
یہ عبرت کی جا ہے تماشا نہیں ہے!
اتوار 13 مئی 2018

محمد عرفان ندیم
(جاری ہے)
یہ حقیقت ہے کہ مذہب بیزار معاشرے اندر سے کھوکھلے ہو چکے ہیں۔ انہوں نے سیکولرزم کے نام پر مذہب کا تو دیس نکالا دیا ہے لیکن ان کا سیکولرزم بھی ان کو امن، سکون اور روحانیت نہیں دے پایا اور یہ بیچارے اپنی مرضی سے اپنی زندگی کا خاتمہ کر رہے ہیں۔آ پ دنیا کا کوئی بھی سیکولر معاشرہ دیکھ لیں آپ کو اس میں سب سے ذیادہ بے چینی اور خودکشی کا رجحان ملے گا۔قدیم دور سے انسان مذہب میں سکون اور روحانیت تلاش کرتا آیا ہے لیکن آج کے جدید معاشرے مذہب کو پس پشت ڈال کر سکون اور روحانیت چاہتے ہیں جو انہیں کبھی نصیب نہیں ہو سکتی۔ یہ معاشرے دنیا کی تمام سہولتوں کے باوجود اندر سے کھوکھلے اوربے چین ہیں۔وہ یہ بات نہیں سمجھ سکے کہ پر سکون زندگی کے لیے پیسا اور سہولیات کافی نہیں قلبی اطمینان ضروی ہے ، یہودی اور عیسائی مذہب کی اصل تعلیمات ان تک پہنچی نہیں اور مذہب اسلام کی اس وقت جومروجہ تصویر پیش کی جا رہی ہے اس سے یہ لوگ بیزار ہیں اس لیے مذہب کے بارے میں یہ لوگ کشمکش کا شکار ہیں،سکون ،اطمینان اور روحانیت بھی چاہتے ہیں لیکن مذہب کو بھی اپنانا نہیں چاہتے۔روحانی تسکین نہ ہونے کی وجہ سے ایسے ممالک میں خود کشی کی شرح سب سے ذیادہ ہے اور خاندانی نظام ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہے۔تہذیب کی بنیادی اکائی خاندان ہے لیکن خاندان اور فیملی کا لفظ ان معاشروں میں ختم ہوتا جا رہا ہے ، وہ سب کچھ پالینے کے باوجود اندر سے خالی ہیں ، ان ممالک میں اسلام کی مقبولیت کا جو رجحان پروان چڑھ رہا ہے اس کی وجہ بھی یہی ہے کہ اسلامی تعلیمات کی چھتری تلے انہیں ذہنی سکون ملتا ہے۔ خواتین اسلام کے دائرے میں آ کر خود کو پرامن اور محفوظ تصور کرتی ہیں اور ان کو ذہنی سکون نصیب ہوتا ہے۔ مذہب بیزار معاشروں کواپنی بقا کے لیے اس وقت تین بڑے چیلنجز درپیش ہیں ،ایک یہ عقلیت پرستی کی انتہا پر کھڑے ہیں اور اس انتہا کی دوسری جانب زوال کی گہری کھائیاں اور طویل غار ہیں ،انیسویں اور بیسویں صدی عقلیت پرستی کی صدیاں کہلاتی ہیں اور عقلیت پرستی کسی قوم اور تہذیب کے زوال کاآخری اسٹیج ہوتا ہے۔ان معاشروں کا دوسرا بڑا چیلنج خاندانی نظام ہے ، وہاں خاندانی نظام ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہے ، خاندان نہ ہونے کی وجہ سے گھر بنانے اور بسانے کا رواج نہ ہونے کے برابر ہے ۔ تیسرا بڑا چیلنج روحانیت کا فقدان ہے ، یہ لوگ روحانی طور پر بہت پریشان ہیں اور سکون کی تلاش میں کبھی چرچ جاتے ہیں کبھی مندر لیکن اس کے باوجود انہیں سکون نہیں ملتا ، جس دن انہیں پتا چل گیا کہ اصل چین اور دل کا سکون اسلام کے پاس ہے اس دن یہ سب لوگ مسلمان ہو جائیں گے اور کم از کم ہم سے اچھے مسلمان ثابت ہوں گے۔یہ حقیقت ہے کہ مذہب ہر دور میں انسان کی ضرورت رہا ہے اور قدیم معاشرے مذہب سے سکون او ر روحانیت تلاش کرتے آئے ہیں۔ پچھلے چودہ سو سال سے اگر کوئی مذہب اس دنیا میں اپنی اصلی حالت میں باقی ہے اور مذہب کہلانے کا حقدار ہے تو وہ صرف اسلام ہے اس لیے اگر آج کوئی ولیم ڈیوڈ گوڈال امن ، چین اور قلبی سکون کا متلاشی ہے تو اسے یہ خزانہ اسلام کی تجوری سے ملے گا ، اسے اسلام کی چھتری تلے آنا پڑے گا۔
ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
تازہ ترین کالمز :
محمد عرفان ندیم کے کالمز
-
ہم سب ذمہ دار ہیں !
منگل 15 فروری 2022
-
بیسویں صدی کی سو عظیم شخصیات !
منگل 8 فروری 2022
-
میٹا ورس: ایک نئے عہد کی شروعات
پیر 31 جنوری 2022
-
اکیس اور بائیس !
منگل 4 جنوری 2022
-
یہ سب پاگل ہیں !
منگل 28 دسمبر 2021
-
یہ کیا ہے؟
منگل 21 دسمبر 2021
-
انسانی عقل و شعور
منگل 16 نومبر 2021
-
غیر مسلموں سے سماجی تعلقات !
منگل 26 اکتوبر 2021
محمد عرفان ندیم کے مزید کالمز
کالم نگار
مزید عنوان
UrduPoint Network is the largest independent digital media house from Pakistan, catering the needs of its users since year 1997. We provide breaking news, Pakistani news, International news, Business news, Sports news, Urdu news and Live Urdu News
© 1997-2025, UrduPoint Network
All rights of the publication are reserved by UrduPoint.com. Reproduction without proper consent is not allowed.