سیپئنز !!

اتوار 21 اپریل 2019

Muhammad Irfan Nadeem

محمد عرفان ندیم

میں نے 2014میں بل گیٹس کی فہرست میں اس کتاب کا نام دیکھا تھا لیکن میں اسے پڑھ نہیں سکا ۔ بل گیٹس ، مارک زکربرگ سمیت دنیا کی نامو ر شخصیات ہر سال اپنی پسندیدہ کتابوں کی لسٹ جاری کرتے ہیں ۔2014میں بل گیٹس نے اپنی لسٹ میں ”سیپئنز“ (Sapiens) نامی کتاب کو بھی شامل کیا تھا ۔تب میں مصروفیات کے باعث اس کتاب کو نہیں دیکھ سکا لیکن اس سال کے آغاز میں ایک کورس کا حصہ ہوتے ہوئے مجھے اس کتاب کو پڑھنے کا موقعہ ملا ۔

سیپئنز میں بنیادی طور پر سائنسی تناظر میں انسانی تاریخ کا جائزہ لینے کی کوشش کی گئی ہے ۔ آج سے کروڑوں سال پہلے کائنات کے آغاز سے شروع ہو کر قبل از تاریخ ، معلوم تاریخ ، ذہنی و ادارکی انقلاب، زرعی انقلاب، صنعتی انقلاب اور سائنسی انقلاب سے ہوتے ہوئے سپر ہیومن تک کی انسانی تاریخ کو اس کا موضوع بنایا گیا ہے ۔

(جاری ہے)

کائنات کے پھیلاوٴ، انسان کے آغاز و ارتقاء ، جنگلوں میں رہنے اور شکار کرنے والے انسانوں سے زرعی، صنعتی اور سائنسی دور کے انسان ، سماج، مذہب، ٹیکنالوجی، باہمی تعلقات، جنگوں اور ریاستوں کے تنازعات کو ڈسکس کیا گیا ہے ۔

اس کے رائٹر یووال نواح ہراری ہیں جو یہود النسل اسرائیلی اور یروشلم کی کسی یونیورسٹی میں تاریخ کے پروفیسر ہیں ۔ مذہبا ملحد ہیں اور کتاب میں بھی ساری انسانی تاریخ کو اسی الحاد کے تناظر میں بیان کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔ ان کی یہ کتاب دنیا کی بیسٹ سیلر کتابوں میں شامل ہے اور اب تک اس کی کروڑو ں کاپیاں مختلف زبانوں میں ٹرانسلیٹ ہو کر فروخت ہو چکی ہیں ۔

اس کتاب سے متاثر ہونے والوں کی تعداد بھی کم نہیں ، اس مختصر سے کالم میں کتاب کے سارے مندرجات کا احاطہ نہیں کیا جا سکتا البتہ سرسری جائز آپ کے سامنے پیش خدمت ہے ۔ بیسویں صدی میں ٹائن بی اور شپنگلرنامور موٴرخ گزرے ہیں اور دونوں نے انسانی تاریخ و تہذیب پر تفصیلا گفتگو کی ہے ۔ ہراری اکیسویں صدی میں نامور موٴرخ کے طور پر سامنے آئے ہیں لیکن کیا ہراری کا کام ٹائن بھی اور شپنگلر کے ہم پلہ ہو سکتا ہے ، یہ اہم سوال ہے۔

میرے خیال میں ہراری کا کام تحقیقی و تجزیاتی کی بجائے ناولٹی اور کہانی کے انداز میں آگے بڑھتا ہے ۔ وہ ابن خلدون اور ٹائن بھی کی طرح انسانی تاریخ و تہذیب کے مختلف ادوار کو تحقیق و تجزیہ کی بجائے کہانی کے انداز میں بیان کرتا ہے ۔ اگر ہم سیپئنز کو ایک تاریخی ناول کے طور پر دیکھیں تو ہراری کو داد دینی پڑتی ہے اور اگر اس کو انسانی تاریخ و تہذیب اور فلسفہ تاریخ کے تناظر میں دیکھا جائے تو یہ حقائق کو مسخ کرنے اور اپنے تناظرمیں پیش کرنے کی ایک بھونڈی کاوش ہے ۔

دراصل کائنات اور انسانی تاریخ کو کسی ایک تناظر سے نہیں دیکھا جا سکتا اور ہراری جیسے نامور موٴرخ کو یہ بات بہتر انداز میں معلوم ہو گی مگر اس کے باجود اس کا ادعائیت پر مشتمل اسلوب نگارش تجاہل عارفانہ معلوم ہوتا ہے ۔ ہر مذہب و ملت سے وابستہ افراد تاریخ کو اپنے تناظرمیں دیکھتے اور اس سے نتائج کشید کرتے ہیں ۔ ہراری کا اپنا ایک تناظر ہے ،ایک موٴرخ کے طور پر اسے انسانی تاریخ و تہذیب کے باب میں جو دوسرے نقطہائے نظر کو بھی جگہ دینی چاہئے تھی یا کم از کم اپنے تناظر اور نقطہ نظر میں اتنی لچک رکھتا کہ اس سے ادعائیت کا اظہار نہ ہو ۔

بعض جگہوں پر ہراہری کا اسلوب بالکل فکشن اور افسانہ نگاری کا مظہر دکھائی دیتا ہے ۔ مثلا قبل مسیح میں تین طرح کے یونیورسل آرڈروجود میں آئے ،پہلا یونیورسل آرڈر معاشی آرڈر تھا، دوسرا پولیٹکل آرڈر اور تیسرا مذہبی آرڈر تھا۔ پھر ان میں سے ہر ایک کی فرضی تفصیلات بیان کی گئی ہیں کہ معاشی آرڈر کیوں وجود میں آیا ، پولیٹکل آرڈر کی ضرورت کیوں پیش آئی اور مذہبی آرڈر نے کیسے جنم لیا ۔

پھر مذہب کے حوالے سے کہا گیا ہے کہ پہلے کئی خداوٴں پر مشتمل مذاہب تھے اور ہر قوم اور قبیلے کا اپنا خدا تھا ، لوکل خداوٴں کے خلاف سب سے پہلے عیسائیت نے آواز بلند کی اور اسلام نے آ کر اسے نکتہ عروج تک پہنچا دیا ۔ مذہبی آرڈر کے ضمن میں سوال یہ ہے کہ مذاہب کی بنیاداور تشکیل پر مشتمل اس مقدمے کے دلائل کیا ہیں ، ہراری کے پاس ایسے کون سے ٹھوس شواہد اور دلائل موجود ہیں جس کی بنیاد پر وہ اس کہانی کو آگے بڑھاتا ہے ۔

بعض جگہوں پر ہراری کا اسلوب نگارش پیشہ ور مصنفین کی طرح کا ہو جاتا ہے ، پہلے ایک نقطہ نظر کو انتہائی مبالغہ آمیزی کے ساتھ بیان کیا جاتا ہے اور اس طرح بڑھا چڑھا کر پیش کیا جاتا ہے جیسے یہی سچ ہے اور اگلے ہی لمحے اس کی تردید کر کے اس کے مخالف نقطہ نظر کے حق میں دلائل دینا شروع کر دیئے جاتے ہیں ۔ مثلا ایک جگہ پر وہ گندم کی اہمیت بیان کرتا ہے اور اگلے ہی لمحے کہتا ہے کہ گندم کے آنے سے قبل انسان خوشحال تھے، طرح طرح کی غذائیں کھاتے اور دنیا کے مختلف خطوں میں بسیرا کرتے تھے لیکن پھر گند م نے آ کر انسان کو غلام بنا لیا اور ایک جگہ ٹھہرے رہنے پر مجبور کر دیا ۔

یہ کتاب اس وجہ سے ہمیں سوچنے پر مجبور کر دیتی ہے کہ ہراری نے ہمارے صدیوں سے چلے آنے والے روایتی قسم کے تصورات پر سوالات اٹھائے ہیں اور یہ انسانی ذہن کا خاصا ہے کہ جب اس کے مسلمہ اور صدیوں سے چلے آنے والے تصورات پر زد پڑتی ہے تو وہ سوچنے پر مجبور ہوجاتا ہے قطع نظر اس کے کہ جو سوالات اٹھاے گئے ہیں ان کی نوعیت کیا ہے ۔مثلا ہراری نے میل اور فیمیل اور مرد و عورت کے تناظر میں جو سوالات اٹھائے ہیں کہ مرد و عورت کی تفریق خود انسان کی پیدا کردہ ہے اس سے ہمارے روایتی اور قدیم تصورات پر زد پڑتی ہے تو ہم سوچنے ہر مجبور ہو جاتے ہیں اگرچہ اپنی ذات میں یہ سوالات محض کچھ سائنسی حقائق اور ان حقائق کی بنیاد پر تشکیل پانے والے اذہان کی اختراعات ہیں ۔

ایک ایسا انسان جس کا مطالعہ سطحی ہو اوروہ تنقیدی شعور سے عاری ہو بعید نہیں کہ وہ اس کتاب سے ضرورت سے ذیادہ متاثر ہو جائے ۔ ایک مسلمان کی حیثیت سے ہمارے لیے کچھ بنیادی مقدمات اور مسلمات ہیں اور ہم ان مقدمات پر غیر متزلزل ایمان رکھتے ہوئے ہی سائنس و ٹیکنالوجی، تحقیق و تجزیہ اور غور و فکر کے پابند ہیں ۔ ہم آذادانہ تحقیق و تجزیہ اور آذادنہ غو ر فکر کی اصطلاحات کو جتنی بھی وسعت دے دیںآ خری نتیجے پر آکر ہمیں ماننا پڑے گاکہ یہ اللہ کا حکم ہے ۔

ہر سوال جواب طلب نہیں ہوتا اور نہ ہی ہماری روایت میں اس کی کوئی مثال موجود ہے۔اس کی واضح دلیل خود قرآن میں موجود ہے کہ اللہ نے قرآن میں بعض جگہوں پر کفار مکہ کے صرف اعتراضات نقل کیے ان کا جواب نہیں دیا یا انہیں اس قابل ہی نہیں سمجھا کہ ان کا جواب دیا جائے ۔ اگر مجھ سے پوچھا جائے کہ اس کتا ب کا مطالعہ کرنا چاہئے تو میرا جواب ہوگاضرور لیکن اس شرط کے ساتھ کہ صاحب مطالعہ کی ذہنی سطح بلند ، تنقیدی نقطہ نظر کا شعور اور مطالعہ بہت وسیع ہو ۔

محدود مطالعہ اور تنقیدی شعور سے عاری اذہان فکری ناپختگی کی وجہ سے کسی بھی وقت کسی سے بھی متاثر ہوجاتے ہیں اور اس کے مظاہرہمارے اطراف میں بکھرے پڑے ہیں ۔ ہراری نے جس ناولٹی انداز اور اپنے تناظر میں تاریخ و تہذیب کو پیش کرنے کی کوشش کی ہے بعید نہیں ناپختہ فکر اور تنقیدی شعور سے عاری اذہا ن اس کتاب سے ضرورت سے ذیادہ متاثر ہوجائیں ۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :