انسان اور خدا ۔ قسط نمبر1

اتوار 3 دسمبر 2017

Muhammad Irfan Nadeem

محمد عرفان ندیم

یہ ہماری پہلی ملاقات تھی ۔ انہوں نے آگے بڑھ کر دروازہ کھولا اور میں گھر میں داخل ہو گیا۔ یہ ملک کے نامور پروفیسر تھے ، ملک کی نامور ترین جامعات میں استاد رہے ، چالیس سال تدریس کی ، سائنسی موضوعات پر تحقیقی مقالے لکھے، حکومت پاکستان سے ستارہ امتیاز حاصل کیا اور آج کل یہ اپنی زندگی مذہب کے لیے وقف کر چکے ہیں ۔ یہ سارا دن قرآن پڑھتے ہیں ، احادیث کا مطالعہ کرتے ہیں ، تسبیحات کا معمول پورا کرتے ہیں ، صبح واک اور عصر کے بعد گیم کرتے ہیں اور رات کو نیند پوری کرتے ہیں ۔

یہ اپنے زمانہ عروج میں بڑے لبرل اور مذہب بیزا ر تھے لیکن اس ڈھلتی عمر میں انہوں نے مذہب کو اپنا لیا ہے اور اس کی وجہ بڑی دلچسپ ہے اور میں یہ وجہ جاننے کے لیے ان کے گھر آ یا تھا۔ سردی کا زور بڑھ رہا تھا ، وہ اٹھے کھڑکی کا شیشہ بند کیا اورہیٹر آن کر کے صوفے پر نیم دراز ہو گئے ۔

(جاری ہے)

میں نے عرض کیا ”سرآپ اپنے زمانہ طالب علمی اور عملی زندگی میں مذہب کے سخت مخا لف تھے لیکن کیا وجہ ہے کہ آخری عمر آپ نے مذہب کی چھتری تلے گزارنے کا فیصلہ کر لیا “ وہ ہلکی سی مسکراہٹ سے بولے ” اس کی وجہ سائنس ہے ۔

“ میں حیران ہوئے بغیر نہ رہ سکاکیونکہ آج کی جدید سائنس الحاد کا پیش خیمہ ہے، جدید سائنس کہتی ہے یہ کائنات چندمتعین قوانین کے تحت خود بخود چل رہی ہے اور اگر ان قوانین کو دریافت کر لیا جائے تو کائنات کو اپنی مرضی سے چلایا جا سکتا ہے ۔ سائنس مابعد الطبیعات کی بھی قائل نہیں اور اس کے نزدیک جنت و جہنم کا تصور با لکل بے معنی ہے ۔اس لیے اگر جدید سائنس پروفیسر صاحب کو مذہب کی طرف لے آئی تھی تو واقعی یہ حیران کن بات تھی ۔

سردی کی لہر بڑھنے کے ساتھ میرا تجسس بھی بڑھ رہا تھا، میں نے دونوں ہاتھ بغل میں دبائے اور نظریں پروفیسر صاحب کے چہرے پر گاڑھ دیں ۔وہ میرے تجسس اور مجھے سراپا سوال دیکھ کر محظوظ ہو رہے تھے ، انہوں نے ٹانگیں صوفے پر پھیلا ئیں ، گرم کمبل اوڑھا اور رخ میری طرف کر کے گویا ہو ئے ” جدید سائنس اسلامی تعلیمات کے لیے ایک واقعاتی اور عملی ظہو رکا درجہ رکھتی ہے ، اللہ تعالی نے قرآن کے اندر کہا ہے کہ ہم انہیں انفس و آفاق میں اپنی نشانیاں دکھائیں گے ، جدید سائنس نے ان نشانیوں کو عملی طور پر ہمارے سامنے رکھ دیا ہے ۔

وہ کام جومسلمان نہ کر سکے جدید مغربی تہذیب نے وہ کام ہمارے سامنے رکھ دیا ہے اور جدید سائنس کی یہ ایجادات اسلامی تعلیمات کے لیے واقعاتی شہادت کا درجہ اختیار کر گئی ہیں ۔ اب کو ئی بھی صاحب شعور ان شہادتوں پر غو ر و فکر کر کے سمجھ سکتا ہے کہ اسلامی تعلیمات کا ایک ایک جزء اور ایک ایک بات بالکل برحق اور سچی ہے ۔ہم وحی سے اپنی بات کا آغاز کرتے ہیں ،وحی کے متعلق کفار مکہ کا اعترا ض تھا کہ یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ اتنی دور آسمان سے آپ پر غیب کی خبریں نازل ہوں ، بغیر کسی واسطے کے آسمان کا زمین سے رابطہ ممکن نہیں لیکن آج کی جدید سائنس نے اس اعتراض کو بالکل بے بنیاد ثابت کر دیا ہے ۔

آج آپ پاکستان میں بیٹھ کر دنیا کے کسی بھی کونے میں کسی بھی شخص سے بات کر سکتے ہیں ، اگر ایک انسان دنیاکے کسی بھی کونے میں کسی بھی انسان سے ڈائریکٹ مخاطب ہو سکتا ہے تو کیا اللہ کے لیے یہ بات ممکن نہیں تھی کہ وہ بغیر کسی واسطے کے پیغمبر تک اپنی ہدایات پہنچا سکے ۔ آپ کائنات کی تخلیق کو دیکھ لیں ، اللہ تعالی فرماتے ہیں کہ میں جب کسی کام کو کرنے کا ارادہ کرتا ہوں تو کن کہتااور وہ چیز ہو جاتی ہے ، اسی طرح میں نے کائنات کو کن کہہ کر پیدا کیا ۔

جدید دور کے انسان کے لیے یہ بات قبول کرنا بہت مشکل تھا کہ اتنی بڑی کائنات محض لفظ کن کہنے سے کیسے وجود میں آ سکتی ہے ۔ لیکن اسپیچ ٹیکنالوجی نے آ کریہ اعتراض بھی باالکل بے بنیاد ثابت کر دیا ،آج ہماری روزمرہ زندگی میں کئی ایسے کام ہیں جو اسپیچ ٹیکنالوجی کی بنیاد پر ہو رہے ہیں ، مثلا پہلے ہمیں ہر کام ہاتھ سے کرنا پڑتا تھا لیکن اب ہم صرف زبان سے الفاظ ادا کر کے حکم دیتے ہیں اور وہ کام ہو جاتا ہے، مثلا آپ گوگل وائس میں جاتے ہیں اورالفاظ ٹائپ کرنے کی بجائے گوگل وائس پر بولتے ہیں تو مطلوبہ نتائج آپ کے سامنے اسکرین پر نمودار ہو جاتے ہیں ، آپ موبائل یا ٹیلی فون کو صرف یہ حکم دیتے تھے فلاں جگہ کا نمبر ملاوٴ اور اس جگہ کا نمبر مل جاتا ہے۔

آج ایسے روبوٹ ایجاد ہو چکے ہیں کہ آپ انہیں حکم دیتے ہیں کہ فلاں چیز پکڑاوٴ وہ پکڑا دیتا ہے ،آپ کہتے ہیں لائٹ بجھا دو وہ بجھا دیتا ہے ، آپ اسے کہتے ہیں کمرے کی صفائی کرو اور وہ الیکٹرانک جھاڑو لے کر کمرے کی صفائی میں لگ جاتا ہے ۔ آپ کمپیوٹر سسٹم کو دیکھ لیں ، آج ہمارا سارا نظام کمپیوٹرازڈ ہوگیا ہے ، آپ جیسے ہی کوئی نام کمپیوٹرمیں انٹر کرتے ہیں وہ خود بخود اس نام سے متعلقہ تمام تفصیلات آپ کے سامنے رکھ دیتا ہے ۔

مثلا اگر یہ گاڑی میں نصب ہے تو یہ خود بخود آپ کو کہے گا سیٹ بیلٹ باندھ لیں ، فیول کم ہے تو اس کی نشاندی کر دے گا اور اگردروازہ ٹھیک سے بند نہیں توبھی آپ کو بتا دے گا ۔ یہ صرف چند مثالیں ہیں ورنہ اسپیچ ٹیکنالوجی اتنی عام ہو چکی ہے کہ اب اکثر کام محض کہنے سے ہو جاتے ہیں ، ا ب سوا ل یہ ہے کہ ایک عاجز ترین مخلوق یعنی انسان اگر اپنے دائرے میں رہ کر محض الفاظ سے یہ سب کام کر سکتا ہے تو پوری کائنات کا خالق وسیع پیمانے پر یہی کام کیوں نہیں کرسکتا ۔

“ وہ سانس لینے کے لیے رکے ، دروازے پر دستک ہوئی اور ملازم نے گرما گرم کافی کے کپ ہمارے سامنے رکھ دیئے، انہوں نے کمبل سے ہاتھ باہر نکالے ، کافی کا کپ اٹھا کر ایک سپ لیا اور دوبارہ گویا ہوئے ” آپ کمپیوٹر پر تھوڑا اور غور کریں ، آپ کے کارخانے ، مل ،دکان یا آفس میں جو بھی مشین کام کر رہی ہے آپ نے اس کا کنکشن اپنے کمپیوٹر سے جوڑا ہوا ہے ، اب آپ بغیر کسی واسطے کے اپنے آفس یا گھر میں بیٹھ کر اپنے کارخانے ، فیکٹری یا دکان کی نگرانی کر رہے ہوتے ہیں ، آپ کو پتا ہوتا ہے کہ کون سی مشین ٹھیک چل رہی ہے ، کس مشین میں گڑ بر ہورہی ہے ، کس مشین میں کتنا ایندھن باقی ہے اور کس مشین کو کس انداز میں چلانا ہے ، آپ مشین سے بہت دور بیٹھ کر یہ سب نہ صرف نوٹ کر رہے ہوتے ہیں بلکہ ساتھ ساتھ ہدایات بھی جاری کر رہے ہوتے ہیں ، اسی طر ح آپ ریموٹ کنٹرول کی دیکھ لیں ، آپ اپنے بستر پر بیٹھے اسے ہدایات جاری کرتے ہیں اور وہ آپ کی بات پر عمل کرتا جاتا ہے ۔

ٹی وی بند کردیتا ہے ، اے سی آن کر دیتا ہے اور اسی طرح کے بیسیوں کام سرانجام دیتا ہے ۔حتی کہ آپ زمین پر بیٹھ کر آسمان پر اڑنے والے جہازوں کو بھی کمپیوٹر اور ریموٹ سے کنٹرول کر رہے ہوتے ہیں ، اگر خلا میں اڑنے والے جہاز میں کوئی خرابی پیداہو گئی ہے تو آپ زمین پر بیٹھے نہ صرف اس سے واقف اور آگا ہ ہو جاتے ہیں بلکہ اس کا تدارک بھی کر دیتے ہیں ،آپ زمین کے کسی کونے میں بیٹھ کرکمپیوٹر کے ذریعے ہزاروں میل دورمیزائل داغ کر سارے علاقے کو تہس نہس کر سکتے ہیں۔

کمپیوٹر اور ریموٹ کنٹرول کا یہ سسٹم بتاتا ہے کہ اگر ایک پانچ فٹ کا انسان کائنات کی اشیاء کو اپنی مرضی سے کنٹرول کر سکتا ہے تو انسان کا خالق یہی کام ایک وسیع کائنا ت میں کیوں نہیں کر سکتا، جو کام ایک پانچ فٹ کے انسان نے ممکن بنا لیا وہ خدا کے لیے کیسے ناممکن ہو سکتا ہے۔ “انہوں نے کافی کا آخری گھونٹ بھرا ،بازو پھیلا کر انگڑائی لی اور گویا ہوئے ۔(باقی آئندہ)

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :