ہم اور ہندوستا ن !

بدھ 11 ستمبر 2019

Muhammad Irfan Nadeem

محمد عرفان ندیم

سورج اور زمین کے درمیان کتنا فاصلہ ہے یہ وہ سوال تھا جس نے اٹھارویں صدی میں دنیا کو بیسیوں نئی دنیاوٴں اور ایجادات سے روشناس کرایا ۔ اٹھارویں صدی میں ماہرین فلکیات کو اندازہ ہوا سیارہ زہرا ہر چند سال بعد زمین اور سورج کے درمیان سے گزرتا ہے ، اگر مختلف براعظموں سے اس کا مشاہدہ کیا جائے تو اس سے زمین کا سورج سے فاصلہ معلوم کیا جا سکتا ہے ۔

ماہرین نے پیشن گوئی کہ زہرا کا آئندہ سفر 1761اور1769میں ہو گا ۔ یورپ اس وقت تازہ تازہ امیر ہوا تھا ،امریکہ سے لوٹا ہوا سونا اور ہندوستان کے خزانوں نے یورپ کو ضرورت سے ذیادہ امیربنا دیا تھا،سائنسی مہمات کے لیے یورپ کے پاس وسیع سرمایہ موجود تھا۔ دنیا کے مختلف خطوں کے لیے مہمات روانہ ہوئیں ، سائنس دانوں کی ٹیمیں سائیبیریا، شمالی امریکہ ، مڈغا سکر اور جنوبی افریقہ پہنچیں ، کچھ سائنس دان شمالی کینیڈا اور کیلی فورنیا روانہ ہوئے ، لند ن کی رائل سوسائٹی نے فیصلہ کیا یہ مہمات ناکافی ہیں ، درست اعداد وشمار کے لیے سائنسدانوں کی ایک ٹیم کو جنوب مغربی بحر الکاہل بھی بھیجا جائے ۔

(جاری ہے)

را ئل سوسائٹی نے اس عظیم مشن کے لیے مشہور فلکیات دان چارلس گرین کا انتخاب کیا ، لیکن ساتھ ہی یہ فیصلہ بھی ہوا کہ انتی بڑی مہم کو صرف فلکیاتی مشاہدے تک محدود رکھنا وقت اور سرمائے کا ضیاع ہو گا ،اس کے ساتھ مختلف علوم کے ماہرین اور آٹھ سائنسدانوں کو بھی چنا گیا ، ان میں ماہرین نباتات اور مصور بھی شامل تھے تاکہ وہ نئی دریافتوں کی تصاویر بنا سکیں ، جدید ترین سائنسی آلات اور کثیر سرمائے کے ساتھ اس مہم کو کپتان جوزف کک کی سربراہی میں روانہ کیا گیا ۔

جوزف کک ایک ماہر ملاح ، جغرافیہ دان اور سمندری راستوں کا ماہر تھا ،اپنی ٹیم کو لے کر روانہ ہوا ، یہ لوگ 1768میں روانہ ہوئے ، 1769تاہیٹی میں زہرا کے گزرنے کا مشاہدہ کیا ، بحر الکاہل کے جزائر دیکھے ، آسٹریلیا اور نیوزہ لینڈ کا دورہ کیا اور صرف تین سال بعد یہ قافلہ واپس آ گیا ۔ ان تین سالوں میں جوزف کک نے جو کچھ دریافت کیا وہ تین صدیوں کے مترادف تھا ۔


جوزف کک کی ٹیم واپس آئی تو اپنے ساتھ فلکیاتی ، جغرافیائی ، زمینی ، نباتاتی ، سمندری اور ابلاغی اعداد و شمار ساتھ لائی اور ان اعدادو شمار اور مشاہدات سے نئے علوم وفنون نے جنم لیا ۔ ان نئے علوم میں سب سے ذیادہ فائدہ طب کو ہوا ، اس سے قبل جو جہاز سمندری سفر پر نکلتے تھے ان کا آدھا عملہ راستے میں ہی ہلاک ہو جاتا تھا ،مناسب خوراک کی عدم دستیابی کے باعث سمندری سفر بہت ساری بیماریوں کا سبب بنتا تھا ، سب سے خطرناک بیماری کا نام اسکروی تھا ، اس بیماری میں مبتلا ہونے والے شخص کے مسوڑھوں اور ریشوں سے خون نکلنے لگتا تھا ، مایوسی اور بے چینی بڑھ جاتی تھی ، دانت گرنے لگتے تھے ، جسم پر زخم نمودار ہو جاتے تھے ، بخاراور یرقان کی شکایت بڑھ جاتی تھی اور ہاتھ پاوٴں قابو میں نہیں رہتے تھے ۔

ماضی میں دنیا کے پاس اس بیماری کا کوئی علاج نہیں تھا اورسولہویں سے ا ٹھارویں صدی کے درمیان اس بیماری سے تقریبا بیس لاکھ ملاح ہلا ک ہو چکے تھے ۔ 1747میں ایک برطانوی ماہر طب جیمز لنڈ اس بیماری کا علاج دریافت کر چکاتھا لیکن عوامی سطح پر اس کی پذیرائی نہیں ہوئی تھی ۔ جوزف کک نے جیمز لنڈ کی دریافت کو آزمانے کا فیصلہ کر لیا، اس نے اس سفر میں اپنے ساتھ بہت ذیادہ تعداد میں بند گوبھی کا اچار رکھا جو دوران سفر استعمال ہو تا رہا ، اس کے علاوہ جب بھی یہ مہم خشکی پر پہنچتی کک اپنے ملاحوں کو سبزیاں اور پھل کھانے کی ہدایت کر تا ، یہ آزمائش کامیاب ہوئی اور جوزف کک کا ایک ملاح بھی اسکروی بیماری سے ہلاک نہ ہو ا۔

یہ بہت بڑی کامیابی تھی اور اس کامیابی نے دنیا بھر کے سمندروں میں برطانوی بحریہ کی حکمرانی کی راہ ہموار کر دی تھی ۔ آگے چل کر یہی کامیابی برطانیہ کو آسٹریلیا ، نیوزی لینڈ ، ہندوستان اور کتنے ہی ان دیکھے جزیروں اور ملکوں کی فاتح ا ور حکمران بنا گئی ۔
گزشتہ تین چار صدیوں میں دنیا نے سب سے ذیادہ سرمایہ سائنس اور سائنسدانوں پر خرچ کیا ہے ،جو بات ہم آج اکسیویں صدی میں نہیں سمجھ سکے دنیا تین چار صدیاں پہلے سمجھ چکی تھی ، دنیا جان گئی تھی کہ سائنسی تحقیق پر خرچ کر کے نئی ایجادات اور دریافتیں حاصل ہوں گی اور اس سے دنیاکو کنٹرول کیا جاسکے گا ۔

سائنس پر جتنا سرمایہ خرچ کیا جاتا ہے وہ اس سے کئی گنا ذیادہ لوٹاتی ہے ، امریکہ نے گزشتہ کچھ دہائیوں میں جوہری طبعیات پر اربوں ڈالر خرچ کیے اس کے نتیجے میں جوہری توانائی کے اسٹیشن تعمیر کیے گئے جو امریکی کارخانوں کے لیے سستی بجلی فراہم کرتے ہیں ، حکومت ان کارخانوں سے ٹیکس لیتی ہے اور اس ٹیکس کا ایک حصہ مزید تحقیق کے لیے وقف کر دیا جاتا ہے ۔

دنیا کاہر ترقی یافتہ ملک اس طرح کی سائنسی تحقیقات کے لیے فنڈز مہیا کرتا ہے ، ان ممالک میں قومی پالیسیاں وضع کرنے لیے سائنسدانوں سے رجوع کیا جاتا ہے اور ان سے پیش آمدہ مسائل کے حل کی تجاویز لی جاتی ہیں ۔ توانائی ، صحت ،خوراک اور ٹرانسپورٹ کے مسائل سے لے کر بلدیہ کے مسائل تک سائنسدانوں سے راہنمائی لی جاتی ہے ۔ پہلی اور دوسری جنگ عظیم میں فاتحین کی کامیابی کا انحصار ان کے سائنسدانوں پر تھا ، پہلی جنگ عظیم میں جب دنیا کسی نتیجے پر نہیں پہنچ رہی تھی تومتحارب گروہوں نے اپنے سائنسدانوں کو ٹاسک سونپ دیا اور کچھ ہی دنوں بعد ان ملکوں کی لیبارٹریوں سے خوفناک زہریلی گیسیں ، تباہ کن بم،جنگی طیارے ، ٹینک اور آبدوزیں نکلنے لگیں ۔

دوسری جنگ عظیم میں سائنسدانوں کا کردار اس سے بھی ذیادہ اہم تھا ، امریکی ، برطانوی اور روسی افواج کے بڑھتے ہوئے قدم جرمنی کے گرد گھیرا تنگ کر رہے تھے لیکن جرمن اپنی لیبارٹریوں میں موجود سائنسدانوں سے کسی معجزے کے منتظر تھے ۔ جب جرمن وی 2راکٹ اور جیٹ طیارے بنا نے کے تجربات کر رہے تھے عین اسی لمحے امریکہ میں ، مین ہٹن پراجیکٹ کامیابی سے ایٹم بم بنا رہا تھا ۔

جرمنی کی خوش قسمتی کہ وہ اگست1945سے قبل ہتھیار ڈال چکا تھا ، جاپانیوں نے موت تک لڑنے اور مرنے کاحلف اٹھایا تھا ، امریکی جرنیلوں نے صدر ہیری ٹرومین کو خبردار کیا کہ جاپان پر حملے اور اس کے رد عمل کی صورت میں دس لاکھ امریکی فوجی مارے جائیں گے اور جنگ 1946میں داخل ہو جائے گی ۔ یہ وہ لمحہ تھا جب امریکیوں نے نئے بم استعما ل کرنے کا فیصلہ کیا اور صرف دو جوہری بموں نے جاپانیوں کو ہتھیار ڈالنے پر مجبور کر دیا تھا ۔


پچھلی چار پانچ صدیوں سے دنیا پر عملا سائنس کی حکومت رہی ہے اور سائنس کا دوسرا نام علم ہے ، ہم ان چار پانچ صدیوں میں سائنس اور علم سے جتنے دور ہو چکے ہیں ہمیں واپس آتے ہوئے کم از کم ایک صدی درکار ہے ۔ لیکن واپسی کے سفر سے پہلے یہ ادراک لازم ہے کہ ہم دنیا سے پیچھے رہ گئے ہیں ،افسوس مگر یہ ہے کہ ہماری صفوں میں ابھی تک یہ ادراک بھی پیدا نہیں ہو سکا۔

ہم ہندوستان کے چند ریان مشن کی ناکامی پر رقص کر رہے ہیں ، ہمیں یہ بھی شعورنہیں کہ ہمارا ہمسایہ ادارکی لحاظ سے ہم سے بیس پچیس سال آگے کھڑا ہے ، ہم خود تو کچھ کر نہیں سکے لیکن دشمن کی ناکامی پر تالیاں بجا کر خوش ہو رہے ہیں ۔ کیا اس رویے اور نااہلی کے ساتھ یہ قوم دنیا کی امامت کرے گی ، میرے خیال میں ہمیں شرم سے ڈوب مرنا چاہئے ۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :