دینی مدارس اورروایت !

منگل 30 جولائی 2019

Muhammad Irfan Nadeem

محمد عرفان ندیم

مدارس اور اہل مدارس، ہماری دینی وعلمی روایت کے امین ہیں ، وہ روایت جس کا آغازفاران کی چوٹیوں سے ہوا تھا۔ اس روایت نے گزشتہ چودہ صدیوں میں انسانیت کا سر فخر سے بلند کر دیا ۔بلاشبہ انسانی تاریخ کا یہ دور، کرہ ارض کی لاکھوں کروڑوں سالہ حیات میں موسم بہار کہلانے کا مستحق ہے، افسوس مگر یہ ہے کہ آج یہ روایت اپنے احیاء کی تمام تر توانائیوں کے باوجود آخری سانسیں لی رہی ہے ، بالکل اس نحیف و نزار بڈھے کی طرح جس کی جوان اولاد ، اس کے علاج معالجے کی بجائے اسے بستر مرگ پر مرنے کے لیے اکیلا چھوڑ دے ، کم تر الفاظ میں اس ناہنجار اولاد کو بے حس اور مردہ ضمیر ہی کہا جا سکتا ہے ، یہ الفاظ البتہ میں دوسرے مقدمے میں استعمال نہیں کر سکتا ۔


تاریخ کے مختلف ادوار میں یہ روایت دنیا کے مختلف خطوں میں پنپتی رہی ،پہلے حجاز ، پھر بغداد ، پھر اندلس اور آخری پڑاوٴہند میں ہوا ، 1857کے بعد یہ روایت کچھ عرصے کے لیے ڈگمگا ئی مگر جلد ہی سر سبز و شاداب ہو گئی ،ایک توانااور مضبوط درخت کی طرح ۔

(جاری ہے)

تقسیم کے بعدیہ روایت ، اپنی تمام تر قوت اور رعنائی کے ساتھ پاکستان کے حصے میں آگئی ،ہماری بدقسمتی کہ ہم اسے روح عصر سے ہم آہنگ نہ کر سکے ، اس کی حیات کے تقاضو ں کا ادراک اور اس کی رعنائی و زیبائی کا خیال نہ رکھ سکے ، نتیجہ یہ نکلا کہ آج یہ بستر مرگ پر پڑی ہے ، اکھڑی سانسیں ، مٹتا وجود اور بے بس جانشین ، اب یہی قصہ ہے اس عظیم روایت کا جو کبھی دنیا کے لیے قابل رشک ہوا کرتی تھی ۔


 یہ ممکن نہیں کہ دینی و علمی روایت کی بات ہو اور اسے مدارس سے الگ کرکے دیکھا جا سکے ، آج کے مدارس ، ماضی کے کالجز اور یونیورسٹیاں ہوا کرتی تھیں جہاں ریسرچ اور تحقیق کے چشمے پھو ٹتے تھے ، یہ اس دور کی بات ہے جب نظام تعلیم میں دوئی نہیں تھی ، برا ہو لارڈ میکالے کا جس نے اس روایت کو دو متضاد خانوں میں بانٹ دیا اور خرابی ہو ان دانشوروں کے لیے جنہوں نے اس تقسیم کو برقرار رکھا ۔

نوآبادیات نے روایت کا سارا بوجھ مدارس اور اہل مدارس کے کندھوں پر ڈال دیا ، یہ بوجھ کی شدت تھی یا حاملین روایت کی غفلت و سستی کہ یہ اپنا بانکپن برقرار نہ رکھ پائی ،اب روایت کا وجود اس ادھیڑ عمر بڑھیا کی طرح ہے جس کی صرف ہڈیاں دکھائی دیتی ہیں ، چہرہ دھنس گیا، ماس لٹک چکا ، بینائی جا چکی ،چال میں لڑکھڑاہٹ اورکسی زور دار آندھی کی منتظر ۔


گزشتہ دنوں ، انہی صفحات پر مولانا زاہد الراشدی کا مضمون ”مدرسہ ڈسکورس “کے حوالے سے نظر سے گزراجس میں انہوں نے مدارس کے نصاب ونظام میں خامیوں کی نشاندہی کی اورماضی کی روایت کا حوالہ بھی دیا کہ ہماری روایت کس قدر توانااور علم و تحقیق کا مرکز ہو اکرتی تھی ۔ میرا حسن ظن ہے کہ ہمیں اپنی روایت کی بازیافت کے لیے انہی مدارس کی طرف رجوع کرنا پڑے گا لیکن کیا مدارس اور اہل مدارس بھی اس حسن ظن میں مبتلاء ہیں ۔

مدارس کے نصاب و نظام اور بہتری کے لیے اتنا لکھا جا چکا کہ ایک اچھی خاصی لائبریری وجود میں آ سکتی ہے ، سوال مگر یہ ہے کہ اس لکھے کا مخاطب کون ہے ، میرااضطراب یہی ہے کہ اب اس کا تعین ہونا چاہئے ۔
میں ایک عرصے سے ان موضوعات پر سوچ اور لکھ رہا ہوں ، اہل مدارس اور وفاق کے ذمہ داران سے بھی وقتا فوقتا تبادلہ خیال رہتا ہے ، مجھے حیرت ہوتی ہے کہ ایسے تمام حضرات خامیوں کے قائل اور بہتری کے خواہاں ہیں ، اپنی علمی روایت کے احیا کے لیے متفکر اور بے چین لیکن کسی طرف سے عملی کوششوں کا آغاز دکھائی نہیں دیتا ۔

ایسے میں یہ سوال شدت اختیار کر جاتا ہے کہ یہ سب کو ن کرے گا اور یہ کس کی ذمہ داری ہے ۔ میرا گمان تھا کہ مولانا زاہد الراشدی صاحب وفاق کے منتظمین کے قریب اور ان تک رسائی رکھتے ہیں ، یقینا وہ وفاق کی کسی کمیٹی کے رکن بھی ہوں گے ، حیرت مگر اس بات پر ہوتی ہے کہ وہ بھی اپنا درد دل صرف اخبارات تک ہی بیا ن کر سکتے ہیں ، یہ سب تجاویز ، سفارشات اور صورتحال وہ ڈائریکٹ منتظمین تک کیوں نہیں پہنچاتے ،وفاق کے اجلاسوں میں یہ آوازکیوں نہیں اٹھائی جاتی اور اگر آواز اٹھتی ہے تو اس کی شنوائی کیوں نہیں ہوتی ، مکرر عرض ہے کہ اب اس لکھے کا تعین ہونا چاہئے کہ اس کا مخاطب کون ہے ۔


بعض احباب کو میری یہ رائے گراں گزرتی ہے کہ مدارس کی موجودہ صورتحال کے تناظر میں کہا جا سکتا ہے کہ یہ تعلیمی بورڈ اور علمی و تحقیقی ادارے کم اور خانقاہیں ذیادہ ہیں ، اس سے میری مراد مدارس کی تحقیر ہرگز نہیں کہ اپنی ذات میں یہ بھی بہت بڑا کام ہے کہ عوام کا تعلق اللہ سے جوڑا جائے لیکن ہماری روایت صرف یہ نہیں تھی ۔ ہماری روایت ایک وسیع پیکج تھا جس کی بنیادتو تعلق مع اللہ تھی مگر آگے اس کے مختلف شیڈز تھے ۔

فقہ ، قانون ، سماجیات ، زبان ، ادب ، بلاغت، ابلاغ ، منطق ، فلسفہ ، جغرافیہ ، فلکیات اور الہیات ان شیڈز کی مختلف صورتیں تھیں ۔ آج یہ روایت جمود کا شکار ہے اور یہ جمود صرف چند پہلووٴں تک محدود ،روایت سے تعلق توڑ کر کوئی قوم کیسے آگے بڑھ سکتی ہے مگر ہم شاید تاریخ کے نئے اصول طے کرنے پر مصر ہیں ۔
گزشتہ چند سالوں سے مختلف مدارس کے منتظمین و مہتممین نے ،اپنے طور پر نصاب و نظام میں تبدیلی اور عصری مضامین کو شامل نصاب کر کے اتنا تو ثابت کر دیا کہ تبدیلی اور بہتری کی ضرورت بہر حال موجود ہے ۔

مگر یہ کیا ہوا کہ ہر کوئی اپنے طور پر پیوند لگانے میں مصروف ہے ، جس کو جہاں کوئی عیب دکھائی دیا اس نے وہاں پیوند لگا لیا ،مجموعی طور پر البتہ کوئی اس پیوند کاری کے لیے تیار نہیں ۔ یہ رویہ بذات خود ایک عیب اور باعث انتشار ہے ، اس لیے لازم ہے کہ اوپر والی سطح پر ان چیزوں کا ادراک ہو ، سوال پھر اسی دائرے میں آجاتا ہے کہ اب یہ تعین ضروری ہے کہ بلی کی گردن میں گھنٹی کون باندھے گا ۔


مولانا زاہد الراشدی نے”مدرسہ ڈسکورس “ کو مدارس کی انہی خامیوں کا نتیجہ قرار دیا ہے،جب اہل مدارس اپنی روایت کی بازیافت کے لیے آگے نہیں بڑھیں گے تو مدرسہ ڈسکورس جیسے پلیٹ فارم اس کی جگہ لیں گے ، مدرسہ ڈسکورس پر اعتراض سے قبل ضروری ہے کہ حاملین روایت ، اپنی روایت کے احیاء کے لیے خودآگے بڑھیں ، وہ آج کے نوجوان کی علمی تشنگی کو دور کرنے کے لیے وہ اقدامات کریں جس سے ان کی روایت سے وابستگی مضبوط تر ہوجائے۔

اسباب کا ازالہ کیئے بغیر نتائج پر اعتراض ایک غیر منطقی رویہ جس کی کسی طور پزیرائی نہیں کی جا سکتی ۔
ہمارے ہاں دینی و عصری دونوں نظامہائے تعلیم پر گفتگوئیں اور اعتراجات معمول کی بات ہے جس میں کسی حد تک صداقت بھی موجود ہے ، کیا ہی اچھا ہو کہ ارباب مدارس آگے بڑھ کر ایک متوازن نصاب و نظام وضع کریں اور ایک مثالی طالب علم دنیا کے سامنے لا کر کھڑا کر دیں ۔مکرر عرض ہے کہ مدارس کے باب میں بہت لکھا جا چکا ، اس لکھے کا مخاطب کون ہے ، اب وقت ہوا چاہتا ہے کہ اس کا تعین کیا جا ئے تاکہ انفرادی پیوند کاری کی بجائے اجتماعی سطح ایسا نظم وضع کیا جائے کہ اس پیوند کاری کی ضرورت باقی نہ رہے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :