
ہم اور ہندوستا ن !
بدھ 11 ستمبر 2019

محمد عرفان ندیم
(جاری ہے)
جوزف کک کی ٹیم واپس آئی تو اپنے ساتھ فلکیاتی ، جغرافیائی ، زمینی ، نباتاتی ، سمندری اور ابلاغی اعداد و شمار ساتھ لائی اور ان اعدادو شمار اور مشاہدات سے نئے علوم وفنون نے جنم لیا ۔ ان نئے علوم میں سب سے ذیادہ فائدہ طب کو ہوا ، اس سے قبل جو جہاز سمندری سفر پر نکلتے تھے ان کا آدھا عملہ راستے میں ہی ہلاک ہو جاتا تھا ،مناسب خوراک کی عدم دستیابی کے باعث سمندری سفر بہت ساری بیماریوں کا سبب بنتا تھا ، سب سے خطرناک بیماری کا نام اسکروی تھا ، اس بیماری میں مبتلا ہونے والے شخص کے مسوڑھوں اور ریشوں سے خون نکلنے لگتا تھا ، مایوسی اور بے چینی بڑھ جاتی تھی ، دانت گرنے لگتے تھے ، جسم پر زخم نمودار ہو جاتے تھے ، بخاراور یرقان کی شکایت بڑھ جاتی تھی اور ہاتھ پاوٴں قابو میں نہیں رہتے تھے ۔ ماضی میں دنیا کے پاس اس بیماری کا کوئی علاج نہیں تھا اورسولہویں سے ا ٹھارویں صدی کے درمیان اس بیماری سے تقریبا بیس لاکھ ملاح ہلا ک ہو چکے تھے ۔ 1747میں ایک برطانوی ماہر طب جیمز لنڈ اس بیماری کا علاج دریافت کر چکاتھا لیکن عوامی سطح پر اس کی پذیرائی نہیں ہوئی تھی ۔ جوزف کک نے جیمز لنڈ کی دریافت کو آزمانے کا فیصلہ کر لیا، اس نے اس سفر میں اپنے ساتھ بہت ذیادہ تعداد میں بند گوبھی کا اچار رکھا جو دوران سفر استعمال ہو تا رہا ، اس کے علاوہ جب بھی یہ مہم خشکی پر پہنچتی کک اپنے ملاحوں کو سبزیاں اور پھل کھانے کی ہدایت کر تا ، یہ آزمائش کامیاب ہوئی اور جوزف کک کا ایک ملاح بھی اسکروی بیماری سے ہلاک نہ ہو ا۔یہ بہت بڑی کامیابی تھی اور اس کامیابی نے دنیا بھر کے سمندروں میں برطانوی بحریہ کی حکمرانی کی راہ ہموار کر دی تھی ۔ آگے چل کر یہی کامیابی برطانیہ کو آسٹریلیا ، نیوزی لینڈ ، ہندوستان اور کتنے ہی ان دیکھے جزیروں اور ملکوں کی فاتح ا ور حکمران بنا گئی ۔
گزشتہ تین چار صدیوں میں دنیا نے سب سے ذیادہ سرمایہ سائنس اور سائنسدانوں پر خرچ کیا ہے ،جو بات ہم آج اکسیویں صدی میں نہیں سمجھ سکے دنیا تین چار صدیاں پہلے سمجھ چکی تھی ، دنیا جان گئی تھی کہ سائنسی تحقیق پر خرچ کر کے نئی ایجادات اور دریافتیں حاصل ہوں گی اور اس سے دنیاکو کنٹرول کیا جاسکے گا ۔ سائنس پر جتنا سرمایہ خرچ کیا جاتا ہے وہ اس سے کئی گنا ذیادہ لوٹاتی ہے ، امریکہ نے گزشتہ کچھ دہائیوں میں جوہری طبعیات پر اربوں ڈالر خرچ کیے اس کے نتیجے میں جوہری توانائی کے اسٹیشن تعمیر کیے گئے جو امریکی کارخانوں کے لیے سستی بجلی فراہم کرتے ہیں ، حکومت ان کارخانوں سے ٹیکس لیتی ہے اور اس ٹیکس کا ایک حصہ مزید تحقیق کے لیے وقف کر دیا جاتا ہے ۔ دنیا کاہر ترقی یافتہ ملک اس طرح کی سائنسی تحقیقات کے لیے فنڈز مہیا کرتا ہے ، ان ممالک میں قومی پالیسیاں وضع کرنے لیے سائنسدانوں سے رجوع کیا جاتا ہے اور ان سے پیش آمدہ مسائل کے حل کی تجاویز لی جاتی ہیں ۔ توانائی ، صحت ،خوراک اور ٹرانسپورٹ کے مسائل سے لے کر بلدیہ کے مسائل تک سائنسدانوں سے راہنمائی لی جاتی ہے ۔ پہلی اور دوسری جنگ عظیم میں فاتحین کی کامیابی کا انحصار ان کے سائنسدانوں پر تھا ، پہلی جنگ عظیم میں جب دنیا کسی نتیجے پر نہیں پہنچ رہی تھی تومتحارب گروہوں نے اپنے سائنسدانوں کو ٹاسک سونپ دیا اور کچھ ہی دنوں بعد ان ملکوں کی لیبارٹریوں سے خوفناک زہریلی گیسیں ، تباہ کن بم،جنگی طیارے ، ٹینک اور آبدوزیں نکلنے لگیں ۔ دوسری جنگ عظیم میں سائنسدانوں کا کردار اس سے بھی ذیادہ اہم تھا ، امریکی ، برطانوی اور روسی افواج کے بڑھتے ہوئے قدم جرمنی کے گرد گھیرا تنگ کر رہے تھے لیکن جرمن اپنی لیبارٹریوں میں موجود سائنسدانوں سے کسی معجزے کے منتظر تھے ۔ جب جرمن وی 2راکٹ اور جیٹ طیارے بنا نے کے تجربات کر رہے تھے عین اسی لمحے امریکہ میں ، مین ہٹن پراجیکٹ کامیابی سے ایٹم بم بنا رہا تھا ۔ جرمنی کی خوش قسمتی کہ وہ اگست1945سے قبل ہتھیار ڈال چکا تھا ، جاپانیوں نے موت تک لڑنے اور مرنے کاحلف اٹھایا تھا ، امریکی جرنیلوں نے صدر ہیری ٹرومین کو خبردار کیا کہ جاپان پر حملے اور اس کے رد عمل کی صورت میں دس لاکھ امریکی فوجی مارے جائیں گے اور جنگ 1946میں داخل ہو جائے گی ۔ یہ وہ لمحہ تھا جب امریکیوں نے نئے بم استعما ل کرنے کا فیصلہ کیا اور صرف دو جوہری بموں نے جاپانیوں کو ہتھیار ڈالنے پر مجبور کر دیا تھا ۔
پچھلی چار پانچ صدیوں سے دنیا پر عملا سائنس کی حکومت رہی ہے اور سائنس کا دوسرا نام علم ہے ، ہم ان چار پانچ صدیوں میں سائنس اور علم سے جتنے دور ہو چکے ہیں ہمیں واپس آتے ہوئے کم از کم ایک صدی درکار ہے ۔ لیکن واپسی کے سفر سے پہلے یہ ادراک لازم ہے کہ ہم دنیا سے پیچھے رہ گئے ہیں ،افسوس مگر یہ ہے کہ ہماری صفوں میں ابھی تک یہ ادراک بھی پیدا نہیں ہو سکا۔ ہم ہندوستان کے چند ریان مشن کی ناکامی پر رقص کر رہے ہیں ، ہمیں یہ بھی شعورنہیں کہ ہمارا ہمسایہ ادارکی لحاظ سے ہم سے بیس پچیس سال آگے کھڑا ہے ، ہم خود تو کچھ کر نہیں سکے لیکن دشمن کی ناکامی پر تالیاں بجا کر خوش ہو رہے ہیں ۔ کیا اس رویے اور نااہلی کے ساتھ یہ قوم دنیا کی امامت کرے گی ، میرے خیال میں ہمیں شرم سے ڈوب مرنا چاہئے ۔
ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
تازہ ترین کالمز :
محمد عرفان ندیم کے کالمز
-
ہم سب ذمہ دار ہیں !
منگل 15 فروری 2022
-
بیسویں صدی کی سو عظیم شخصیات !
منگل 8 فروری 2022
-
میٹا ورس: ایک نئے عہد کی شروعات
پیر 31 جنوری 2022
-
اکیس اور بائیس !
منگل 4 جنوری 2022
-
یہ سب پاگل ہیں !
منگل 28 دسمبر 2021
-
یہ کیا ہے؟
منگل 21 دسمبر 2021
-
انسانی عقل و شعور
منگل 16 نومبر 2021
-
غیر مسلموں سے سماجی تعلقات !
منگل 26 اکتوبر 2021
محمد عرفان ندیم کے مزید کالمز
کالم نگار
مزید عنوان
UrduPoint Network is the largest independent digital media house from Pakistan, catering the needs of its users since year 1997. We provide breaking news, Pakistani news, International news, Business news, Sports news, Urdu news and Live Urdu News
© 1997-2025, UrduPoint Network
All rights of the publication are reserved by UrduPoint.com. Reproduction without proper consent is not allowed.