا دیا،اسکندر مرزا بڑی خاموشی سے ایوان اقتدار سے نکلا اور بقیہ عمر لندن کے ایک چھوٹے سے ہوٹل میں گزار دی ،ایوب خان نے فوجی وردی کا سہارا لیتے ہوئے دس سال حکومت کی اور سارے سیاست دانوں کے ناک میں دم کیئے رکھا ،ایوب خان نے ذوالفقار علی بھٹو کو اپنا ”سیاسی متبنیٰ“بنایا تھا اور اور انہیں اپنا وزیر خارجہ مقرر کیا تھا اسی بھٹو نے معاہدہ تاشقند کے نعد ”ایوب کتا ہائے ہائے “کے نعرے لگوائے اور ایوب خان کو ٹف ٹائم دیا ،یحی خان نے ایوب خان سے استعفی لے کر اسے ایوان اقتدار سے رخصت کر دیا ،جاتے ہوئے ان کی گاڑی کے ساتھ سوائے دو سکیورٹی گارڈزکے اور کوئی نا تھا اور وہ ایوان صدر سے نکل کر سوات کی پہاڑیوں میں گم ہو گئے ،ایوب خان کی گاڑی جب ایوان صدر سے نکلی تو اسی کے ساتھ ساتھ ان کے اقتدار کا جنازہ بھی نکل گیا تھا ۔بھٹو کے قلم نے ضیاء کو آرمی چیف بنایا تھا اور اسی ضیاکے قلم نے بھٹو کو پھانسی پر چڑھا دیا ۔اورتاریخ کا خوفناک انتقام نوے کی دہائی کے بعد شروع ہوتا ہے ،نوازشریف نے جنرل جہانگیر کرامت سے استعفا لے کر اور جنرل علی قلی خان کو مسترد کرتے ہوئے پرویزمشرف کو آرمی چیف بنا یا تھااور کچھ ہی عرصے بعد وہی پرویزمشرف نواز شریف کے زوال کا پیغام لے کر آیا ۔تاریخ ایسے حکمرانوں اور ایسے عبرتناک کرداروں سے بھری پڑی ہے لیکن شاید نواز شریف ،زرداری ،بلاول اور عمران خان نے تاریخ پڑھی ہی نہیں یا وہ تاریخ سے سبق سیکھنا ہی نہیں چاہتے،چلیں انتظار کر یں تاریخ ایسے کرداروں اور ایسے حکمرانوں کو خود ہی سبق سکھا دیا کرتی ہے۔
ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
تازہ ترین کالمز :
محمد عرفان ندیم کے کالمز
-
ہم سب ذمہ دار ہیں !
منگل 15 فروری 2022
-
بیسویں صدی کی سو عظیم شخصیات !
منگل 8 فروری 2022
-
میٹا ورس: ایک نئے عہد کی شروعات
پیر 31 جنوری 2022
-
اکیس اور بائیس !
منگل 4 جنوری 2022
-
یہ سب پاگل ہیں !
منگل 28 دسمبر 2021
-
یہ کیا ہے؟
منگل 21 دسمبر 2021
-
انسانی عقل و شعور
منگل 16 نومبر 2021
-
غیر مسلموں سے سماجی تعلقات !
منگل 26 اکتوبر 2021
محمد عرفان ندیم کے مزید کالمز
کالم نگار
مزید عنوان
UrduPoint Network is the largest independent digital media house from Pakistan, catering the needs of its users since year 1997. We provide breaking news, Pakistani news, International news, Business news, Sports news, Urdu news and Live Urdu News
© 1997-2025, UrduPoint Network
All rights of the publication are reserved by UrduPoint.com. Reproduction without proper consent is not allowed.