یہ آزمائش ہے !

جمعہ 14 جون 2019

Muhammad Irfan Nadeem

محمد عرفان ندیم

ہر شب ایک نیا ہنگامہ اورہر روز ایک نئی آزمائش ہے،ایک شخص نرگسیت کے ہاتھوں مجبور ہو کر پوری قوم کے لیے ایک آزمائش بن چکا ہے، آزما ئش کا یہ سلسلة الذھب کس حد ک طویل ہوتا اور یہ اونٹ کس کروٹ بیٹھتا ہے فی الحال کسی کو کچھ خبر نہیں البتہ ان ہنگامہ خیزیوں میں اتنا ضرور ہوا کہ اصل مسائل کی طرف توجہ کسی کے وہم وخیال میں بھی نہیں رہی ۔
معیشت، بے روزگاری، مہنگائی، روپے کی بے قدری ، عدم استحکام ، ہیجان، دشنام اور عالمی سطح پر جگ ہنسائی ۔

اس پر مستزاد ایک ایسا ہجوم جو کسی محاورے کے مطابق ٹرک کی بتی کے پیچھے بھاگے جا رہا ہے ، منزل کہا ں اورجانا کہاں ہے راہبر کو خود معلوم نہیں کہ نری جذباتیت کبھی منزل تک پہنچانے کا سبب نہیں ہوا کرتی۔میں پہلے دن سے کہہ رہا ہوں اس انسان کی شخصیت ایک معما ہے جو آج تک کسی پر کھل نہیں سکا ، البتہ اس معمے نے اور بہت سارے پارساوٴں کی قبائیں چاک کر دیں ،پہلے اہل سیاست نے اپنے پیٹ ننگے کیے اب اہل مذہب بھی اس میدان میں پیچھے نہیں رہے ، کسی نے اس شخص کے دفاع اور کسی نے مخالفت میں اپنی اصلیت آشکار کی ،معلوم ہوا دلیل ،تہذیب، اختلاف رائے ، تحمل و برداشت اور شائستگی سے سب الحمد للہ تہی دست ہیں ۔

(جاری ہے)

 
پہلے اہل سیاست ایک دوسرے پر گند اچھالتے اور خبث باطن ظاہر کرتے تھے اب یہی کام اہل مذہب نے بھی شروع کر دیا، اہل مذہب اس کام میں دو ہاتھ آگے نکلے کہ یہ ہر کام بحسن و خوبی اور احسان کے ساتھ سر انجام دینے کے قائل ہیں ۔
اس شخص کی واحد خوبی جس کا ہر جگہ حوالہ دیا جاتا اور اس کی بنیاد پر ذہن سازی کی جاتی ہے کہ وہ کرپٹ نہیں ، میری نظر میں، اللہ مجھے عقل سلیم سے نوازیں، مالی کرپشن سے ذیادہ خطرناک اخلاقی کرپشن ہے اور یہ شخص اس میدا ن میں طاق ہے ۔

جس ڈھٹائی اور تسلسل سے اس شخص نے جھوٹ بولے اور آج بھی بول رہا ہے اگر جھوٹ کی کوئی حد ہوتی تو یہ شخص اس کا سب سے پہلا شکار ہوتا ۔ اگر صادق و امین ہونے کے پیمانے درست ہوتے تو آج یہ شخص کاذب اور وعدہ خلاف قرار پاتا ،افسوس مگر یہ ہے کہ ہمارے ترازو خواہشات اور مصلحتو ں کے اسیر ہوگئے ۔مالی کرپشن کہ جس کا اثبات بھی عادلانہ طور پر نہیں کیا گیا سلاخوں کے پیچھے مقید ہوئی اور اخلاقی کرپشن کہ جس کے مظاہر عالم افق پر جا بجا بکھرے پڑے ہیں وریز اعظم ہاوٴ س میں براجمان ہوئی ، فیا للعجب۔

دوسری خوبی جس کو بہت بڑھا چڑھاکر بیان کیا گیا کہ یہ شخص ریاست مدینہ کی بات کر تا ہے ، کتنے بھولے ہیں ہم لوگ، آج تک مذہبی سیاسی جماعتوں کو جس بات کا طعنہ دیتے رہے اس شخص کے حق میں کتنی جلدی اس سے دستبردار ہو گئے ۔ کسی بھی اسلامی ریاست کے لیے افراد سازی سب سے بنیادی کام ہے اور یہ شکوہ ہمیں مذہبی سیاسی جماعتوں اور ہر اس شخص سے رہا جو ملک میں اسلامی نظام کے نفاذ کی بات کرتا تھا۔

 مثال یہ دی جاتی تھی کہ اگر آج حکومت آپ کے سپرد کر دی جائے تو آپ کے پاس کون سے اور کتنے ایسے افراد ہیں جواس ملک کو اسلامی بنیادوں پر چلا سکیں۔ یہ سوال مگر اس شخص سے کوئی نہیں کرتا، یا شاید اس شخص کے پاس جادو کی چھڑی ہے جو ایک دن میں مالی و اخلاقی کرپشن کے گڑھ کو ریاست مدینہ میں تبدیل کر دے گا ۔ جو مشورہ مذہبی سیاسی جماعتوں یا اداروں کو دیا جاتا تھا کاش یہ مشورہ کو ئی اس خود پسند کو بھی دے ۔

اس سے بھی پہلے ضروری ہے کہ یہ شخص اپنی ذات کو ریاست مدینہ کے انسانی قالب میں ڈھالے، جس شخص کالسانی و اخلاقی وجود وقت کی بدترین مثال ہو ااس کی زبان سے ریاست مدینہ کا نام سن کر کوئی کیسے یقین کر لے ، یہاں مگر فہم و دانش کا یہ حال ہے کہ اہل مذہب اس اخلاقی کرپشن کا دفاع کرنے میں پیش پیش ہیں ۔ 
کیا ریاست مدینہ کی اخلاقی بنیادیں چور، ڈاکو ،لٹیرے جیسے الفاظ پر استوار ہو ں گی ، کیا ریاست مدینہ کی بنیاد میں جھو ٹ کی اینٹیں اور وعدہ خلافی کے پتھر لگائے جائیں گے اورکیا ریاست مدینہ کی چھت دوسروں کی عزتیں تار تار کرکے ڈالی جائی گی۔

اگرریاست مدینہ میں یہی سب کچھ ہوناہے ا ور ریاست مدینہ کا یہی ماڈل مطلوب ہے توکم از کم میں ریاست مدینہ کے اس ماڈل سے اللہ کی پنا ہ چاہتا ہوں ۔
انسان غیب کا علم نہیں جانتا اس لیے یہ مجبور ہے کہ ماضی کے تجربات اور واقعات کی بنیاد پر مستقبل کے بارے میں کوئی رائے قائم کر ے ۔ اسی بنیاد پر میں یہ کہنے پر مجبور ہوں کہ اس شخص سے مجھے کسی خیر کی توقع نہیں ۔

جذبات ، ہیجان ، انتقام، نرگسیت اور خود پسندی یہ سب صفات انسان سے سوچنے سمجھنے کی صلاحیتوں کو ختم کر دیتی ہیں ، اگر حسن ظن سے کام لیا جائے تو بھی اس شخص میں سوچنے سمجھنے کی صلاحیت نہیں رہی ، اب ایسی صورت میں کسی سے خیر کی توقع عبث ہے ، ہاں کسی کو محاورے پر عمل کرنے کا شوق ہو اور وہ محاوراتی سچائی کو آنکھوں سے دیکھنا چاہے تو ٹرک کی بتی کے پیچھے لگا رہے ۔

 
آخری تجزیے کے طور پر پاکستان اپنے عبوری دور سے گزر رہا ہے اور اسے پھر وہیں سے سفر شروع کرنا ہے جہاں 2018میں چھوڑا تھا ،سیاست ، معیشت، معاشرتی استحکام ، صحت، تعلیم ، روزگار ہر شعبہ زوال کا شکار ہے اور جب تک یہ شخص ہے ایسے ہی رہے گا ۔ کوئی معجزہ ہو جائے اور اس شخص کی ذات میں تبدیلی آ جائے ، موجودہ شخصیت اور ذہنیت کے ساتھ یہ ملک آگے بڑھ سکتا ہے نہ کسی قسم کی تبدیلی کا کوئی امکان ہے ۔

جو شخص اپنے چھ فٹ کے قد کو تبدیلی کی بنیاد نہ بنا سکے اور اسے ریاست مدینہ کے اخلاقی قالب میں نہ ڈھال سکے اس کی زبانی جمع خرچی پر صرف رجائیت پسند اور ضرورت سے ذیادہ سادہ لوح ہی یقین کر سکتے ہیں ۔ 
مکرر عرض ہے کہ یہ شخص ملک کے لیے عموما اور مذہب و اہل مذہب کے لیے خصوصافتنہ اور آزمائش ہے ،پہلے اہل سیاست ایک دوسرے کے گریبان چاک کرتے تھے اب مذہب بھی اس اکھاڑے کا حصہ بن گیا ، اہل مذہب سوشل میڈیا اور دیگر پلیٹ فارمز پر مسلسل جہاد برپا کیے ہوئے ہیں ، یہ حقیقت تو تسلیم شدہ ہے کہ جب مذہب کسی معاملے میں فریق بن جائے توتنائج بھیانک اور ہو ش ربا ہوتے ہیں ۔

کاش میں اہل مذہب کو یہ باور کرانے میں کامیاب ہو جاوٴں کہ خدا را مذہب کو اس شخص کے معاملے میں نہ گھسیٹو ، یہ شخص ایک معماہے ، ایک فتنہ اور آزمائش ہے ، اسے حالات کے دھارے پر چھوڑ دو ۔ جس طرح مذہب، موقر مذہبی شخصیات اور ادارے اس شخص سے قبل سیاست سے لاتعلق اور دینی کاموں میں مشغول تھا اب بھی وہی روش اپنائی جائے ۔ کرنے کے اور بہت کام ہیں، دعوت و تبلیغ، وعظ و نصیحت ، دینی اداروں کا قیام ، نئی نسل کی دینی تربیت اور چپکے سے افراد سازی کی محنت ۔ بے دینی کے خلاف آواز ، فحاشی و عریانی کا سد باب، اخلاقی وجود کی تطہیر اور کروڑوں انسانوں کے ٹوٹے ہوئے تعلق کو از سر نو اپنے رب سے جوڑنا۔یہ مذہب اور اہل مذہب کے اصل وظائف ہیں ، کوئی ہے جو اپنی اصل کی طرف لوٹنے کو تیار ہو۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :