پاکستان کا اردو تفسیری ادب !!

پیر 30 ستمبر 2019

Muhammad Irfan Nadeem

محمد عرفان ندیم

برصغیر کی دینی روایت میں ، مطالعہ قرآن کا رجحان ہر عہد میں قابل رشک رہا ہے ۔ سیاسی زوال اور دور انحطاط میں ملت کے زعماء نے ، اسی چشمہ صافی کی طرف رجوع کیا اور اپنے فہم و ظرف کے بقدر اس سے راہنمائی کشید کی ۔خاندان ولی اللہ کو ، دینی روایت کے دیگر پہلووٴں کی طرح اس میں بھی سبقت رہی۔شاہ ولی اللہ سے تعلق بالقرآن کا جو سلسلہ الذھب چلا وہ بعد کی کئی نسلوں تک جاری رہا ،یہ خطہ ہمیشہ اس خاندان کا زیر بار احسان رہے گا۔

بعد میں سر سید احمد خان اور ان کے مکتب فکر کی مساعی سامنے آئیں ، اگرچہ یہ مکتب فکر، اپنی فکری کجی، مخصوص حالات اوردرپیش چیلنجز کے باعث اس کتاب سے انصاف نہیں کر پایا مگر لازم ہے کہ ان کوششوں کا اعتراف کیا جائے ۔ زمان و مکان یا تناظربدلنے سے کسی فکر میں تغیر آ جانا قابل فہم ہے ، علمی رویہ یہی ہے کہ اس فکری کجی اور جن نتائج فکر سے اختلاف ہے انہیں دلیل و تہذیب کے ساتھ واضح کر دیا جائے ۔

(جاری ہے)


 بیسویں صدی میں مطالعہ قرآن کی یہ روایت ایک نئے عہد میں داخل ہوئی ۔اس صدی کا آغاز جنگ عظیم کی شروعات سے ہوا، نوآبادیات کے تصور نے بتدریج دم توڑنا شروع کیا ، دوسری جنگ عظیم نے اس پر مہر تصدیق ثبت کی اور بیسیوں نئی قومی ریاستیں وجود میں آئیں ۔اس عالمی منظرنامے کے ساتھ، خطہ برصغیر میں کچھ نئے فتنوں کا ظہور ہوا،فتنہ قادیانیت اور فتنہ انکار حدیث ، ایک مفسر اور شارح اپنے عہدا ور حالات سے بے خبر نہیں رہ سکتا ، لازم تھا کہ اس عہد کی ہنگامہ خیزیوں کا اثر ، اس عصرمیں لکھی جانے والی تفاسیر میں بھی دکھائی دیتا ۔

اس عہد کی تفاسیر میں یہ تاثر واضح دکھائی دیتا ہے ۔
قیام پاکستان کے بعد ،مطالعہ قرآن کی یہ روایت مزید پختہ ہوئی۔دینی مدارس میں تفسیر و اصول تفسیر جیسے مضامین کو بالاہتمام شامل نصاب کیا گیا ، علما ء و مفتیان کرام نے اپنے انداز میں تفسیر لکھنے کا اہتمام کیا ، مدارس و مساجد میں دروس قرآن کے حلقے قائم ہوئے ، مختلف مسالک کے سرکردہ اہل علم نے اپنے مسلک اور فقہی مواقف کے لیے دلائل کشید کرنا شروع کیے۔

پچھلے تیس چالیس سالوں میں جہادی تعبیرات کے لیے بھی قرآنی آیات کو بنیاد بنایا گیا، علوم و فنون کے ماہرین نے ،اپنے انداز میں قرآن فہمی کا سلسلہ شروع کیا جس کے نتیجے میں سائنسی و کلامی تفاسیرمنظر عام پر آئیں۔کچھ متجددین نے،قرآن کی تفسیر کو اپنی متجددانہ سرگرمیوں کی بنیاد بنایا۔ خواتین میں دروس کے حلقے قائم ہوئے ، مختلف یونیورسٹیز کے اسلامک اسٹڈیز ڈیپارٹمنٹس میں مطالعہ قرآن اور علوم القرآن پر تخصصات کا آغاز ہوا ۔

یہ اسی روایت کا نتیجہ ہے کہ اس خطے میں، پچھلی نصف صدی میں اچھا خاصا تفسیری ادب وجود میں آ چکا ہے ۔
میرے لیے یہ امر باعث تسکین ہے کہ میں ایک ایسے خطے میں جی رہا ہوں جو اس وقت اسلام کی علمی ودینی روایت کا مرکز اور مطالعہ قرآن کی روایت کا امین ہے ۔ میری اس بات کے کسی پہلو سے اختلاف ہو سکتا ہے مگر انکار کی گنجائش شاید ہی ممکن ہو ۔ دنیا کے اکثر مسلم ممالک ماضی کی دینی روایت کو اپنے ہاں برقرار نہیں رکھ پائے ، مگر اس خطے میں یہ روایت الحمد للہ اپنی آب و تاب کے ساتھ موجود ہے ۔

جس طرح آج ہم اندلس اور ماوراء النہر کے علاقوں کو اسلام کی علمی ودینی روایت کے مراکز کے طور پر جانتے ہیں ، مستقبل کا موٴرخ یہی مرکزیت اس خطہ برصغیر کو دینے پر مجبور ہو گا ۔ماضی میں عربی و فارسی زبان کو اسلامی علمی روایت کی ترجمان زبانیں سمجھا جاتا تھا ، مستقبل کا موٴرخ اردو کو اسلامی علمی روایت کی ترجمان زبان کہلانے پر بضد ہوگا ۔

آج بہت ساری اردو الاصل کتب انگریزی میں ٹرانسلیٹ ہو کر دنیا کے مختلف خطو ں میں شامل نصاب ہیں اور پڑھا ئی جا رہی ہیں ۔
میرے سامنے اس وقت ” پاکستان کا اردو تفسیری ادب “کتاب پڑی ہے۔ کتاب کے مصنف محترم ڈاکٹر عاصم نعیم ہیں جو پنجاب یونیورسٹی لاہورکے شعبہ اسلامک اسٹڈیز سے وابستہ ہیں ،اس کتاب میں اب تک پاکستان میں شائع ہونے والے اردو تفسیری ادب کا جائزہ لیا گیا ہے ، یہ کتاب ایک طرح کا انسائیکلو پیڈیا ہے جس میں قیام پاکستان سے تاحال، تمام اردو تفسیر ی خدمات کو یکجا کر دیا گیا ہے ۔

کوئی یہ جاننا چاہے کہ قیام پاکستان سے اب تک تفسیر قرآن پر کیا کام ہوا ہے ، کس طرز کی تفاسیر سامنے آئیں ، مشہور تفاسیر کون سی ہیں، غیر مشہور کون سی،مسلکی تفاسیر، دروس قرآن کے حلقے ، جدید تفاسیر ، متجددانہ تفاسیر ، سائنسی تفسیر اور کن اصحا ب علم نے اپنی زندگیاں تفسیر قرآن کے لیے وقف کی ہیں ، یہ سب اس کتاب میں یکجا کر دیا گیا ہے ۔
کتاب کے ابتدائی صفحات میں بطور مقدمہ کچھ چیزو ں کا اضافہ کیا گیا ہے ، مثلا برصغیر میں علم تفسیر کا ارتقاء ، سلاطین اور مغلیہ عہد میں تفسیری خدمات، خاندان ولی اللہی کی تفسیری خدمات اوردور زوال و انحطاط میں تفسیر قرآن جیسے عنوانات ۔

ابتدائی ابواب میں ” پاکستان کا اردو تفسیری ادب“ کے ضمن میں مشہور تفاسیر کا جائزہ لیا گیا ہے جس کے تحت گیارہ مشہور تفاسیر کو موضوع بنایا ہے ، مصنف نے مثالوں سے ان تفاسیرکے رجحانات اور اثرات کا جائزہ لیا ہے ۔اس کے بعد دروس قرآن کے حلقوں کو مخاطب بنایا گیا ہے ، ان حلقوں کی بدولت اچھا خاصا تفسیری ادب وجود میں آیا ، اگلے باب میں مسلکی تفاسیر پر بات ہوئی ہے کہ کن اصحاب علم نے اپنے مسلکی تشخص کے لیے تفسیر قرآن سے دلائل کشید کیے ہیں ، اگلا باب جدید تفاسیر قرآن جیسے اہم موضوع پر مشتمل ہے ۔


ایک باب میں متجددانہ تفاسیر کو مخاطب بنایا گیا ہے ، اس میں غلام احمد پرویز کی مطالب القرآن اور مفہوم القرآن کے علاوہ محترم جاوید احمد غامدی کی تفسیر البیان کے رجحانات کا جائزہ پیش کیا گیا ہے ۔مصنف نے مثالوں سے واضح کیا ہے کہ صاحب تفسیر نے کہاں جمہور کی فکر کو پس پشت ڈال کر متجددانہ فکر کی پیوندکا ری کرنے کی کوشش کی ہے ۔ ایک باب غیر معروف تفاسیر کے لیے خاص ہے ۔

آخری ابواب میں اہل تشیع اور قادیانی تفاسیر کو موضوع بنایا گیا ہے ۔ آخر میں اب تک ظہور میں آنے والے اردو تفسیری ادب کے اثرات و نتائج کا جائزہ لیا گیا ہے کہ اس تفسیری ادب نے سماج کے فکرو عمل کے کن دائروں کو متاثر کیا ۔ مطالعہ قرآن اور قرآن فہمی کے حوالے سے خطہ برصغیر میں اب تک جو مساعی سامنے آئی ، مصنف نے بڑے خوبصورت انداز میں ان کا احاطہ کیا ہے ۔

اس کتاب کو پڑھنے کے بعد ، برصغیر میں مطالعہ قرآن کا پس منظر اور مبسوط خاکہ قاری کی گرفت میں آ جاتاہے ۔
ہماری دینی روایت میں ، مطالعہ قرآن کو وہ اہمیت اور ترجیح نہیں مل سکی جو اسلامی شریعت کے دیگر ماخذات کو ملی ، بعینہ اس امت نے فقہ و سیرت اور دیگر علوم کو جو اعتناء بخشا وہ اس کتاب کے حصے میں نہیں آیا ، اگرچہ خطہ برصغیر اس حوالے سے کچھ ممتاز ہے مگر حق یہاں بھی ادا نہیں ہوا۔

لازم ہے کہ نئی نسل کو اس کتاب ہدایت کی طرف راغب کیا جائے ، اسے بتایا جائے کہ یہ کتاب محض تلاوت کے لیے نہیں بلکہ سمجھنے اور اپنی زندگیوں کو اس نہج پر ڈھالنے کے لیے نازل ہوئی تھی ۔ مصنف نے خطے میں ظہور میں آنے والے تفسیری ادب کی تفصیلات کو یکجا کر کے نئی نسل کا کام آسان کر دیا ہے ، اب اگلا کام انہیں خود کرنا ہے کہ کون اس گلدستے کی خوشبووٴں سے اپنے دل و دماغ کو معطر کرتا اور کون اس سے محروم رہتا ہے ۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :