تین منٹ !

منگل 19 ستمبر 2017

Muhammad Irfan Nadeem

محمد عرفان ندیم

1287 میں قبلائی خان نے میانمار پر حملہ کیا تو یہ ملک کئی حصوں میں تقسیم ہوگیا ۔ سولہویں صدی عیسوی میں یہاں ٹنگو خاندان کی حکومت قائم ہوئی۔اٹھارویں صدی میں الونگ پھیہ نے موں قبیلہ کی شورش کو کچل دیا جس کے بعد الونگ پھیہ نے ہندوستان پر لشکر کشی کرکے اپنی سلطنت کو وسعت دی۔ 1784ء میں برمی راجہ بودھوپیہ نے اراکان پر حملہ کرکے اس پر قبضہ کرلیا۔

اس سے پہلے اراکان ایک آزاد خودمختارملک تھا۔1829ء میں اراکان برٹش انڈیا کے تحت آگیا۔ اس کے بعد دوسری اینگلو برمن وار 1852ء میں وسطی برما اور تیسری اینگلو برمن وار 1885ء میں بالائی برما اور1890ء میں شان اسٹیٹ پر انگریزوں کا قبضہ ہو گیا۔ جنوری 1948ء میں یہ برطانیہ سے آزاد ہوا، اس ملک کے سات صوبے ہیں،شان، کایا، کچھین، اراکان، کرین،مون اورچھین۔

(جاری ہے)

میانمار قبیلہ کے افراد جو مانڈلے اور اس کے اطراف میں رہتے ہیں نویں صدی عیسوی میں تبت سے یہاں آکرآباد ہوئے۔ "روہنگیا "میانمارکے علاقے اراکان اور بنگلہ دیش کے علاقے چٹاگانگ میں بسنے والے مسلمانوں کا نام ہے۔برما میں مہاتما بودھ کے پیروں کاروں کی اکثریت ہے۔ مہاتما بودھ کو دنیا میں امن کا پیامبر اور عدم تشدد فلسفے کا داعی سمجھا جاتا ہے اور مہاتما کی فکر یہ ہے کہ جس نے کسی جانور کو بھی قتل کیا تو وہ ایسے ہی ہے جیسے اس نے کسی انسان کو قتل کیا۔

دنیا بھر میں مہاتما کے پیروکاروں کی تعداد قریباً 35 کروڑ ہے جو زیادہ تر ایشائی ممالک میں آباد ہیں۔ان ممالک میں جاپان، جنوبی کوریا، لاؤس، منگولیا، سنگاپور، تائیوان، تھائی لینڈ، کمبوڈیا، بھوٹان اور میانمار شامل ہیں۔ جنوب مشرقی ایشائی ملک میانمار جسے برما کے پرانے نام سے بھی جانا جاتا ہے، 1937ء تک برصغیر کا ہی حصہ سمجھا جاتا تھا۔

پھر برطانیہ نے 1937ء میں اسے برصغیر سے الگ کرکے ایک علیحدہ کالونی کا درجہ دے دیا اور 1948ء تک یہ علاقہ بھی برطانوی تسلط کے زیر اثر رہا۔ آخری مغل بادشاہ بہادر شاہ ظفر کو بھی میانمار میں ہی جلاوطنی کے دن گزارنے پر مجبور کیا گیا اور آج بھی رنگون میں اس کی قبر مغلیہ سلطنت کے زوال اور برطانوی سفاکیت کے نوحے سناتی نظر آتی ہے۔
میانمار کی آبادی تقریبا 5کروڑ 60 لاکھ ہے جس میں 89 فیصد بودھ، 4 فیصد مسلمان (تقریباً ساڑھے 22 لاکھ)، 4 فیصد عیسائی، 1 فیصد ہندو اور 2 فیصد دوسری قومیں آباد ہیں۔

یہاں پر اسلام کی آمد کے آثار 1050ء سے ملتے ہیں جب اسلام کے ابتدائی سالوں میں ہی عرب مسلمان تجارت کی غرض سے میانمار آئے اور پھر یہیں کے ہو کر رہ گئے۔ سات صوبوں کے اس ملک میں مسلمانوں کی اکثریت راکھین (رخائن) میں آباد ہے اور یہاں تقریباً 6 لاکھ کے قریب مسلمان بستے ہیں جنہیں ”روہنگیا“ کہا جاتا ہے۔ بدھ مت میانمارکا قومی مذہب ہے، یہاں 2 مارچ1962ء میں فوجی بغاوت ہوئی اور حکومتی کنٹرول فوج کے ہاتھ میں چلا گیا۔

آج میانمارکی تاریخ معصوم اور نہتے مسلمانوں کے خون سے رنگین ہے، عالمی برادری بھی برمی مسلمانوں کی حالتِ زار پر چپ سادھے ہوئے ہے۔جس طرح وہاں بودھوں نے مسلمانوں کا قتلِ عام کیا ہے تاریخ میں اسکی مثال نہیں ملتی،مسلمانوں پر میانمار کی سرزمین تنگ کر دی گئی ہے اور اْن پر طرح طرح کے مظالم ڈھائے جارہے ہیں، انسانیت کی کھلِ عام تذلیل کی جارہی ہے۔

ہزاروں بستیاں جلا دی گئی ہیں،وہ لاکھوں مسلمان جو جھونپڑیوں میں رہتے تھے وہ بھی خاکستر کر دی گئیں ہیں۔ ہزاروں مسلمان جان بچانے کے لیے بنگلہ دیش کی طرف ہجرت کر کے گئے تو بنگلہ دیشی بحریہ اور فوج نے انھیں واپس دھکیل دیا ہے ۔میانمار حکومت نے پہلے ہی مسلمانوں سے شہریت چھین رکھی ہے ،مسلمان تعلیم نہیں حاصل کر سکتے، علاج معالجہ نہیں کروا سکتے، میانماراْنھیں بنگالی جبکہ بنگلہ دیش اْنھیں برمی قرار دیتا ہے اور اس طرح بیچارے یہ مسلمان دونوں طرف سے مار کھا رہے ہیں۔

وہ مسلمان جو ساحلی دلدلی علاقے میں رہتے ہیں کیڑے مکوڑوں سے بھی بدتر زندگی گزار رہے ہیں۔میانمار کے روہنگیا مسلمان اس وقت دنیا کے مظلوم ترین انسان ۔آپ نے سوشل میڈیا پر گردش کرتی روہنگیا مسلمانوں کی تصاویر دیکھیں ہوں گی، کم از کم مجھ میں اتنی ہمت نہیں کہ میں وہ تصاویر دیکھ سکوں ،چھوٹے چھوٹے معصوم بچوں کو سر عام ذبح کیا جا رہا ہے ،بچوں کو ماوٴں کی گود سے چھینا جاتا ہے اور ماں کے سامنے بچے کا سر کاٹ کے اس کی جھولی میں پھینک دیا جاتا ہے، نوجوانوں کے سر کاٹ کر ایک ترتیب سے رکھے ہوئے ہیں ، خواتین کے نازک اعضا کی بے حرمتی کی جا رہی ہے ،دس دس نوجوانوں کو اکھٹے آگ میں ڈال کر انہیں زندہ جلایا جا رہا ہے ،انہیں ذبح کرنے کے بعد ایک بڑے برتن میں ان کا خون جمع کیا جاتا ہے ،ذبح کرنے کے بعد جس طرح جانوروں کا گوشت بنا یا جاتا ہے یہی حال انسانوں کے ساتھ کیا جاتا ہے ، ان کے بازو ،ٹانگیں ،گردن اور دھڑ الگ الگ کر کے ایک ترتیب سے رکھے ہوئے ہیں ،شاید میں ان مناظر کی ٹھیک طرح سے نمائندگی نہیں کر پا رہا ۔

سوال یہ ہے کہ اگر یہی کام داعش اور طالبان کریں تودنیا چیخ اٹھتی ہے لیکن اب دنیا کی زبانیں اور قلم کیوں خاموش ہیں،اب دنیا کا ضمیر کیوں نہیں جاگتا۔عالمی برادری سے تو یہی توقع تھی لیکن دوارب مسلمانوں کا رویہ بہت تکلیف دہ ہے ۔پاکستان کے حکمرانوں ، میڈیا اور دانشوروں کی خاموشی بھی قابل افسوس ہے۔ کہتے ہیں میڈیا آذاد ہے اگر میڈیا آذاد ہے تو یہ سب کیا ہے ،ہم برطانیہ میں ہونے والی شادیوں اور انڈیا میں مرنے والے اداکاروں کو تین تین دن تک کوریج کیوں دیتے ہیں اور ہم برما کے مسلمانوں کو تین منٹ کیوں نہیں دیتے ،ہم دس دس گھنٹے کرکٹ میچ کی کوریج کے لیئے ضائع کر دیتے ہیں مگر ہم برما میں لٹنے والے مسلمانوں کو دس منٹ کیوں نہیں دیتے ،ہم تفریح کے نام پر پورا پورا دن انڈین فلمیں چلائے رکھتے ہیں مگر ہم برماکی صورتحال کیوں نہیں دکھاتے ،ہم امریکی صدر کے کتے اور برٹش شہزادی کی بلی کی تصاویر تک دکھاتے ہیں مگر ہم برما میں تڑپتے انسانوں کی تصاویر کیوں نہیں دکھاتے اور ہم انڈین اداکاراؤں کی نجی زندگی کے اندر تک گھس جاتے ہیں مگر ہم کعبہ کی بیٹیوں کا تقدس پامال ہوتا کیوں نہیں دکھاتے ۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :