حادثہ ایک دم نہیں ہوتا !

پیر 16 دسمبر 2019

Muhammad Irfan Nadeem

محمد عرفان ندیم

وکلاء اور ڈاکٹرز ، مسیحاوٴں اور انصاف کے علمبردار وں کے درمیان جو ہوا یہ محض اتفاق تھا یا اس کی جڑیں معاشرتی بنت میں پہلے سے راسخ اور موجودتھیں ،آپ کوئی بھی تجزیہ کر لیں آخری نتیجے کے طور پر ماننا پڑے گا پچھلے دس پندرہ سالوں میں اس سماج کو جس نہج پر ڈھالاگیا یہ اس کا لازمی نتیجہ تھا ۔وکلاء اور ڈاکٹرز کی طرف سے جو صادر ہوا یہ اعلیٰ تعلیم یافتگان کا رد عمل تھا ، ایک لمحے کے لیے تصور کریں ، نیم خواندہ اور ناخواندہ طبقات کی طرف سے، اگر کسی وقت کسی رد عمل کا ظہور ہوتا ہے تو اس کی شدت اور بیہمیت کس درجے کی ہو گی ۔

 
سماج کوئی بے جان شے یا بے حس ادارہ نہیں بلکہ یہ زندہ وجودہے، اس کی بنت اور تعمیر میں جو رویے اور اعمال صرف ہوں گے اس کا ردعمل اس میں لازمی ظہور کرے گا ، ہم نے پچھلے دو دہائیوں میں سماج کی تعمیر و ترقی کا جو سامان کیا ، ہم نے جو فصل بوئی اب یہ پک کر تیار ہو چکی ہے ، اب پھل ملنا شروع ہو چکا ہے، صرف وکیل اور ڈاکٹر ہی کیا آپ سماج کے کسی طبقے کو بھی آزما لیں میرا یقین ہے نتائج مختلف نہیں ہوں گے ۔

(جاری ہے)

بارود کو شعلہ دکھا کر آگ بننے سے کیسے روکا جا سکتا ہے ، سماج میں شدت ، عدم برداشت اور سیاسی و مذہبی انتہا پسندی کو فروغ دے کر امن و آتشی کی تمنا عبث نہیں تو کیا ہے ۔قابل اجمیری کہہ گئے تھے:
وقت کرتا ہے پرورش برسوں 
حادثہ ایک دم نہیں ہوتا 
شاید آپ نے فساد اور بلوے کا سبب بننے والی اصل ویڈیو دیکھی ہو جس میں ایک چھوٹے قد کا ڈاکٹر وکلاء کا مذاق اڑا رہا ہے اور سامنے کھڑے سینئر ڈاکٹرز ، پیرا میڈیکل اسٹاف اور ہسپتال کا دیگر عملہ قہقہے لگا رہا ہے ، میرے لیے یہ باور کرنا مشکل ہے کہ عمر رسیدہ اور سینئر ڈاکٹرز ، خواتین اور عملے کے دیگر سینئر ارکان کے لیے اس تقریر میں کیا چیز باعث دلچسپی تھی ، وہ اس تقریر کے مندرجات سے کیسے اتفاق کر گئے ، انہوں نے اپنی تعلیم ، عمر رسیدگی اور زندگی کے تجربات کا اظہار اختلاف رائے سے کیوں نہیں کیا ۔

سینئر خواتین جو اس تقریر پر قہقہے بر سا رہی تھیں ان کی صنف نازک اورطبع نازک نے انہیں اس فساد انگیز تقریر کے بائیکاٹ پر مجبور کیوں نہیں کیا ۔ میں اس تقریر اور اس میں موجود سینئر، عمر رسیدہ ڈاکٹرز اور خواتین کو دیکھتا ہوں تومیرے لیے یہ باور کرنا مشکل ہوجاتا ہے کہ یہ زندہ اور باشعور سماج کی کسی سرگرمی کا عکس ہے ۔ 
دوسری طرف ایک خاتون وکیل ، کسی تقریب میں گلا پھاڑ کر مردوں کو طعنہ دے رہی ہے کہ تم ڈر گئے ہو ، تم سب ایک دفعہ پی آئی سی کی طرف بڑھواور ڈاکٹرز کو بتا دو ہم کو ن ہیں ۔

میری حیرت کا سامان یہی بھی موجود ہے کہ تقریب میں موجود سینئر وکلاء میں سے کسی ایک کی طرف سے بھی سنجیدگی اور عقلمندی کا مظاہرہ نہیں کیا گیا ۔ ماضی میں جب کھلے میدان میں تلواروں کے ساتھ جنگیں لڑی جاتیں تھیں تب خواتین کو ساتھ رکھا جاتا تھا جو اپنی شعلہ بیانی سے جنگجووٴں کا خون گرماتی اور انہیں غیرت اور شجاعت کا شوق دلاتی تھیں ، خود نبی اکرم زمانے میں کفار نے کئی جنگوں میں اس حکمت علمی کو اپنایا ۔

لیکن اپنے ہی ہم وطنوں اور ہسپتالوں پر حملے اور بلوے کے لیے یہ ہنر آزمایا جائے گا یہ صرف اس سماج کا اعجاز ہے ۔
 پچھلے کچھ عرصے سے تواتر کے ساتھ ایسے واقعات کاظہور ہمیں جھنجھوڑنے کا کافی سامان لیے ہوئے ہیں ، آج وہ بھی ان واقعات کی مذمت میں پیش پیش ہیں جن کا سال ڈیڑھ سال پہلے تک تکیہ کلام یہ ہوا کرتا تھا ،” مارو، جلاوٴ ، گھیرو ، ان کو گریبان سے پکڑ کر نکال دو “، کوئی لال حویلی کے اس مکین سے پوچھے جناب شیخ! اب آپ کے فرمائے ہوئے ارشاد ات عالیہ پر عمل ہو رہا ہے تو مذمتیں کیسی ۔

جب ملک کا وزیر اعظم مخالفین کو دھرنوں کی دعوت دے اور کنٹینر مہیا کرنے کے وعدے کرے ، اپوزیشن لیڈرز کی نقلیں اتارے ،ہفوات اور بدزبانی میں خود مختار ہو تو اس سماج کی اٹھان کس نہج پر ہوگی ، یہ اندازہ کرنا مشکل نہیں ۔ اس پر مستزاد جب ملک کا دانشور طبقہ حقیقت پسندی کی بجائے سیاسی عصبیت کا شکار ہو کر غلط رویوں کے دفاع پر لگ جائے تو اس طرح کے واقعات قابل فہم ہیں۔

اس سارے منظر نامے کو دیکھنے کا ایک اہم پہلو یہ ہے کہ اپنی درسگاہوں کی فکر کی جائے ،اگرچہ درسگاہ بطور ادارہ سماج کا حصہ ہے مگر ان بارے میں کچھ ذیادہ تفکر و تعمق کی ضرورت ہے۔ یونیورسٹی جسے دانش گاہ بھی کہا جاتا ہے ،باقی دنیا میں اعلیٰ تعلیم کا ادارہ گردانی جاتی ہے مگر ہمارے سماج میں یہ ادارے تشدد اور انتہا پسندی کی علامت ہیں ۔

یونیورسٹیوں کے داخلی حالات کسی سے ڈھکے چھپے نہیں ، ابھی کل ہی کی بات ہے اسلام آباد کی یونیورسٹی کی سرزمین ایک ناحق خود سے رنگین ہوئی ، ملک کے طول وعرض میں پھیلی ان دانش گاہوں سے جہاں تعلیم و تحقیق کے سوتے پھوٹنے تھے وہاں سے سرخ رنگ کا صدور ہو رہا ہے ۔ جب علم برائے فروخت ہو اورڈگریاں مارکیٹ کی ڈیمانڈ پر آفر کی جائیں گی تو نتیجے میں پی آئی سی جیسے سانحات کا صدور ہو گا۔

جب علم کو اقدار سے الگ کر کے محض الفاظ اور تھیوریز کو مقصد بنا لیا جائے تو ایسے ہی ڈاکٹر اور وکیل ظہور میں آتے ہیں ۔ 
 ہماری درسگاہوں کا المیہ ہے کہ ان میں جو تعلیم دی جا تی ہے اس میں اخلاقیات اور اقدار کا کوئی نصاب ہے نہ اساتذہ اپنے طور پر اس پہلو پر توجہ دیتے ہیں ، تعلیم خواہ وہ نیچرل سائنسز کی ہو یا سوشل سائنسز کی ان تمام علوم کی بنیادیں اور ماخذات مغربی تصورات ہیں ، مغربی تصورات کو بنیاد بنا کر جو علوم وضع کیے گئے ہیں ان میں مذہب یا اقدار کی کوئی جگہ نہیں ، اس لیے ان علوم کو پڑھنے سے اسٹوڈنٹس میں مذہب کا تصور راسخ ہو پاتا ہے نہ ہی اخلاقیات و اقدار اس کی ذات کا حصہ بن پاتے ہیں ۔

اس کے بر عکس مذہبی تعلیمی اداروں میں عصری ہم آہنگی نہ سہی مگر اخلاقیات اور اقدار ان کی ذات کا حصہ ضرور بن جاتے ہیں اور اس کے مظاہر پچھلے کچھ عرصے میں یہ قوم دیکھ چکی ہے ۔ 
ایمرسن انیسویں صدی کامشہور امریکی شاعر تھا، اس کی خوبی یہ تھی کہ وہ بیک وقت اچھا مقرر ،مصنف اور شاعر تھا ۔ ایمرسن جس قصبے میں رہائش پذیر تھا جب اس قصبے کا پہلا نوجوان یونیورسٹی سے تعلیم حاصل کر کے آیا تو اہل قصبہ نے اس کے اعزاز میں ایک پارٹی کا اہتمام کیا ، ایمرسن کو خصوصی دعوت نامہ ارسال کیا گیا ،تمام معززین نے اسٹیج پر آ کر خیالات کااظہار کیا ، ایمرسن کی باری آئی ،وہ اسٹیج پر آیااور کہا ”میں اس نوجوان کو ملنے کے بعد اس کا گرویدہ ہو گیا ہوں ، میں جب سے اسے ملا ہوں مجھے اس پر رشک آنے لگا ہے ، آپ جانتے ہیں کیوں ؟ اس لیئے کہ اس نوجوان نے یونیورسٹی میں پڑھنے کے باوجود اپنی صلاحیت اور ذہانت کو برقرار رکھا ہے“ ۔

دیگر اسباب کے ساتھ جب تک سیاسی و مذہبی انتہا پسندی اور درسگاہوں میں اخلاقیات و اقدار کی طرف توجہ نہیں دی جائے گی ایسے ڈاکٹرز اور وکلاء اور ایسے سانحات کا ظہورمعمول رہے گا۔ 

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :